پیپلز پارٹی کا ایک رہنما کیا گرفتار ہوا، لگتا ہے پوری پارٹی ''اندر‘‘ ہوگئی ہے۔ایک اور رہنما کی گرفتاری کی تیاریاں مکمل ہیں، ثبوت مانگنے والے اب الزام لگانے سے بھی پیچھے ہٹ رہے ہیں۔نارتھ ناظم آباد اور کلفٹن میں ضیاء الدین ہسپتال پر چھاپوں کے دوران ''پیٹ بھرکے‘‘ ثبوت حاصل کئے گئے ہیں،اب کسی کو شکوہ نہیں ہونا چاہئے کہ ثبوت کہاں ہیں؟ڈاکٹر عاصم کی تو رینجرزکی تحویل میں مہمان نوازی کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔۔۔۔۔ مبینہ طور پر ان کی چکن کڑاہی‘ لسی‘ مچھلی‘انڈا فرائی‘جوس اور سلاد سے تواضع کی جارہی ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی پریشان کیوں ہے؟اس کا جواب لوگ خوب جانتے ہیں۔
ملک میں استعفوں کی سیاست ایک بار پھر عروج پر پہنچنے والی ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہہ دیا ہے کہ اب ہمارے استعفے بھی آئیں گے جس کے بعد اے این پی بھی ان کی تقلید کرے گی۔ آصف زرداری کے سخت پیغام پر بھی وزیر اعظم نواز شریف کی خاموشی چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ ''اب مفاہمت اور میثاق ِجمہوریت کی تدفین کا وقت قریب آن پہنچاہے‘‘۔دہشت گردی اورکرپشن کے خلاف جاری آپریشن ایسا ''اَن گائیڈڈ میزائل‘‘ ہے جو یہ نہیں دیکھے گا کہ ٹارگٹ اپوزیشن
میں موجود ہے یا حکومت میں۔ مبصرین اس وقت سیاستدانوں سے زیادہ فوج کوعوام میں مقبول قرار دے رہے ہیں، جس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے ملک میں جمہوریت کا پودا جیسے ہی درخت بننے کے قریب پہنچتا ہے اس میں کرپشن کے کیڑے لگ جاتے ہیں‘عوام جمہوریت سے بد دل ہوجاتی ہے اورپھر علاج کے لئے فوج کی جانب دیکھنا مجبوری بن جاتا ہے۔مفاہمت کی پالیسی 5 سال تو چل گئی لیکن اس کے پہیے بدعنوانی کی ناہموار سڑک پر چلنے کے باعث مزید سفر کے قابل نہ رہے۔اب ایک بار پھر 90ء کی سیاست کے طعنے دیئے جا رہے ہیں۔میاں نواز شریف اور خورشید شاہ نے مل کر ہی چیئرمین نیب تعینات کیا تھا، لیکن یہ باری میاں صاحب کی ہے اس لئے نیب کا رُخ پیپلز پارٹی کی طرف ہے۔اس سے قبل لوٹ مار سے بھرپوراقتدار کا مزہ پیپلز پارٹی اپنے چیئرمین نیب کے زیر سایہ لوٹ چکی تھی۔ ہر دن عید اور ہر رات شب برات تو نہیں ہوسکتی،ہرعروج کو زوال ہے۔کبھی جلدی، کبھی دیر سے، لیکن حساب کتاب ہونا تو تھا اور ہوکر رہے گا۔اب کوئی استعفے دے،اسمبلی چھوڑ دے،سینیٹ کو خیر باد کہہ دے یا بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کرے،دہشت گردی اور کرپشن کے مریض کو آپریشن ٹیبل پر مرنے کے لئے نہیں چھوڑا جاسکتا۔کوئی قابل ڈاکٹر ادھورا علاج نہیں کرتا۔مریض کے پاس پیسے نہ ہوں تب بھی وہ اس کو بچانے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگادیتا ہے،کیونکہ اس کانام مسیحا ہے۔
ایم کیو ایم اپنے 19مطالبات سے پیچھے ہٹ کرصرف دو مطالبات پر بات کرنے کے لئے راضی ہے۔ان میں اول قائد ایم کیو ایم کی تقاریر وانٹرویوزکی براہ نشر و اشاعت اور دوئم قربانی کی کھالیں جمع کرنے کی اجازت شامل ہیں۔ یہ دونوں مطالبات شاید وزیر اعظم نواز شریف کے اختیار سے باہر ہیں،اس لئے تو اسحاق ڈار نے کہا کہ'' مجھے سمجھ نہیں آتا کہ مذاکرات کون سبوتاژ کررہا ہے ؟‘‘۔ اگست کا مہینہ ایم کیو ایم کے لئے بھاری رہا تو ستمبر پیپلز پارٹی کے لئے ستمگر بن سکتا ہے۔''سو سُنار کی ایک لوہار کی‘‘ کے مصداق ایک ہی گرفتاری میں پیپلز پارٹی کو دن میں تارے نظر آگئے ہیں۔شیخ رشید کے بقول ''یہ تو ٹریلر ہے،اصل فلم تو ابھی شروع ہی نہیں ہوئی‘‘۔
ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری نے ایم کیو ایم کے استعفوں کا معاملہ ٹھنڈا کردیا ہے،مولانا فضل الرحمن کی بھاگ دوڑ بھی کارآمد ثابت نہیں ہو پا رہی۔کہتے ہیں کہ ''آپریشن جتنا مختصر ہو موثر رہتا ہے۔ امریکہ آج بھی افغانستان اور عراق میں موجود ہے اور ناکامی سے دو چار۔آپریشن نہ زیادہ مختصر ہونا چاہئے اور نہ ہی طویل ترین، بلکہ اس کی نوعیت درمیانی ہونی چاہئے تاکہ ثمرات مضمرات میں تبدیل نہ ہوں۔پاکستان میں جمہوری عرصہ اب آمریت سے زیادہ ہوچکا ہے، لیکن اس کے فوائد اب تک عوام کی دہلیز پر نہیں پہنچ سکے‘‘۔
جمہوری حکومتوں نے ہر ماہ ایک کھرب روپے کا قرضہ لیا لیکن جب عوام سیاستدانوں اور میڈیا سے یہ پوچھتے ہیں کہ یہ قرضہ کہاں خرچ ہوا اور ملکی تقدیرکیوں نہیں بدلی؟ تو سناٹا سا چھاجاتا ہے،کسی کے منہ سے ایک لفظ نہیں نکلتا۔حد تو یہ ہے کہ ریلوے لائن کا جو جال انگریز بچھا کر گیا، ہم اس میں ایک فٹ کا اضافہ نہیں کرسکے، یہ اضافہ ہم قرضے میں ضرور کرتے رہے۔ پاکستان کی دکھی اور غمگین قوم سیاستدانوں سے مایوس ہوکر فوج اور رینجرز کی طرف دیکھ رہی ہے اور فوج نے ڈاکٹر عاصم کے بارے میں غیر مفاہمانہ رویہ اپنا کر سندھ کے لوگوں کا دل جیت لیا ہے۔ ڈاکٹر عاصم آج گرفتار نہ ہوتے تو یقیناً ان کے ہسپتال میں مریضوں پرڈھائے جانے والے مظالم پر بھی لکھا جاسکتا تھا۔ مانا کہ پیسہ زندگی میں بہت کچھ ہے، لیکن سب کچھ نہیں۔ پیسے کی ہوس میں مبتلا ہوکر انسان اور انسانیت کی تذلیل کرنا نہ قابل فخر بات ہے اور نہ اس سے آدمی انسان بنتا ہے۔ فقیرانہ لباس میں گھومنے والا عبدالستار ایدھی پورے ملک میں پوجا جاتا ہے، لیکن محلات میں رہنے والا ڈاکٹر عاصم 90 دن کی گنتی پوری کر رہاہے اور اس کی ہمدردی میں کوئی بھی عوامی آواز نہیں آئی۔ عید قربان قریب ہے اور اس بار بکروں ‘دنبوں‘گائے ‘بیل اور اونٹوں کے ساتھ ''کرپٹ کالی بھیڑوں‘‘ کی قربانی بھی ہوسکتی ہے۔