پاکستان ایک طرف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہے اوردوسری جانب ''معاشی دہشت گردی‘‘ کے ''اندھے بھینسے‘‘ کو قابو کرنے کی ناکام سعی کر رہا ہے۔ملک مضبوط ہے، فوج چوکس ہے، حوصلے بلند ہیں، ارادے اٹل ہیں، سرحدیں بڑی حد تک محفوظ ہیں، فوج کے وقار کے پیچھے عوام کی دعائیں اور مائوں کی آرزوئیں شامل ہیں، لیکن ہمارے نااہل ماہرین معاشیات کی غلط منصوبہ بندی کے باعث ملک معاشی طور پر کھوکھلا ہو رہا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پاکستان بھی سوویت یونین کی طرح تکلیف کا شکار ہوجائے۔ پاکستان دو طاقتوں پر قائم ہے... مسلح افواج اور معاشی استحکام۔ گزشتہ چند سال سے پاکستان کا معاشی ایجنڈا تجربات اور لاپروائی کا ایجنڈا رہا ہے۔ باربار اسٹاک ایکسچینج دیوالیہ پن کے قریب پہنچ جاتی ہے۔ آلو‘پیاز‘چینی‘سبزی‘ادرک اور گندم کا قحط پڑ جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان اطراف کے کئی ملکوں کی کُھلی منڈی بنا ہوا ہے۔ ہمارے حکمران قومی وسائل لوٹ کر بیرون ملک اسمگل کرواتے ہیں یا ان وسائل کو فروخت کردیتے ہیں۔ ملک میں خراب معیار کی ادویات فروخت ہوتی ہیں، اشیا کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں جبکہ قوت خرید کم ہو رہی ہے۔گدھے، گھوڑے، سؤر اور مردار جانور کھلائے جارہے ہیں، اس صورت حال کی خوبی یہ ہے کہ کسی کو سزا نہیں ہوتی۔ 1971ء سے لے کر 2015ء تک کوئی انڈا چوری کرے یا ملک توڑ دے، ہمارے ''رحم دل حکمران‘‘ ہر مقدمے کی فائل بند کرکے دیمک اورکاکروچ کی خوراک کا انتظام کرتے رہتے ہیں ۔
ودِ ہولڈنگ ٹیکس کے تنازعے کی وجہ سے تاجروں نے بینکوں سے لین دین ختم کردیا اور ملک کے بینکوں میں سرمائے کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے، لیکن شقی القلب حکمرانوں کی ''ثابت قدمی‘‘ کو دیکھیے کہ مذاکرات کرتے ہیں نہ وضاحتی جواب دیتے ہیں ؛ البتہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سامنے تھر تھر کانپتے ہوئے یس سر ‘یس سرکہتے رہتے ہیں اور پوری قوم کو ٹھوکروں پر اُڑا دیتے ہیں۔ حکمران یہ نہیں سوچتے کہ اللہ نے سودکے کاروبارکو ناپسند کیا ہے، نبی پاک ﷺ نے اسے اللہ سے جنگ قرار دیا ہے لیکن یہ کیا تماشا ہے کہ قومی خزانے میں 18ارب ڈالر خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں؛ البتہ ہمارے حکمرانوں کے نمائندے 50 کروڑ ڈالرکے قرضے کے لئے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا ہر مطالبہ مان کر ود ہولڈنگ ٹیکس کی جمع شدہ رقم ان کے قدموں میں ڈال رہے ہیں۔ کیا خزانے کی وزارت میں کوئی ایسا ذی عقل نہیں جو یہ بتائے کہ قرضے کا بوجھ اور ٹیکسوں کی بھرمار ہماری برآمدات کو ختم کرکے رکھ دیںگے؟ ہماری غلط پالیسیوں کے نتیجے میں آہستہ آہستہ ہمیں ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کی مارکیٹ سے اس طرح نکالا جا رہا ہے جس طرح اسکول سے نالائق بچے کو نکال باہرکیا جاتا ہے۔ بنگلہ دیش میں کپاس پیدا نہیں ہوتی لیکن وہ ہم سے دُگنے مالیت کے گارمنٹس اور بابا سوٹ خلیج کے ملکوں میں برآمد کرتا ہے۔ جاپان میں لوہا پیدا نہیں ہوتا لیکن دنیا میں سب سے زیادہ کاریں وہ بناتا ہے۔ چین کی ترقی کا واحد ''ٹریڈ سیکرٹ‘‘ یہ ہے کہ وہاں بجلی مفت اورٹیکس برائے نام ہے۔ دبئی کی ترقی کے پیچھے ایک سلوگن ہے۔۔۔۔''ٹیکس اینڈ ٹینشن فری‘‘۔ پاکستان کی تباہی کے پیچھے ایک ہی چیز ہے کہ ہر چیز پر ٹیکس، ہر چیز پر پینلٹی (جرمانہ)، بجلی دبئی سے مہنگی، ٹیکس امریکہ سے زیادہ اور سہولیات موئن جودڑو اور ٹیکسلا سے بھی کم۔ اگر کسی کو شک ہو تو وہ کراچی کے سائٹ ایریا کی سڑکوں کی تصاویر بنالے اور موئن جودڑو کی تصاویر سے موازنہ کرلے، فرق واضح نظر آجائے گا۔ جو قوم دودھ دینے والی بھینس کو اچھا چارہ نہیں دیتی،ایسی بھینس کے مرنے کی اذیت ناک خبرکے ساتھ دودھ کی بندش کا صدمہ بھی سہنا پڑتا ہے۔ ہم لوگ پاکستان کے صنعتی شہروں کراچی، لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی، سیالکوٹ، ملتان اور حیدرآباد کے لیے68 سال میں کوئی مشترکہ دیکھ بھال کی اتھارٹی نہیں بنا سکے اور کسی وزیراعظم، صدر، گورنر، وزیر اعلیٰ اورکمشنر تک نے ان ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کا دورہ کیا‘ نہ ہی صنعت کاروں کا حال چال پوچھا۔ ہمارے حکمران قرضوں کے حصول کے لیے دنیا میں کہیں بھی چلے جاتے ہیں، کمیشن اچھا ملنا ہو تو پورا خاندان سامان باندھ کر ساتھ جاتا ہے لیکن اپنے ملک کی خبرگیری توہین سمجھی جاتی ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی کہتے ہیں کہ ہمارے حکمران ''مہمان اداکار‘‘ کی طرح ''آئٹم سانگ‘‘کرنے آتے ہیں اور اپنے حصے کی جیبیں بھرکے واپس چلے جاتے ہیں۔ پہلے صرف بیرون ملک جائیدادیں بنائی جاتی تھیں، پھر اکائونٹ کھولے گئے، کاروبار کیا گیا، علاج معالجہ شروع ہوا، بچوں کی تعلیم و تربیت بھی ہوئی اور اب عالم یہ ہے کہ بچوں کی شادیاں بھی بیرون ملک ہوتی ہیں تاکہ گھٹیا پاکستانیوں کو ان وی آئی پی شادیوں میں بلانے کے لئے دعوت بھی نہ دینا پڑے۔
اگرایک دن کے اخبارات پڑھ لیے جائیں تو لرزہ طاری ہوجاتا ہے۔ عوام ابھی آٹے کے تھیلے پر 20 روپے اضافے کی ''حکومتی لات‘‘ برداشت نہیں کر پائے تھے کہ ایک لٹر دودھ کی قیمت میں 10 روپے کا ''خاموش اضافہ‘‘کردیا گیا۔ ٹی وی کھولیں تو''بریکنگ نیوز‘‘ چل رہی ہوتی ہے کہ اسٹاک ایکسچینج میں ایک دن میں مندی سے سرمایہ کاروں کو 116 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔ دفتر پہنچیں تو اکائونٹنٹ بھاگتا ہوا آتا ہے کہ''بینکوں میں سرمایہ نہیں، پتا نہیں چیک کب کیش ہوگا ؟‘‘ غریبوں کی خیریت معلوم کریں تو پتا چلتا ہے کہ یوٹیلیٹی اسٹورز سے خریداری میں 20 ارب روپے کی کمی ہوئی ہے۔ پاکستان اسٹیل کے پاس تنخواہ کے لیے پیسے نہیں اور آخری خبر اس ڈرکے ساتھ شائع ہوئی کہ ''ٹیکس دہندگان کے لئے نئی آڈٹ پالیسی کے مسودے کی منظوری دے دی گئی‘‘ تاکہ ٹیکس دہندگان کی کھال اتارنے کے بعد ان کی کلیجی اور گردے کیسے نکالے جائیں؟
پوری دنیا بزنس مینوں کو مراعات دے رہی ہے اور ہم بزنس مینوں کے اسکریو(Screw) کَس رہے ہیں اور خوش ہورہے ہیں۔ کراچی سے ہوائی جہاز کے ذریعے ایک گھنٹہ 20 منٹ کے فاصلے پر دبئی موجود ہے جہاں بے پناہ مراعات، سہولیات، لندن جیسی سڑکیں اور فٹ پاتھ، لانڈو(امریکہ) اور سنگاپور جیسے رہائشی منصوبے، عالمی معیارکی تفریح گاہیں اور نیویارک سے زیادہ حسین و جمیل''مرینہ واک‘‘ موجود ہیں، اس لئے لوگ بغیرکسی وجہ کے بھی دبئی چلے جاتے ہیں جبکہ کوئی اہم کام ہی کیوں نہ ہودبئی میں موجود پاکستانی وطن واپس آنے سے کتراتے ہیں۔ ہمارے حکمران یہ بتائیں کہ کیا جمہوریت کے ''سیاہ دور‘‘ میں انہوں نے عوام کے لیے صرف بسیں چلاکر ان کی بے بسی کا مذاق نہیں اڑایا؟ یہ رپورٹ کتنی ہولناک ہے کہ تعلیم پر اپنے سالانہ بجٹ کا صرف 3 فیصد خرچ کرنے والا ملک قرضے اور ٹیکس کی مد میں 45 فیصد ادائیگی کرکے یہودی ساہوکاروں سے داد و تحسین وصول کرتا ہے۔انڈونیشیامیں بھی یہی پالیسی اپنائی گئی تھی اور مشرقی پاکستان کی جدائی کے بعد انڈونیشیا مسلمانوں کا سب سے بڑا ملک بن گیا تھا، آج اس کا نام و تذکرہ بھی کسی کو یاد نہیں۔ پاکستان کو تو اس سے بھی پیچھے لاکر چھوڑ دیا گیا ہے، لیکن ہمارے ''قومی گدھ‘‘ اب بھی اس ملک کو نوچنے اورگوشت کھانے میں مصروف ہیں۔
سوویت یونین کے بکھرنے سے پہلے وہاں بھی ایسی ہی غفلت برتی گئی اور آخری دنوں میں اخبارات خواتین کی تصاویر چھاپنے کے مقابلوں میں مصروف تھے اور بعض اخبارات توصحافتی حدود اس قدر پھلانگ گئے تھے کہ مس ماسکو ، مس روس اور مس آذر بائیجان کے مقابلے کروانے لگے تھے۔ روس کے اخبارات قوم کو جگانے کے بجائے ان کو گمراہ کن تصاویر میں الجھارہے تھے اور بغیر کسی غیر ملکی حملے کے روس ٹکڑے ٹکڑے ہوکر بکھرگیا۔ دوسری جانب مشرق بعید میں مہاتیر محمد (سابق وزیر اعظم ملائیشیا) انڈونیشیا کے حکمرانوںکو سمجھا رہا تھا کہ ''عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے گدِھوں اور چیلوں نے تم پر حملہ کردیا ہے،اپنا بچائوکرو ورنہ یہ تمہیں کنگال کردیںگے‘‘۔ لیکن انڈونیشیا کے حکمران بھی اقتدار کے ساتھ اپنے کاروبارچمکانے میں مصروف رہے، کرنسی اتنی بارگرائی گئی کہ اس میں مزیدگرنے کی سکت نہ رہی، آج صرف ایک ڈالر میں انڈونیشیا کے 14ہزار روپے خریدے جاسکتے ہیں۔
کیا اس قوم کا یہ فرض نہیں بنتا کہ وہ اِن ''معاشی لٹیروں‘‘ کے بارے میں پوچھ گچھ کرے؟کیا ہماری مسلح افواج ملکی معیشت بربادکرنے والوںکو نہیں پکڑ سکتی؟کیا ان کے خلاف کوئی آپریشن نہیں ہوسکتا؟ کیا یہ ہماری احمقانہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے یا پھر بھارتی ایجنڈا ؟ کیا قومی خزانہ کسی کی ذاتی ملکیت ہوتا ہے کہ اس میں سے جو چاہا نکال لیا ؟کیا کسی سے پوچھا جاسکتا ہے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ عدالتوں سے ریمارکس تو اچھے آتے ہیں لیکن اچھے فیصلے کب آئیںگے؟
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک!