سندھ ایک بار پھر اسلام آباد کو جنگ کی دھمکی دے رہا ہے۔ فوری طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ سندھ کے بعض سیاست دان واقعی اسلام آباد سے لڑنا چاہتے ہیںیا پھر یہ گیدڑ بھبکی سے زیادہ کچھ نہیں ۔ سندھ کی جانب سے پنجاب کا ''حقہ پانی‘‘ یعنی گیس بند کرنے کی تڑیاں لگائی جارہی ہیں۔ آئینی طور پر تمام قدرتی وسائل کسی نہ کسی صورت مرکز کے کنٹرول یا نگرانی میں ہیں اور پیپلز پارٹی کے ایک سندھی رہنما مراد علی شاہ کے گیس بند کرنے کے بیان کا سب سے زیادہ اثر پنجاب پر ہوگااور پنجاب سے جواباً کسی جذباتی لیڈر نے کہہ دیا کہ ہم دریائے سندھ کا پانی روک لیں گے۔ واپڈا بجلی کی سپلائی بند کرکے سندھ کو اندھیروں میں ڈبودیا جائے گا‘ سندھ کے کارخانوں میں تیار ہونے والی مصنوعات پنجاب کی منڈی میں نہیں آسکیں گی۔ سندھ کو مالی نقصان پہنچانے کے لئے مختلف جارحانہ اقدامات کریں گے تو ایسی صورت میں قومی یکجہتی کا حشر نشر ہوجائے گا۔ یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے جب وفاق اور فوج کو مداخلت کرنا پڑتی ہے۔ ماضی میں بلوچستان کے بعض لیڈران بھی اس قسم کی دبائو سے بھرپور دھمکیاں دے کر شوق پورا کرچکے ہیں اور اس کا نتیجہ بھی کچھ ایسا نکلا کہ وہاں فوج کو مستقل پڑائو ڈالنا پڑا اور صوبے میں اقتدار کے حصول کا مرحلہ کٹھن ہوگیا۔
دیکھنا یہ ہے کہ سندھ کی موجودہ لیڈر شپ کے پاس اتنی عسکری طاقت ہے یا عوامی قوت کی کیا پوزیشن ہے؟اتنی سٹریٹ پاور ہے کہ وہ اپنی اِس دھمکی کو عملی جامہ پہنا سکے۔ دھمکی دینا آسان لیکن اِسے عملی جامہ پہنانا مشکل ہے۔ 1983ء میں ایم آر ڈی نے اِس سے ملتی جلتی غلطی کی تھی۔ نیشنل ہائی وے اور سپر ہائی وے کوبند کرنے کی دھمکی دی گئی لیکن ایسا ایک دن کیلئے بھی ممکن نہ ہوسکا اور اسلام آباد کی طاقت ور قوتوں نے غلام مصطفی جتوئی کو الگ کرکے پیپلز پارٹی کو ایک شریف النفس اور تجربہ کار لیڈر سے محروم کردیا۔ شاعر کہتا ہے کہ ؎
جس کو ہو جان و دل عزیز
وہ اس کی گلی میں جائے کیوں؟
سیاست کی لڑائی بیلٹ سے اچھی لگتی ہے بُلٹ سے نہیں۔ اگر پیپلز پارٹی نے مراد علی شاہ کی تجویز کے جواب میں طاقت کا استعمال کیا تو اس کا نقصان ممکن ہے پیپلز پارٹی کو زیادہ ہو‘ کیونکہ پیپلز پارٹی عوامی لیگ کی طرح سندھ کی تنہا سیاسی جماعت نہیں ہے‘ ایم کیو ایم بھی موجود ہے جو اکثر اسلام آباد کی اسٹیبلشمنٹ کو '' قلمی دوستی‘‘ کی دعوت دیتی رہتی ہے۔ پیرپگارا نے کھل کر کہا ہے کہ ہم رینجرز کے ساتھ کھڑے ہیں‘ کسی بھی مرحلے پر رینجرز کمزور نہیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کے ضلعی سطح کے کئی مخالف رہنما موجود ہیں‘ خود پیپلز پارٹی میں کئی ایسے افراد
اور گروپ ہیں جو سیاست تو کرنا چاہتے ہیں لیکن لڑائی جھگڑا نہیں چاہتے۔ مراد علی شاہ پیپلز پارٹی کی صف اول کی لیڈر شپ میں نہیں کھڑے‘ اُنہیں پالیسی بیان دینے کا اختیار ہے یا نہیں‘پارٹی کو پہلے یہ فیصلہ کرنا پڑے گا اور کیا پیپلز پارٹی اُن کے بیان کو تسلیم کرے گی؟یا پھر اسے ذاتی رائے کہہ کر ''مٹی پائو‘‘سیاست کی جائے گی۔ اِس سے پہلے پیپلز پارٹی کے ''سب سے بڑے‘‘ نے اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دی تھی لیکن جب انہوں نے اپنے اس بیان کے نتائج پر غور کیا تو وہ خاموشی کے ساتھ ملک سے باہر چلے گئے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مراد علی شاہ سندھ میں رہتے ہیں یا اپنے لیڈر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ''اُنہی‘‘ کو'' پیارے‘‘ ہوجاتے ہیں۔ مراد علی شاہ نے یہ بیان بغیر ہوم ورک کے دیا ہے۔ یہ بیان عجلت میں دیا ہوا بھی لگتا ہے‘ جو لوگ برسوں سے سیاست دانوں کی لوٹ مار پر خاموش تھے اب وہ اپنا کردار ادا کرنے نکلے ہیں تو انہیں ''بزدلانہ غراہٹ‘‘ کا مقابلہ کرنا پڑے گا‘ اس سے پہلے بھی ایک دو لیڈر یہ کوشش کرچکے ہیں لیکن وہ جلد ہی ''سرنڈر‘‘ کرگئے اور ڈٹنا تو دور مقابلہ ہی نہ کرسکے۔ سیاست میں اس قسم کے حالات میں عوام کی ایک بڑی اکثریت پیچھے ہٹ جاتی ہے‘ عموماً فوج کو دھمکایا جاتا ہے کہ مشرقی پاکستان جیسے حالات ہوجائیں گے لیکن مشرقی پاکستان میں نورالامین کو چھوڑ کر قومی اسمبلی کی تمام سیٹوں پر عوامی لیگ جیتی تھی۔ سندھ میں اگر آج بھی جادو کی چھڑی گھمائی جائے اور فرشتوں کی ڈیوٹی لگائی جائے تو تحریک عدم اعتماد ایک نیا پارلیمانی لیڈر پیدا کردے گی‘ یوں مراد علی شاہ کی ساری مرادیں خاک میں مل جائیں گی۔ جب سیاسی جنگ کا رخ عسکری میدان کی طرف موڑا جاتا ہے تو سری لنکا سے لے کر آسام تک کی تاریخ بتاتی ہے کہ ہر جگہ زیادہ عسکری قوت رکھنے والوں کی جیت ہوتی ہے‘ تقریریں کرنے والوں کی نہیں۔ جب کوئی سیاست دان دلیل کا راستہ چھوڑ دیتا ہے تو غلیل سے نکلنے والا پتھر دن میں تارے دکھا دیتا ہے۔مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے ہمیں شکست نہیں دی تھی بلکہ بھارت نے اندر گھس کر مداخلت کی تھی۔
سندھ مشرقی پاکستان سے مختلف صوبہ ہے۔ سندھ کے ایک طرف رن کچھ ہے جو صرف صحرا ہے اور دوسرے حصے میں پیر پگارا کے لڑاکا حُر مجاہدین موجود ہیں۔ اگر آپ سندھ میں اوپر کی طرف جائیں تو سکھر کے قریب پنوعاقل چھائونی موجود ہے۔بھارت کو سندھ میں مداخلت کرنے کے لئے ''بارودی سرنگوں ‘‘ کو عبور کرنا ہوگا‘ اُسے سندھ میں داخلے کے لئے کوئی موٹروے نہیں ملے گا۔ بھارت کا سامنا ''بی آر بی‘‘ نہر سے ہوگا‘ سندھ کوئی حلوہ نہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ پیپلز پارٹی نے اتنی بڑی دھمکی کے لئے ایک شاہ کا کندھا استعمال کیا‘ جس وقت مراد علی شاہ نے یہ کلمات ادا کئے اس وقت نثار کھوڑو جیسے جہاںدیدہ سیاستدان بھی ان کے پہلو میں بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ وہ صرف خاموش تھے یا دل ہی دل میں مسکرا رہے تھے۔ مراد علی شاہ کو پہلے بھی وزارت اعلیٰ سندھ کی گاجر دکھائی گئی تھی لیکن بلاول بھٹو کی حمایت کے باوجود آصف علی زرداری اور قائم علی شاہ نے انہیں وزیراعلیٰ نہیں بننے دیا تھا۔ اب وہ زیادہ بڑی دھمکی دے رہے ہیں دیکھیں کیا رزلٹ نکلتا ہے؟ اپنے موقف پر قائم رہتے ہیں یا پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ لگتا ہے کہ مراد علی شاہ کا یہ تلخ و تند لہجہ تین سید سیاستدانوں کی گرفتاری کے بعد پیدا ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی پر کنٹرولنگ اتھارٹی سید گروپ کی ہے۔ ''سندھ سید ایسوسی ایشن‘‘ فیصلہ کرتی ہے کہ وزیراعلیٰ کون بنے گا۔ پارٹی لیڈر صرف انگوٹھا لگاتا ہے۔پیپلز پارٹی میں سندھ کی حد تک سیدوں کو ''برہمن‘‘ جیسی پوزیشن حاصل ہے۔