ڈی جی رینجرز سندھ جنرل بلال اکبر نے چونکا دینے والا بیان دے کر کراچی کی سیاست میں ہلچل مچادی ہے۔ اُن کا تازہ فرمان یہ ہے کہ ''کراچی آپریشن جاری رہے گا چاہے 25 سال لگ جائیں‘‘ ۔ ڈی جی رینجرز کو اُن کے سیاسی نقاد سندھ کا ''وزیر اعظم‘‘کہتے ہیںکیونکہ اِن سیاستدانوں کوجو خوف ڈی جی رینجرز کا ہے وہ وزیر اعظم پاکستان کا بھی نہیں۔ جنرل بلال اکبر کے پاس ہر کرپٹ سیاستدان کی فائل ہے، وہ فائل پڑھتے بھی ہیں اور فائر بھی کرتے ہیں۔ دو ماہ قبل اسلام آباد میں یہ خبر گرم تھی کہ ستمبر میں ڈی جی رینجرز کا تبادلہ ہوجائے گا۔ یہ اطلاعات بھی تھیں کہ انہیں اچھے عہدے کی پیشکش کی گئی ہے، لیکن ستمبر گزرنے کا جشن انہوں نے 25 سالہ آپریشن کے عزم کا اظہار کرکے منایا۔ اس قسم کے بیانا ت دینا فوجی حکمت عملی کا حصہ ہوتا ہے اور فوج کا سائیکالوجیکل ڈیپارٹمنٹ اس ہتھیار کو بوقت ضرورت موثر طور پر استعمال کرواتا بھی ہے۔ اس بیان سے ان لوگوں کی امیدوں پر پانی پھر گیا جو یہ آس لگائے بیٹھے تھے کہ کراچی آپریشن چند دن کا مہمان ہے اور پھر ''ساڈی موجاں ای موجاں ‘‘ہوں گی۔ یہ بیان ان لوگوں پر یہ واضح کرگیا کہ ''احتساب ِجاریہ‘‘ آسانی سے رکنے والا نہیں۔
پاکستان کی فوج نے بہت کم وسائل کے ساتھ سری لنکا میں تامل ٹائیگرز کے خلاف ایسا ہی آپریشن کیا تھا۔ ان کی پشت پر بھارتی حکومت اور ''را‘‘ تھی، لیکن سری لنکا میں ایسی صفائی ہوئی کہ دہشت گردگروپوں اور ان کے سہولت کاروں کا نام و نشان تک موجود نہیں۔ چند ماہ قبل آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دورہ سری لنکا کے موقع پر اُن کے والہانہ استقبال سے پاک فوج کی سری لنکا میں مقبولیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ آج سری لنکا میں سیاح ان مقامات پر بھی بے خوف و خطر جاتے ہیں جہاں مقامی باشندے بھی جانے سے ڈرتے تھے۔
دہشت گرد باہر سے انتہائی خوفناک اور اندر سے انتہائی بزدل ہوتا ہے۔ یہ دونوں باتیں رینجرز کو معلوم ہیں اور اسی حکمت عملی کے تحت کراچی آپریشن شروع کیا گیا۔ رینجرز کو جس ردعمل کی توقع تھی ویسا نہیں ہوا۔ یہ ملک کے لئے اچھا ہوا اور ان گروپوں کے لئے بھی جنہوں نے آپریشن کا تدبر اور دانائی کے ساتھ مقابلہ کیا اور ''ٹینکوں‘‘سے ٹکرانے کی کوشش نہیں کی۔ صرف لیاری گینگ وارکے کچھ لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہوگئے تھے کہ ہم گولی چلا کر بچ جائیں گے، لیکن یہ اندازے غلط ثابت ہوئے۔۔۔۔۔گینگ بچا نہ ہی وار! عام شہریوں کو علاقے میں بدمعاشی دکھانے والے رینجرز کا وار برداشت نہ کرسکے۔
ڈی جی رینجرز کو اس وقت کراچی کا ہر طبقہ خاموشی سے سپورٹ کر رہا ہے۔ اہلیان ِ کراچی کی حمایت کا اسٹائل الگ ہے، انہوں نے تین چار پارٹیوں کا ساتھ چھوڑ دیا اور اس تاثر کو تقویت دی کہ رینجرز کراچی میں جو کچھ کر رہے ہیں وہ صحیح ہے۔ اس سے کراچی کی سیاسی قوتوں کو ضرور نقصان پہنچا، لیکن لوگ کہتے ہیں کہ جنہیں سیاسی قوتیں سمجھا جاتا ہے ان کی جانب سے سیاست نہیں کی گئی، صرف لوٹ مار کی جاری تھی۔ عوام کی اتنی خدمت بھی نہیں کی گئی کہ وہ سیاسی ایجی ٹیشن کے لئے گھروں سے باہر نکلنے کی نیت تک کریں، سڑکوں پر آنا تو دور کی بات ہے۔ وقت گزر گیا، سانپ نہ جانے کہاںچلا گیا ہے؟ اب لکیر پیٹنے کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔ بقول شخصے کراچی اب غیر سیاسی ہوگیا ہے۔
کراچی میں رینجرز کو پے درپے جو کامیابیاں مل رہی ہیں اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے تحمل کے ساتھ آپریشن میں اقدامات کئے اور کراچی کے لوگوں کو مشتعل ہونے کا موقع بھی نہیں دیا، کچھ کوتاہیاں ضرور ہوئیں۔ عید الاضحی کے موقع پر کھالوں پر توجہ بھر پور رہی لیکن اُن آلائشوں پر کسی کی نظر نہ پڑی جو ایک ہفتے تک سڑتی رہیں اور کراچی کے شہری ناک پر رومال رکھ کر وہاں سے گزرتے رہے۔ کاش کوئی ہوتا جو بلدیہ کراچی کے افسروں کے کان کھینچتا! کراچی لاوارث شہر ہے، ڈی جی رینجرز کو کراچی کے ساتھ سب سے بڑے معاشی ظلم کو بھی سامنے رکھنا چاہیے اور وہ یہ کہ کراچی کا ترقیاتی بجٹ لاڑکانہ سے بھی کم ہے۔ کراچی کے شہری اداروں پر دیہی افسروں اور اہلکاروں کی یلغارہے جنہوں نے ایک ایک فٹ گہری جیبیں سلوارکھی ہیں۔ ڈیفنس اور کلفٹن کے فلیٹس اور بنگلے ایسے خریدے جا رہے ہیں جیسے وہ پھل اور سبزیاں ہوں۔ ڈی جی رینجرز کو کراچی میں ''اکنامیکل پروگرام‘‘ دینا پڑے گا۔ سندھ اب بھی بہت سے کرپٹ افراد کے قبضے میں ہے اور مکمل صفائی ضروری ہے۔کراچی کاسات سال کا ترقیاتی بجٹ کہاں گیا؟ ڈی جی رینجرز اس کا بھی سراغ ضرور لگائیں، ہوسکے تو واپس دلائیں، ڈی جی رینجرز صاحب بھی کراچی میں رہتے ہیں اوراگر کچھ نہیں کرسکتے تو کم از کم کراچی والوں کو حقائق سے ہی آگاہ کردیں کہ ''کراچی کے لوگو! تمہارے ساتھ یہ گیم کھیلا گیا‘‘۔ کراچی کے لوگوں نے رینجرز پر احسان کیا، انہوں نے نہ کسی کے آنے پر خوشی کا اظہار کیا نہ کسی کے جانے پر تالیاں بجائیں، لیکن ڈی جی رینجرز صاحب ! اس شہر میں اُن اداروں نے پانی فروخت کیا جن کو گھر گھر نلکوں کے ذریعے پانی پہنچانے کی تنخواہ ملتی تھی۔ یہ کونسی جمہوریت ہے کہ پانی روک کر مہنگے داموں بیچا جائے؟ اب تک اس سنگین جرم کا کوئی مجرم سامنے نہیں لایا گیا۔ حکومت سندھ نے اخباری اشتہارات کے ذریعے پانی کے ٹینکروں کے نرخ نامے شائع کرائے، اتنا ظلم تو جنگ ِعظیم میں ہٹلر نے بھی نہیں کیا تھا۔ رینجرز نے کتنے پانی چور بلکہ ڈاکو پکڑے؟ اس کا جواب ابھی تک نہیں ملا۔کراچی میں ایک خبر گرم تھی کہ ''ایک شخص کے دبئی کے اکائونٹ میں روزانہ دس کروڑ روپے جمع ہوتے تھے‘‘۔ سینہ گزٹ کے ذریعے یہ خبر رینجرز کو بھی پہنچی ہوگی، امید ہے اس خبر پر بھی توجہ دی جارہی ہوگی، جس کا نتیجہ کچھ عرصے میں سامنے آسکتا ہے۔ مسلمانوں کی فطرت میں پانی سے جذباتی لگائو ہے کیونکہ ہمارا مذہب پانی پلانے کو ثواب قراردیتا ہے۔ رینجرز کو اس سنگین مسئلے کی طرف توجہ ضرور دینا چاہیے۔ کراچی ایک سال تک پانی کے قحط کا شکار رہا۔ یہ بات بھی درست ہے کہ پورے ملک کے دانشور اور ٹی وی اینکرز جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر مرنے‘ مارنے کی باتیں کرتے تھے، کراچی میں پانی کی کھلے عام فروخت پر خاموش رہے، کوئی کچھ نہ بولا۔
ڈی جی رینجرزکراچی میں ایک ایسے آپریشن میں مصروف ہیں جس میں انہیں اس بات کا بھی خیا ل رکھنا ہے کہ شہر کا امن برقرار اور کاروبار زندگی رواں دواں رہے۔ اُن کے اہلکاروں سے کوئی ایسی غلطی نہ ہو جو''مس فائر‘‘ بن جائے۔ ڈی جی رینجرز کو سیاسی صلح کے راستے بھی نکالنے ہیں۔ اگر سیاسی قوتیں بکھر گئیں تو یورپ کے تین ممالک کے برابر اس شہرکو کیسے کنٹرول کیا جائے گا؟ شہر کے اندرونی معاملات ‘ تضادات‘ ثقافتی حد بندیوں اور مختلف تہذیبوں میں تقسیم آبادیوںکو امن وامان کے لئے کس طرح قابو میں رکھا جائے گا۔ ڈی جی رینجر کوئی آسان کام نہیں کررہے، ابھی تک گینگ وار‘ ایم کیو ایم ‘ سنی تحریک‘ طالبان اورجزوی طور پر پیپلز پارٹی ان کے نشانے پر ہے، لیکن اس معاملے میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔ اللہ کرے انہیں 25 سال تک آپریشن جاری رکھنے کی ضرورت نہ پڑے، اس سے پہلے ہی معاملات بہتر ہوجائیں اورکراچی روشنیوں اورسو فیصد انسانوں کا شہر بن جائے۔ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے اس کی حفاظت اسی طرح ہونی چاہیے جیسے امریکی شہری نیویارک اور برطانوی شہری لندن کی کرتے ہیں۔ اس چیز کو سمجھنے اور پاکستانیوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے۔ کراچی کے بہت سے معاملات اسلام آباد کی غلط پالیسیوں نے بھی خراب کئے ہیں ۔ اگر کراچی کو اسلام آباد سے وافر مقدار میں ''آکسیجن‘‘ کی سپلائی جاری رہتی تو کراچی تندرست و توانا ہوتا۔۔۔۔ اور کراچی کا تندرست ہونا پاکستان کی معیشت کے توانا ہونے کی علامت ہوتا ہے، چاہے اسحاق ڈارکتنا ہی زور لگالیں۔