آپریشن میں'' مصروف‘‘ عروس البلاد کراچی میں بلدیاتی انتخابات کا نقارہ بج چکا ہے۔ امیدواروں نے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرادیے ہیں، چھان پھٹک شروع ہوگئی ہے، سیاسی جماعتوں نے آستینیں چڑھالی ہیں، جوڑ توڑ بھی ہو رہا ہے، نئے اتحاد بن رہے ہیں، پرانے حریف اب حلیف کا لقب پائیں گے تو حلیف اب ایک دوسرے کے حریف بن جائیں گے۔ کراچی آپریشن کی ''شکار‘‘ایم کیو ایم دعویٰ کر رہی ہے کہ کراچی ‘حیدرآباد اور سکھر کے میئرز ہمارے ہوں گے۔ دوسری جانب ڈاکٹر فاروق ستار یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمیں دیوار سے لگا کر کسی اور کے لئے راستہ بنایا جارہا ہے۔ انہوں نے یہ بات کئی بار کہی ہے لیکن پارٹی کا نام نہیں لیا۔ واقفان ِ حال کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا اشارہ تحریک انصاف کی طرف ہے۔ ایم کیو ایم کو اس بات کا خدشہ ضرور ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں بھی عید الاضحی جیسا معاملہ نہ ہو، جب سات ارب روپے کی کھالیں سات کروڑ روپے تک پہنچ گئی تھیں۔ اس سے قبل عید الفطر پرفطرے کی صورت حال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں تھی۔ خدشات اور تحفظات کے ساتھ ایم کیو ایم کا کراچی کی میئر شپ حاصل کرنے کادعویٰ بلدیاتی انتخابات کی گرماگرمی بڑھا سکتا ہے۔ یہاں یہ سوال ضرور جنم لیتا ہے کہ '' آپریشن ٹیبل‘‘ پر موجود ایم کیو ایم کس طرح مخالف جماعتوں کا مقابلہ کرے گی؟ کیا ایم کیو ایم کا ''خاموش ووٹر‘‘ پارٹی کو وکٹری اسٹینڈ تک لے جائے گا یا کراچی میں چھوٹی چھوٹی ''جھڑپیں‘‘کسی بڑے تصادم میں تبدیل ہو کر بلدیاتی انتخابات کو خونریز بناسکتی ہیں ؟
لاہور میں این اے 122اور پی پی 147کے نتائج نے جہاں پیپلز پارٹی پر ''سیاسی خود کش حملہ‘‘کیا ہے وہیں اُس کے
اثرات کراچی میں بھی نظر آسکتے ہیں اور پنجابی‘ پٹھان اور ہزارے وال ووٹ تحریک انصاف کے ''بیلٹ بکس‘‘میں جاسکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی پنجاب سے آئوٹ ہونے کے بعد اب کراچی میں بھی نوشتہ دیوار پڑھ رہی ہے۔ بعض ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کو اپنے سیاسی قلعے لیاری میں بلدیاتی انتخابات کے لئے امیدوار بھی نہیں ملے۔ ملیر میں بھی پیپلز پارٹی کی پوزیشن پہلے جیسی نہیں رہی۔ سیاسی حلقے یہ الزام لگاتے ہیں کہ پیپلز پارٹی بلدیاتی انتخابات کو ملتوی کرانے کی کوششیں کررہی ہے تاکہ کچھ وقت مل جائے اور وہ عوام کے ''بھولنے‘‘ کی عادت کا فائدہ اٹھاسکیں۔ اسی لئے پی پی نے عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹا دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کو دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ نیب اور ایف آئی اے کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس صورت حال میں تحریک انصاف کے لئے ''آئیڈیل گرائونڈ‘‘ تیار ہو رہی ہے، ''جیالا ووٹ ‘‘اب ختم ہورہا ہے۔ چند روز قبل بھارتی اخبار ''انڈین ایکسپریس ‘‘نے اپنی رپورٹ میں لکھاکہ''بھٹو کرشمہ ختم ہو رہا ہے اور پیپلز پارٹی کو سندھ میں بلدیاتی انتخابات میں شکست کا خطرہ ہے‘‘۔ پیپلز پارٹی نے ماضی میں ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر اقتدار کی کرسی پر ''قبضہ‘‘جمائے رکھا لیکن اب ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے راستے تقریباً جدا ہوچکے ہیں۔ کراچی کے مضافاتی علاقوں میں پیپلز پارٹی اور اے این پی کی مقبولیت کا گراف انتہائی کم ہوچکا ہے۔ گوٹھوں کی لیزیں منسوخ کی جا رہی
ہیں تو ووٹ کون دے گا؟ شہری علاقوں میں ایم کیو ایم کے یونٹ اور سیکٹر آفس بند پڑے ہیں، کھالیں جمع کرنے کے لئے کیمپ بھی نہیں لگائے گئے۔ کسی گھر کے دروازے پر دستک دینا گرفتاری کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ نظریاتی ووٹر تو کہیں نہیں جاتا لیکن الیکشن میں ہر طرح کا ووٹ ہوتا ہے۔ اوکاڑہ کے حلقے این اے 144کی مثال سب کے سامنے ہے جہاں آزاد امیدوار نے بھاری اکثریت سے مقابلہ جیت کر سیاسی جماعتوں کو بتادیا کہ جو کام کرتا ہے ووٹ اسی کو ملتے ہیں۔
بلدیاتی انتخابات میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ عوام گھروں سے نکل آتے ہیں۔1971ء میں ملک الیکشن کے بعد ہی ٹوٹا تھا اور 1977ئکے انتخابات کے بعد جمہوری نظام کو عوام نے لپیٹ کر پھینک دیا اور مارشل لاء آگیا تھا کیونکہ لوگ گھروں سے باہر نکل آئے تھے۔ کراچی میں بلدیاتی الیکشن ہوں گے تو کئی قوتیں مختلف مقاصد کے لئے فعال ہوسکتی ہیں اور کراچی آپریشن کے نتائج کو بدلنے کی کوششیں بھی کی جاسکتی ہیں۔ پیپلز پارٹی پنجاب میں جن صدمات سے گزری ہے، جس طرح اس کے ووٹوں کی تعداد میں کمی ہوئی ہے، اتنی تیزی سے تو پاکستانی کرنسی بھی ڈالر کے مقابلے میں نہیں گری۔ پیپلز پارٹی اب سندھ میں خوف زدہ ہے کہ کہیں ایسی صورت حال یہاں بھی ہوگئی تو پیپلز پارٹی اپنے طاقتور ووٹ بینک کے دعویٰ کا کیا کرے گی؟ اور اگر ووٹ بینک کی'' برانچ‘‘ ہی بند ہوگئی تو سیاست میں خود کو قد آور کیسے قرار دے گی؟ اب تو حالت یہ ہے کہ اعتزاز احسن جیسے رہنما بھی آصف زرداری پر کھلم کھلا تنقید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ''آصف زرداری پارٹی معاملات میں مداخلت نہ کریں اور بلاول جلد اپنے پرانے انکلز سے جان چھڑالیں‘‘۔ اعتزاز احسن کو شاید معلوم نہیں کہ زرداری صاحب گزشتہ دنوں ایک اجلاس میں اپوزیشن لیڈر بننے کی خواہش ظاہر کرکے پارٹی رہنمائوں کو حیران کرچکے ہیں۔۔۔۔۔ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے!
کہاوت ہے کہ ''دریا کا پانی جب اتر جاتا ہے تو بلی کا بچہ بھی خشک پاٹ پر گھومتا نظر آتا ہے‘‘۔ پیپلز پارٹی کبھی عوام کا لشکر تھا، اس کا بینک ووٹوں سے لبا لب بھرا ہوا تھا، آج مال و دولت تو بہت ہے لیکن ووٹر نہیں مل رہے۔ کراچی میں جب بلدیاتی الیکشن ہوںگے تو پیپلز پارٹی کا کیا کردار ہوگا؟جماعت اسلامی کس طرح مقابلہ کرے گی؟ اُس کے ماتھے پر این اے 246 کی شکست جھومر بن کر لگی ہوئی ہے، جس کے بعد جماعت اسلامی ضمانت ضبط ہونے کا داغ نہیں دھوسکی کیونکہ کراچی میں اس کے بعد کوئی الیکشن نہیں ہوا۔ ایم کیو ایم کراچی کی میئر شپ لینا چاہتی ہے، پیپلز پارٹی اُن کے اس پلان کا حصہ بنے گی یا پھر سامنے آکر مقابلہ کرے گی؟
بلدیہ عظمیٰ کراچی کے اہم شعبوں کے سربراہ دیہی علاقوں سے لاکر سیاسی رشتہ داریاں رکھنے والے افراد کو بنایا گیا ہے جن کے ''ہاضمے‘‘ بھی تیز ہیں اور ''دماغ‘‘ بھی اور وہ ہر پروجیکٹ میں اپنا فائدہ پہلے تلاش کرتے ہیں۔ کراچی میں آج بھی ''کمائو پوسٹیں‘‘ نیلام ہو رہی ہیں، بولیاں لگتی ہیں اور سیٹیں فروخت ہوتی ہیں۔ سب کچھ بند کمروں میں ہوتا ہے اور رینجرز سڑکوں پر گشت کر رہی ہوتی ہے۔ کیا ایم کیو ایم ان تمام افسران (جن کے پاس کراچی کا ڈومیسائل نہیں ہے) کو بلدیہ عظمٰی میں''محکمہ جاتی حکمرانی‘‘ دینے کی غلطی دوبارہ کرے گی یا ان کی قانونی پوزیشن کو چیلنج کرے گی؟ لڑائی دونوں صورتوں میں ہوگی اور یہ لڑائی پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے ''غیبی اتحاد‘‘ کو نقصان پہنچاسکتی ہے۔ سیاسی حلقوں کا یہ سوال بھی ہے کہ ایم کیو ایم کتنا صبر کر سکتی ہے؟ کیا کراچی میں بارہ سے پندرہ سو تک جعلی گوٹھ (گائوں) بھی برداشت کرے گی؟ اور اگر اب ایسا کیا گیا تو کیا کراچی کے عوام ایم کیو ایم کی اس بے اعتنائی کو دل پر پتھر رکھ کر سہہ لیں گے؟ کیوں کہ اب ایم کیو ایم سیاسی لب و لہجہ میں بات کر رہی ہے۔ دوسری طرف رینجرز کے لئے ایک مسئلہ یہ ہے کہ کراچی میں آٹھ سے نو سو یونین اورڈسٹرکٹ کونسلز کے لئے بلدیاتی الیکشن ہوں گے تو تقریباً 3 ہزار سیاسی مورچوں پر امن و امان برقرار رکھنا اس کے لئے ایک چیلنج ہو سکتا ہے۔ اگر اتنے بڑے عمل میں سندھ پولیس سے مدد مانگی گئی تو کیا وہ نیک نیتی سے اُن کا ساتھ دے گی یا پھر اخبارات میں اشتہارات والی سازش کسی نئی صورت میں ہوسکتی ہے۔ کراچی میں بلدیاتی الیکشن بڑی ذہانت اور غیر معمولی پلاننگ کا امتحان ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس محاذ پر کون جیتتا ہے؟