"ISC" (space) message & send to 7575

کراچی کی سیاست اورپیپلز پارٹی کی انگڑائیاں !!

پیپلز پارٹی کا ماضی جتنا روشن تھا مستقبل ایسا نظر نہیں آتا۔تین صوبوں میں ''انٹری‘‘بند ہوجانے کے بعد اب وہ اپنی ''جنم بھومی‘‘سندھ میں ساکھ بچانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ جیالے تمام تر غلطیوں کی ذمہ داری پارٹی کے شریک چیئرمین پر ڈال رہے ہیں ۔بیشتر جیالوں نے تو بلدیاتی انتخابات کی مہم میں زرداری کے نام پر ووٹ مانگنے سے معذرت کرلی ہے ۔جیالوں کا کہنا ہے کہ اب زرداری کے نام پر ووٹ نہیں ملیں گے۔ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ پنجاب‘بلوچستان اور خیبرپختون خوا کے بعد اب سندھ کے سیاسی منظر نامے سے بھی سابق صدر اور شریک چیئرمین آصف زرداری صاحب غائب ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کی مہم کے تشہیری پینافلیکس اور بینرز پر سے زرداری کی تصاویر ہٹادی گئی ہیں ۔شاید جیالے ''مائنس زرداری‘‘فارمولے پر عمل کرتے ہوئے سندھ کی سیاست میں پیپلز پارٹی کوبچانے کی کوشش کررہے ہیں۔
پیپلزپارٹی چھوڑ کر ایم کیو ایم میں جانے والے نبیل گبول واپس پارٹی میں آنا چاہتے تھے لیکن چند ''رکاوٹوں‘‘کے سبب انہیں اپنی ''ڈیڑھ اینٹ ‘‘کی علیحدہ پیپلز پارٹی بنانا پڑگئی ۔ملیر پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے پیپلز پارٹی بینظیر گروپ بنانے کا اعلان کیا ہے۔ناہید خان اور صفدر عباسی پہلے ہی پیپلز پارٹی ورکرز گروپ بناچکے ہیں اور ان کے پانچ ہزار ووٹوں نے این اے 122میں ایاز صادق کی فتح کا راستہ آسان بنایا۔سندھ کے سابق وزیر داخلہ اور آصف زرداری کے بچپن کے دوست ذوالفقار مرزا بھی اپنی الگ ''دکان ‘‘کھول رہے ہیں ۔ سابق وزیر اعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم سے ملاقات میں انہوں نے کہہ دیا کہ '' ارباب صاحب میری پارٹی میں آجائیں گے یا میں ان کی پارٹی میں چلاجائوں گا‘‘۔
پاکستان کی سیاست بھی عجیب ہے کل تک مسلم لیگ کے اتنے دھڑے تھے کہ اے بی سی بھی ختم ہونے والی تھی ۔آج یہ حال پیپلز پارٹی کا ہے ۔ابھی ممتاز بھٹو خاموش ہیں وہ بھی زرداری فیملی کو پیپلز پارٹی پرقابض گروپ سمجھتے ہیں ۔آصف زرداری کی وطن واپسی کے دعوے کرنے والے اب اُن کو بلدیاتی انتخابات کیلئے خطرہ سمجھ رہے ہیں ۔حال ہی میں آصف زرداری نے جمہوریت کی مضبوطی کیلئے ایک بیان داغا کہ ''جمہوریت کے خلاف سازشیں ناکام بنائیں گے‘‘۔عوام حیران ہیں کہ جمہوریت کو خطرہ دراصل کہتے کسے ہیں ؟۔جس ملک میں 20کروڑ افراد کو کبھی گرمی نے ماراتو کبھی لوڈشیڈنگ کا نشانہ بنے ۔پانی کا بحران بدستورموجود ہے تو نیگلیریا بھی انسان کونگلنے کی کوشش کررہاہے ۔ کبھی غربت اور بے روزگاری نے خودکشیوں پر مجبور کیا‘تورہی سہی کسر ڈینگی نے پوری کردی ...لیکن جس جمہوری ملک میں ملیریا کی دوائیاں ڈینگی کے مچھر پر آزمائی جاتی ہوں وہاں عوام کا کیا بنے گا؟
پیپلز پارٹی اس وقت حالت نزاع میں ہے لیکن سیاسی پنڈت کہتے ہیں کہ اگراچھا وقت آگیا تو'' وسائل یافتہ‘‘رہنما و کارکنا ن بھی لوٹ آئیں گے ۔بلاول بھٹو زرداری پارٹی کے ایسے چیئرمین ہیں جن کے ہاتھ پشت پر بندھے ہوئے ہیں۔جس کام کو کرنا چاہیں اسی میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں ۔جس افسر کو ہٹادیں اسے ترقی مل جاتی ہے۔جس وزیر کی شکایت کریں اُس کو ایک اور محکمہ مل جاتا ہے ۔وہ کور کمانڈر سے مل کر جب صورتحال اپنے شریک چیئر مین کو بتاتے ہیں تو جواب ملتا ہے ''کچھ نہیں ہوگا وقت گزرنے دوسب ٹھیک ہوجائے گا‘‘۔
ابھی پیپلزپارٹی ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری کے صدمے سے باہر نہیں آئی کہ اُسے پی ایس او کے سینئر جنرل مینجرنوید عالم زبیری کے حراست میں لئے جانے کادکھ بھی سہنا پڑگیا۔اُدھرایڈووکیٹ جنرل سندھ عبدالفتح ملک نے سندھ ہائی کورٹ کے روبرو اپنے دلائل میں کہا ہے کہ رینجرز کے اختیارات میں توسیع کی توثیق سندھ اسمبلی سے نہیں کرائی گئی اس لئے ڈاکٹرعاصم کی نظر بندی غیرقانونی ہے۔ایڈووکیٹ جنرل کی دلیل پرسندھ ہائی کورٹ نے استفسارکیا کہ اِس وقت ہزاروں افراد رینجرز کی تحویل میں ہیں۔ کیا رینجرز نے حکومت سے اس سے قبل کسی کی گرفتاری کے لئے اجازت لی؟ کیا وہ ایک کیس ایسا بتا سکتے ہیں جس میں رینجرز نے گرفتاری سے قبل اجازت لی ہو؟۔ کیا رینجرزکی شہر میں موجودگی غیر قانونی ہے؟ کیا سندھ حکومت رینجرز کو کہے گی کہ وہ صوبہ چھوڑ دے؟۔
نیب کی جانب سے پیپلزپارٹی کے خلاف احتساب کی ''نئی قسط‘‘ آ گئی ہے، سابق وفاقی وزیر ارباب عالمگیر خان ان کی اہلیہ عاصمہ ارباب‘ سابق وزیر تعلیم سندھ پیر مظہر الحق سمیت کئی وزرا اور عہدیداروں کے خلاف کرپشن کے الزامات میں تحقیقات کی منظوری دے دی گئی ہے۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین نے اس پر شدید برہمی کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ '' نیب اپنے دفاتر سے پیپلز سیکریٹریٹ ہی منتقل ہوجائے تو بہتر ہو گاکیونکہ اس نے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے خلاف فیصلہ دے کر ہمارے دعوے پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے کہ ون پارٹی احتساب کا ایک اور باب شروع ہو گیا ہے‘‘۔ایم کیو ایم بھی کہتی ہے کہ ون پارٹی آپریشن ہورہا ہے اور صرف ہمارے کارکنوں کو پکڑاجارہا ہے اس صورتحال میں ایک سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ پورے ملک میں کیا صرف دو پارٹیاں ہی کرپٹ اور دہشت گرد ہیںدیگر جماعتیں دودھ کی دھلی ہیں یا پھر ان کا نمبر آنے میں ابھی دیر ہے؟۔
اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے یہ بیان جاری کرکے کھلبلی مچادی ہے کہ ''قائم علی شاہ کا کوئی متبادل نہیں‘‘۔سیاسی حلقے اس بیان کو انتہائی اہمیت کا حامل قرار دے رہے ہیں ۔کہا جارہا ہے کہ یہ صرف ''مکھن‘‘لگانے کی بات نہیں بلکہ اس کے پیچھے کئی وجوہ ہیں جو آئندہ چند روز میں کھل کر سامنے آئیں گی۔ وزیر اعلیٰ سندھ کی کرسی کے بارے میں بھی کئی سوالات اٹھیں گے ۔ایک شاہ کا دوسرے شاہ کی تعریف کا مطلب کسی غیر شاہ کو کرسی پر لانے کی منصوبہ بندی کا حصہ بھی ہوسکتا ہے۔
ایک طرف پیپلزپارٹی شریک چیئرمین کی خود ساختہ جلاوطنی کا عذاب سہہ رہی ہے دوسری جانب بلدیاتی انتخابات کی تیاریوں میںبھی مصروف ہے یہ سب کچھ اس وقت ہورہا ہے جب لاہور اور اس سے قبل ملتان کے ضمنی انتخابات کے نتائج عوام کے سامنے آچکے ہیں ۔جہاں پارٹی'' وکٹری سٹینڈ ‘‘پر نہیں تھی بلکہ اسے تماشائیوں کے پہلو میں بٹھادیا گیا۔ ایسے کٹھن حالات میں سندھ میں پیپلز پارٹی کو بلدیاتی الیکشن لڑنا پڑے گا۔سندھ کے ایک تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ'' قومی سیاست میں پیپلز پارٹی کوپہلے آصف زرداری کی ''کارکردگی رپورٹ‘‘ کا نتیجہ بھگتنا پڑرہا تھا کہ اب سندھ میں قائم علی شاہ کی صفر کارکردگی کا عذاب بھی جھیلنا پڑے گا۔پیپلزپارٹی پر عجب وقت آن پڑا ہے۔1971ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی نے سندھ اسمبلی کی 60میں سے 28نشستیں جیتی تھیں لیکن پنجاب کی اکثریتی پارٹی بن کر اُبھری تھی ۔پنجاب کے حالیہ ضمنی انتخابات نے پارٹی کو واپسی کی ٹرین میں بغیر ٹکٹ بٹھا دیا ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ اگر پارٹی کو سنبھالا نہ دیا گیا تومیدان میں مقابلہ کرنا تو درکنار، اُس کے للیے کھڑا رہنا مشکل ہوجائے گا۔پیپلز پارٹی کے لیے بلدیاتی الیکشن میں بھر پور کامیابی اس لئے بھی ضروری ہے کہ صرف اسی صورت سندھ حکومت کا استحکام برقرار رہ سکے گا،ورنہ طالع آزما سندھی سیاستدان تحریک عدم ِ اعتماد کی ''تلوار‘‘ سونت کر کھڑے ہوجائیں گے۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں