"ISC" (space) message & send to 7575

عاشورہ اور کراچی کا سکیورٹی پلان

کراچی کے شہریوں کی زندگی ''تین روزہ تعطیلات‘‘ کے بعد معمول پر لوٹ آئی، کنٹینروںکی دیواریں ہٹ گئیں، بند سڑکیں کھل گئیں، موبائل فون پھر سے ''بولنے‘‘ لگے، ایک موٹر سائیکل پر دو افراد کا بیٹھنا ''قانونی‘‘ ہو گیا۔۔۔۔۔ خوف کا عالم تو ختم ہو گیا لیکن ایک سوال ضرور چھوڑ گیا کہ ہر سال عاشورہ‘ ربیع الاول‘ عید‘ الیکشن اور دوسرے جلسے جلوسوں کے دوران پورے شہر میں خوف اور افراتفری کیوں ہوتی ہے؟ اتنی ہائی پروفائل سکیورٹی کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے کہ پورے شہر کو ایک قلعہ بنا دیا جائے؟ کراچی کے شہری ایک بار پھر تھونپی ہوئی قید سے نکل کر اپنے معمول کی جانب آ گئے ہیں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی حملہ ہونے والا ہے یا کوئی قدرتی آفت آنے والی ہے۔ یہ سب کچھ مقامی اور ملکی انتظامیہ کی نااہلی کے سوا کچھ نہیں۔ کراچی میں مختلف بڑے بڑے تہوار آتے ہیں۔ غم منایا جاتا ہے اور جشن کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ شب برات بھی ہوتی ہے اور عاشور کا سوگ میں ڈوبا دن بھی نظر آتا ہے، لیکن سکیورٹی پلان کی تشکیل میں کوئی مہارت اور شہر سے محبت نہ ہونے کی وجہ سے شہر قائد کے باسی ہر بار تکالیف کا ایک سمندر عبور کرتے ہیں۔ ہر طرح کی پابندیوں سے نقصان شہر اور شہریوں کا ہی ہوتا ہے جس کا اندازہ اس خبر سے لگایا جا سکتا ہے: ''دو دن کے دوران موبائل فون کی بندش سے کمپنیوں کو روزانہ پچاس کروڑ روپے کا نقصان ہوا‘‘۔ چوہدری نثار صاحب جب وزیر داخلہ بنے تھے تو انہوں نے فخریہ کہا تھا کہ ''ہم موبائل سروس بند نہیں کریں گے‘‘، لیکن حیرت ہے کہ وہ بھی رحمن ملک کے نقش قدم پر چل پڑے۔ ملک صاحب تو کسی ''اہم وجہ‘‘ سے موبائل سروس بند کرتے تھے لیکن لگتا ہے کہ شاید وہ ''اہم وجہ‘‘ موجودہ حکومت میں بھی موجود ہے۔
موبائل فون کے بغیر زندگی خوشگوار ضرور رہتی ہے، کسی سیانے کے بقول ''موبائل فون اور بیوی میں زیادہ فرق نہیں، اگر ہوں تو بھی عذاب اور نہ ہوں تو بھی‘‘۔ ہر شخص موبائل فون کا ''نشئی‘‘ ہے۔ کاروبار بند‘ ٹریفک بند‘ سڑکیں بند اور پھر موبائل سروس بھی بند ہو تو شہریوں کی بے بسی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ ماضی میں بھی موبائل سروس بند ہوتی رہی لیکن ٹاورز کو مرحلہ وار ''سوئچ آف‘‘ کیا جاتا تھا۔ اِس بار تو پورے شہر کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا گیا۔ کئی عزاداروں نے شکایت کی کہ ''پورے شہر میں موبائل سروس بند کرکے مشکلات بڑھائی گئیں اور زخمیوں کو اسپتال پہنچانے میں بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا‘‘۔ غیر تجربہ کار بیوروکریسی اور ہر کام کو حکم نامے کے ذریعے کرنے والی پولیس نے سکیورٹی کے نام پر پورے شہر کو ''زندان‘‘ بنا دیا حتیٰ کہ زچگی کے لیے جانے والی خواتین کی نقل و حرکت کو بھی ناممکن بنا دیا گیا۔
دنیا بھر میں ہر جگہ مختلف مشکل ترین اجتماعات ہوتے ہیں لیکن اُن کی حفاظت بھی ہوتی ہے، وہ سب کی پریشانی کا سبب نہیں بنتے۔ حج کا اجتماع ہو یا کربلا کا یوم عاشو ر، انتظامات باقاعدہ نظر آتے ہیں۔ لاکھوں افراد کو کس طرح کنٹرول کیا جاتا ہے؟ ہماری انتظامیہ کو ان سے ضرور سیکھنا چاہیے۔ کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی پروگرام روکا نہ جائے اور پورے شہر کو ''قید خانہ‘‘ بننے سے بھی بچایا جائے؟ ماضی کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جانا چاہیے۔ کراچی میں چار سے پانچ ایسے ایام اور تہوار آتے ہیں جو حساس ہوتے ہیں، جن کی سکیورٹی بھی انتہائی ضروری ہوتی ہے، لیکن اس بات کا خاص خیال رکھا جانا چاہیے کہ شہری زندگی کے معمولات بھی متاثر نہ ہوں۔ مناسب ہو گا کہ ان پروگراموں کی ٹائمنگ کو محدود کیا جائے اور غیر ضروری طوالت سے بچایا جائے۔ بینظیر بھٹو شہید پر دونوں بار حملہ ہوا تو اس کی وجہ وقت کی طوالت تھی۔ سکیورٹی اہلکار چاہے ہزاروں کی تعداد میں ہوں لیکن ایک ہی وقت میں مسلسل ڈیوٹی کرنے سے تھکاوٹ کا شکار ہونا فطری عمل ہے۔ جیکب آباد میں بھی جلوس پر شام کے وقت حملہ ہوا، اس لیے وقت اور علاقوں کو محدود بنایا جائے تاکہ کوئی بھی جلوس یا اجتماع جب اختتام پذیر ہو تو شرکا کسی دہشت گردی یا تخریب کاری کا نشانہ نہ بنیں۔
کراچی ملک کا تجارتی دارالحکومت ہے، ایسے اقدامات سے گریز کیا جائے کہ اس کی معیشت کو دھچکا لگے اور یومیہ اجرت پر کام کرنے والے فاقہ کشی کے کنارے پر پہنچ جائیں۔ ہمارے مذہب میں تو کہا گیا ہے کہ ''جمعہ کی نماز کے بعد رزق کی تلاش میں پھیل جائو‘‘۔ یہ بھی دیکھا جائے کہ ہمارے پڑوسی ممالک ایران‘ سعودی عرب‘ دبئی اور بھارت میں مذہبی اور سیاسی اجتماعات کو کس طرح کنٹرول کیا جاتا ہے۔ کراچی پاکستان کا واحد ''لاوارث شہر‘‘ ہے جو دیہی علاقوں کے افسروں کے چنگل میں قید ہے، انہیں نہ یہاں کے راستوں کا علم ہے نہ ہی گلیوں کا پتا ہے، بس کنٹینروں کی ایک بوتل بنا کر اس میں سے لوگوں کو گزارا جاتا ہے اور یہ لوگ شام کو جشن مناتے ہیں کہ کوئی دہشت گردی کا واقعہ نہیں ہوا۔ ہمارے پاس سکیورٹی کا کوئی مستقل تحریری پلان نہیں۔ ''اچانک اور ہنگامی منصوبے‘‘ پر اکتفا کی جاتی ہے۔ سکیورٹی اس طرح ہونی چاہیے کہ مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے جلوس کے شرکا کو پتا چلے کہ ان کی جان و مال کو محفوظ بنایا جا رہا ہے، انہیں یہ محسوس نہیں ہونا چاہیے کہ ان اقدامات کی وجہ سے وہ خود عذاب میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ ان سوراخوں اور راستوں کو بند کیا جائے جہاں سے دہشت گرد آتے ہیں، ان راستوں کو بند نہ کیا جائے جو شہریوں کے زیر استعمال ہوں اور کاروبار متاثر ہو جائے۔ میڈیا کی کوریج ایسی ہونی چاہیے کہ کوئی دہشت گرد اس کا فائدہ نہ اٹھا سکے۔ براہ راست نشریات کسی بھی بڑے سانحے کا سبب بن سکتی ہیں کیونکہ لمحہ بہ لمحہ پوری صورت حال سے سب کو آگاہ کرنا نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ دہشت گرد بھی براہ راست کوریج کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ 3 سے 4 کلومیٹر طویل جلوس کے لیے 400 کلومیٹر کے شہر کے موبائل فون ''خاموش‘‘ کر دینا کون سا سکیورٹی پلان ہے؟ اور یہ کہاں کی عقلمندی ہے؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں