کراچی ایک بار پھر ''قانونی حملے‘‘ کی لپیٹ میں ہے۔ ٹریفک پولیس کو اچانک خیال آیا کہ 38لاکھ رجسٹرڈ گاڑیاں ہیں تولائسنس یافتہ ڈرائیوربھی اتنے ہی ہونے چاہئیں۔بس پھر کیاتھا،آناً فاناً اقدامات کئے گئے۔ڈی آئی جی ٹریفک نے ٹریفک کنٹرول کرنے کی بجائے جج کی کرسی سنبھال لی اور کہا کہ ''لائسنس نہ رکھنے والاشہری ایک ماہ تک جیل کی ہوا کھائے گا‘‘ شہریوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ڈھائی کروڑ آبادی کے شہر کیلئے صرف تین لائسنس برانچوں پر کھڑکیاں دروازے توڑ رش لگ گیا۔شہریوں نے لائسنس آفس کی دیواریں پھلانگنا شروع کر دیں۔قانون پسند شہریوں نے پریشانیاں اٹھائیں،قطاریں بنائیں،دیہاڑیاں گنوائیں اور پولیس کی لاٹھیاں بھی کھائیں۔ لیکن 26لاکھ لائسنس تین ماہ تو دورتین سال میں بھی نہیں بن سکتے۔ کراچی میں12لاکھ لائسنس ہولڈر ہیں،جن میں سے اکثریت پبلک ٹرانسپورٹ چلانے والوں کی ہے۔اِس وقت موٹر سائیکل چلانے والوں کی اکثریت کے پاس ڈرائیونگ لائسنس نہیں۔کراچی کے ریڈ زون میں کئے گئے ایک اخباری سروے میں دلچسپ بات سامنے آئی ہے کہ ٹریفک اہلکاروں میں سے 88فیصد کے پاس ڈرائیونگ لائسنس نہیں اور جن 12فیصد افسران کے پاس لائسنس ہیں وہ بھی سرکاری گاڑیوں کے اجراء کیلئے مجبوری میں بنوائے گئے۔
کراچی کی ٹریفک پولیس بے ہنگم ٹریفک جام کو کنٹرول کرنے کے علاوہ ہر وہ کام کرتی ہے جس کا ملبہ شہریوں پر گرتا ہے۔کچھ عرصہ قبل ہیلمٹ کے تیس ‘چالیس کنٹینر کیا آگئے کہ خواتین کو بھی موٹرسائیکل پر بیٹھنے کیلئے ہیلمٹ پہننے کا '' شاہی حکم‘‘سنا دیا گیا۔۔۔۔۔۔پورے شہر میں افراتفری مچ گئی۔دو دن تک شہریوں کی جانب سے ''بہترین کلمات‘‘سننے اور میڈیا کی کڑی تنقیدکے بعد یہ حکم واپس لیا گیا۔ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ ہیلمٹ سے بھرے دس ‘بیس کنٹینر تو فروخت ہو ہی گئے۔ ابھی یہ معاملہ ''ٹھنڈا‘‘ ہی نہ ہوپایا تھا کہ سکول کی وینوں میں سے سی این جی نکلوانے اور پیلا رنگ کروانے کا ''آرڈر‘‘جاری کردیا گیا ۔پھر احتجاج شروع ہوا،شور مچاکہ ییلوکیب سکیم کا ''ری پلے ‘‘کراچی میں کیوں دکھایا جارہا ہے ؟کیاکراچی کے شہری اتنے لاوارث ہیں کہ کوئی بھی تجربہ یہیں سے شروع کیا جانا ضروری ہے ؟ ۔
شہریوں کے رش سے ہر گز یہ اندازہ نہ لگایا جائے کہ کراچی ٹریفک پولیس نے مفت ڈرائیونگ لائسنس بنا کردینے کا کوئی اعلان کیا ہے۔بلکہ یہاں تو لرننگ لائسنس کی فیس میں اضافے کے علاوہ مفت فارم کے بھی ریٹ مقرر کردیئے گئے۔سرکاری چالان کا حساب لگایا جائے تو 10ارب روپے جمع ہوں گے،لیکن یہ کہاں خرچ ہونگے کسی کو معلوم نہیں،کراچی میں خرچ ہونگے یا دبئی چلے جائیں گے یہ سوال بھی ہرایک کی زبان پر ہے۔اتنی عجلت میں اچانک فیصلوں سے اب تک ٹریفک پولیس کو ہر بار سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ معلوم نہیں ایسے کون سے مشیر ہیں جوٹریفک پولیس کی''بے عزتی‘‘ کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
ٹریفک پولیس کی کہانی بھی عجیب ہے۔کہا جاتا ہے کہ نواب شاہ کی کسی خاتون رہنما نے تین سے ساڑھے تین لاکھ روپے فی کس وصول کرکے ''فٹ ‘‘اور ''اَن فٹ‘‘افراد کو سپاہی بھرتی کرلیا،جس کیلئے قدکاٹھ اورتعلیم دیکھنے کے بجائے صرف ''زبان‘‘دیکھی گئی ۔ جب یہ بھرتی ہوگئے تو ٹریننگ میں پاس ہونے کا سر ٹیفکیٹ جاری کرنے کیلئے بھی ''سلامی‘‘لی گئی،پھر اچھی پوسٹنگ کیلئے ''نذرانہ ‘‘وصول کیا گیا۔مختلف حربوں سے غیرزرخیزاور مُردہ سیٹوںکو ''کمائوپوسٹ‘‘میں بدل دیا گیا۔ تبادلوں کے ریٹ الگ سے مقرر ہیں۔خود سپریم کورٹ بھی چیخ پڑی کہ ''آئی جی سندھ نے سندھ پولیس کا ڈھانچہ تباہ کردیا ‘کیا سندھ پولیس کا کام بھی اب سپریم کورٹ کرے گی‘‘۔
سندھ حکومت کے ایک اعلیٰ افسر نے اعتراف کیا ہے کہ پولیس میں جرائم پیشہ افراد بھرتی کئے گئے ہیں۔۔۔۔۔۔یہ انتہائی خوفناک بات ہے کہ چوکیدار ہی چور ہو تو کون کسے پکڑے گا؟۔۔۔۔۔۔سندھ حکومت اتنی ''رحم دل‘‘ہے کہ کتنا ہی بڑا واقعہ ہوجائے وہ سخت ایکشن لے کر کسی کو ناراض نہیں کرتی بلکہ بھینس کی طرح متاثرہ حصے کی کھال کو ہلادیتی ہے اور ایسا تاثردیا جاتا ہے کہ مسئلہ حل ہوگیا۔لاڑکانہ کے ڈی آئی جی نے بھی پریس کانفرنس میں اعتراف کیا تھا کہ ''لاڑکانہ ڈویژن میں کئی جرائم پیشہ افراد کو پولیس میں ملازمتیں دی گئی ہیں لیکن وہ کسی کے خلاف بھی کارروائی نہ کرسکے کیونکہ راستے میں وہی ''خاتون رہنما‘‘آجاتی ہیں‘‘۔
کراچی میں ٹریفک جام کا مسئلہ روز بروز سنگین ہوتا جارہا ہے۔ایک جانب پولیس کے پاس تجربہ نہیں۔تو دوسری طرف غیرمقامی پولیس کی وجہ سے پورا شہر''سائیں سائیں‘‘کررہا ہے،جہاں سگنل نہیں وہاں اہلکار بھی نظر نہیں آتے،لیکن وہاں ٹریفک اہلکارضرور پائے جاتے ہیںجہاں سگنل بھی موجود ہو۔اس کے باوجود ٹریفک کی بے ترتیبی کے نتیجے میں سگنل کی بجائے لوگ لال‘پیلے ہوتے نظر آتے ہیں۔اور پھر ٹریفک اپنی مرضی سے چلنا شروع ہوجاتی ہے۔
دنیا بھرمیں ٹریفک کا نظام حکومتیں نہیں بلدیاتی ادارے چلاتے ہیں اور میئریا ناظم اس کا سربراہ ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔لیکن جس ملک میں بلدیاتی اداروں کو اپنے'' اختیارات کی سوکن‘‘ سمجھا جائے وہاں بنیادی سہولیات سمیت ٹریفک کے مسائل کا پیدا ہونا فطری عمل ہے۔ہماری ''بے چاری ‘‘صوبائی حکومت پر اتنا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے کہ بنتا کام بھی بگڑجاتا ہے ۔ عوام تکلیف کے سمندرمیں غم کے غوطے لگانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
ڈی آئی جی ٹریفک کی شہریوں کو جیل بھجوانے کی دھمکی پر سنجیدہ حلقوں نے کڑی تنقید کی ہے۔کسی نے اِسے توہین عدالت کہا تو کسی نے شہریوں کے ساتھ کھلامذاق قرار دیا۔۔۔۔۔۔ ایک دل جلے نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ ''چیف سیکریٹری اور آئی جی سندھ تو ویسے ہی ضمانت پر ہیں اب کیا ڈی آئی جی ٹریفک بھی ضمانت قبل از گرفتاری کرائیں گے؟‘‘۔