کراچی کے کچھ سیاسی گروپ یہ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات میں خون ریزی کا شدید خطرہ ہے۔ اندرون سندھ سے بھی یہ آوازیں آرہی ہیں کہ الیکشن ''لہولہان‘‘ہو سکتا ہے۔ دونوں طرف کی قوتیں ووٹ مانگنے کے لیے منہ کھولنے کی بجائے ایک دوسرے کودانت دکھا رہی ہیں، انتخابات سے زیادہ لڑائی کی تیاریاں نظر آ رہی ہیں۔ بعض حساس علاقوں میں اسلحہ جمع کرنے کی بھی سرگوشیاں سنائی دے رہی ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ '' پانی پت‘‘ کا میدان سجنے والا ہے، جہاںتلواریں ٹکرانے کی آوازیں قریب سے سنائی دے سکتی ہیں۔ کراچی میں جب ایم کیو ایم کے ایک پر جوش علاقائی لیڈر سے پوچھا گیا کہ '' کیا لڑائی جھگڑے کا امکان ہے؟‘‘ تو انہوں نے جواب دیا کہ ''ہمیں جھگڑے اور مارکٹائی کی کیا ضرورت ہے؟ ہم تو ویسے ہی الیکشن جیتنے والے ہیں، اپنی فتح کے جشن کو کیوں خراب کریں؟ ہمارا چند روز قبل برنس روڈ پر ہونے والا انتخابی جلسہ خود بتا رہا تھا کہ اس کا سائز اور مجمع کتنا بڑا تھا، جلسے کے اختتام تک عوام کے قافلے آتے رہے۔ کراچی کی دیگر سیاسی جماعتوں کو اتنا بڑا جلسہ کرنے کی تیاریوں میں ایک مہینہ لگ جاتا ہے پھر بھی جلسہ گاہ پوری نہیں بھرتی‘‘۔
کراچی کی میئر شپ جیتنے کی دعوے دار جماعت اسلامی کی سرگرمیاں ابھی اتنے جوش و خروش کے ساتھ نظر نہیں آ رہیں۔
پہلے یہ خیال تھا چونکہ آپریشن کی وجہ سے ایم کیو ایم کے کارکن روپوش ہیں اور ایم کیو ایم کے ہاتھ پائوں بندھے ہیں اس لیے میدان مارنا آسان ہوگا، لیکن اچانک ایم کیو ایم کے رہنمائوں اور رینجرز کے درمیان ایک ملاقات ہوئی، کراچی آپریشن کی تعریف کی گئی، ہاتھ پائوں کھولنے کی اطلاعات بھی آنے لگیں، جس کے بعد یہ خبر بریک کی گئی کہ ''ایم کیو ایم نے اپنے تمام یونٹ اور سیکٹرز کھول دیئے ہیں‘‘۔ ایک دو دن گزر گئے اور رینجرز کی جانب سے کوئی سخت کارروائی نہیں ہوئی۔
پیپلز پارٹی نے اپنے سیاسی گڑھ لیاری کی کئی یونین کمیٹیوں میں امیدوار کھڑے نہ کر کے کیا پیغام دیا ہے؟ لیاری کا میدان جان بوجھ کرخالی چھوڑا گیا یا پھر کل تک 'تیر‘کے لیے جان دینے والے امیدوار اب جان چھڑا رہے ہیں؟ پیپلز پارٹی لیاری سے غائب ہے اور وہاں آزاد امیدوار ہی ایک دوسرے کو للکار رہے ہیں۔ آزاد امیدواروں کے لیے یہ آسانی ہوتی ہے کہ وہ تیل اور تیل کی دھار دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔ اُن کا ''سودا‘‘ بھی کھڑے کھڑے ہو جاتا ہے۔ آزاد امیدوار جس پارٹی میںچاہیں جاسکتے ہیں، وہ سب کی ''آوازیں‘‘ سنتے ہیں اور پھر''ضمیر‘‘ کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں۔ کراچی کی سیاست میں بہرحال یہ سوال ''ملین ڈالرکوئسچن ‘‘ بن گیا ہے کہ لیاری میں پیپلز پارٹی امیدوار کیوں کھڑے نہ کرسکی؟ اس کی وجہ کوئی نہیں جانتا اور نہ ہی پیپلز پارٹی کے کرتا دھرتا اس کا ''قابلِ ہاضمہ‘‘ جواب دیتے ہیں۔
کراچی میں عوامی نیشنل پارٹی بھی کبھی ووٹ بینک رکھتی تھی، اس جماعت کے یہاں سے پارلیمنٹیرین بھی منتخب ہوچکے ہیں، لیکن اس بار اے این پی کی صورت حال بھی پیپلزپارٹی سے زیادہ مختلف نہیں۔ جدون‘ کچھی اور چھاچھی برادری کا علاقہ کیماڑی اے این پی نے خالی چھوڑ دیا ہے۔ مقبولیت میں کمی کی وجہ سے امیدوار میدان میں اتارے ہی نہیں گئے جبکہ اے این پی کے کئی کارکنان دوسری پارٹیوں میں جا چکے ہیں۔
جس طرح سب کو بلدیاتی الیکشن لڑنے کا موقع دیا جا رہا ہے اسی طرح جماعت اسلامی کو بھی موقع مل گیا کہ وہ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں اپنی برتری ثابت کرسکے۔ کراچی میں جماعت اسلامی تمام بلدیاتی حلقوں میں توحصہ نہیں لے رہی لیکن نصف سے کچھ کم شہر میں اُس نے اپنے امیدوار کھڑے کئے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف نے پنجاب میں جو غلطی کی وہی کراچی میں دہرا رہی ہے۔ جماعت اسلامی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ اور 35 فیصد کوٹہ جماعت اسلامی کو دینا تحریک انصاف کی بڑی سیاسی غلطی ہوسکتی ہے۔ جماعت اسلامی کا ''ٹیسٹ‘‘ کراچی کے شہری ''چکھ ‘‘چکے ہیں۔ تحریک انصاف ان کے لیے ''نیا فلیور‘‘ضرورتھا، لیکن ''مکسچر سیاست‘‘ کراچی کے شہریوں کو پسند نہیں۔ یہاں ''یس‘‘ اور ''نو‘‘ کا کلچر عام ہے، اسی لیے درمیان کا کوئی راستہ نہیں رہتا۔ جماعت اسلامی کو کئی بار آزمایا جاچکا ہے، دوبار شہر کی میئرشپ بھی جماعت کے پاس رہ چکی ہے۔ پنجاب میں ٹکٹوں کی تقسیم میں غلطیوں اور لیڈر شپ کے اختلافات نے تحریک انصاف کو بہت نقصان پہنچایا، لیکن حیرت ہے کہ اس نقصان سے کوئی سبق سیکھنے کے بجائے تحریک انصاف نے کراچی میں دونوں غلطیاں نہ صرف دہرائیں بلکہ اس میں ایک اضافہ جماعت اسلامی سے اتحاد کی صورت میں بھی کیا۔ دھاندلی سے ڈھائی سال مقابلہ کرنے والی تحریک انصاف اپنی پالیسیوں سے لڑنے میں کتنا وقت لگاتی ہے، یہ وقت خود بتادے گا۔
جماعت اسلامی نے این اے 246 جیسے نتائج سے بچنے کے لیے اپنی حکمت عملی تبدیل کی ہے اوراب وہ تحریک انصاف سے انتخابی اتحاد کے فوائد سمیٹنے میں لگی ہوئی ہے، کیونکہ اِس بار جماعت اسلامی اگر کچھ حلقوں میں انتخابات نہ جیت سکی تو وہ کم از کم اپنی ضمانت اور عزت بچانے میں کامیاب ہوجائے گی، کیونکہ تحریک انصاف کے ووٹ انہیں متعدد حلقوں میں سہارا بھی دیں گے اور ووٹوں کی تعداد میں اضافہ کر کے اگلے الیکشن میں دھوم دھام سے آنے کا موقع بھی!
بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ سر پر آ گیا ہے۔ 19نومبر کو حیدرآباد اور میرپورخاص سمیت سندھ کے 15اضلاع میںالیکشن ہوں گے، لیکں دلچسپ بات یہ ہے کہ حیدرآباد کی 768نشستوں میں سے 257 امیدوار بلامقابلہ منتخب ہوچکے ہیں۔ اسی طرح میرپورخاص میں بھی 488 نشستوں میں سے 115امیدواروں کے سامنے کوئی کھڑا نہیں ہوا۔ شہید بینظیر آباد کی صورت حال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں، بلدیاتی الیکشن اب تک تو 2013ء کے عام انتخابات کا ''ری پلے‘‘ ثابت ہو رہا ہے، جہاں جس نے جو سیٹ جیتی وہیں وہی وہ سیٹ جیت رہا ہے، پارٹی پوزیشن میں بھی زیادہ فرق نہیں۔ حالات اور واقعات کی روشنی میںسیاسی پنڈت ایم کیو ایم کے متوقع نتیجے کو بھی ماضی جیسا ہی قرار دے رہے ہیں۔