ایک دفعہ ایک گدھا ایک گہرے کنویں میں جا گرا اور زور زور سے رینکنے لگا۔گدھے کا مالک کسان تھا جو کنویں کے کنارے پہ کھڑا اسے بچانے کی ترکیبیں سوچ رہا تھا‘ جب اسے کوئی طریقہ نہیں سوجھا تو ہار مان کر دل کو تسلی دینے لگا کہ گدھا تو اب بوڑھا ہو چکا ہے، وہ اب میرے کام کا بھی نہیں رہا، چلو اسے یوں ہی چھوڑ دیتے ہیں اور کنویں کو بھی آخر کسی دن بند کرنا ہی پڑے گا، اس لیے اسے بچا کر بھی کوئی خاص فائدہ نہیں۔ یہ سوچ کر اس نے اپنے پڑوسیوں کی مدد لی اورکنواں پاٹنا شروع کر دیا۔ سب کے ہاتھ میں ایک ایک پھاوڑا تھا جس سے وہ مٹی، بجری اور کوڑا کرکٹ کنویں میں ڈالتے جا رہے تھے۔گدھا اس صورت حال سے بہت پریشان ہوا، اس نے اور تیز آواز نکالنی شروع کر دی۔ کچھ لمحے بعد گدھا بالکل خاموش سا ہو گیا۔ جب کسان نے کنویں میں جھانکا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ جب گدھے کے اوپر مٹی اور کچرا پھینکا جاتا ہے تو وہ اسے جھٹک کر اپنے جسم سے نیچے گرا دیتا ہے اور پھر گری ہوئی مٹی پر کھڑا ہو جاتا ہے۔ یہ سلسلہ کافی دیر تک چلتا رہا۔ کسان اپنے پڑوسیوں کے ساتھ مل کر مٹی اور کچرا پھینکتا رہا اور گدھا اُسے اپنے بدن سے ہٹا ہٹا کر اوپر آتا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ کنویں کے منڈیر تک پہنچ گیا اور باہر نکل آیا۔ یہ منظر دیکھ کر کسان اور اس کے پڑوسی سکتے میں آ گئے۔ ان کی حیرت قابل دید تھی۔ اس غیر متوقع نتیجے پر وہ مجسم حیرت بنے ہوئے تھے۔
بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں بدین میں بھی ایسا ہی کچھ ہوا۔ جس نتیجے کی توقع کی جارہی تھی اس کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا۔ ذوالفقار مرزا نے جوکہا کردکھایا، اور اب ان کا اگلا ''مشن‘‘ لیاری ہے، جہاں پیپلز پارٹی کسی زمانے میں انتہائی مضبوط تھی لیکن آج اتنی کمزور ہے کہ امیدوار ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے۔ پیپلز پارٹی کو ایک گڑھ میں شکست کے بعد دوسرے گڑھ میں پریشانی کا سامنا ہے۔ مخالفین نے یہ پروپیگنڈا بھی کیا کہ ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر نے بدین کا دورہ کیا اس لیے نتیجے پر فرق پڑا، لیکن اس بات کا جواب کسی نے نہیں دیا کہ ڈی جی رینجرز تو ٹھٹھہ اور حیدرآباد بھی گئے تھے، وہاں کے نتائج کیوں تبدیل نہیں ہوئے۔ ٹھٹھہ اورقاسم آباد میں ڈی جی رینجرز کے دورے کے باوجود پیپلز پارٹی کیسے جیت گئی؟
حیدرآباد اور میرپور خاص میں ایم کیو ایم کی پتنگ کی اُڑان سب دیکھتے ہی رہ گئے جبکہ نوشہرو فیروز میں''شیر‘‘ نے پیپلز پارٹی کے''جبڑوں‘‘ سے سیٹیں چھین لیں۔ اب تک کے انتخابی نتائج میں ایک بات حیران کن ہے کہ آزاد امیدواروںکی بڑی تعداد نے پارٹیوں اور لیڈروں کو چاروں شانے چت کرکے واضح پیغام دیا ہے کہ عوام سیاسی جماعتوں سے تنگ آچکے ہیں۔ تین تین باریاں لینے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو عوام کی ایک بڑی تعداد اب بالکل پسند نہیں کرتی جبکہ تحریک انصاف ابھی تک دھرنے اور جوڈیشل کمیشن کے''آفٹر شاکس‘‘کا سامنا کر رہی ہے۔ غالباً اسی لیے تحریک انصاف کے سینئررہنما چوہدری سرورنے کہا ہے کہ ''دس فیصدنشستیں جیتنا بہتر اورپندرہ فیصد سیٹوں پر فتح بہترین کارکردگی ہے‘‘۔ ڈھائی سال تک پورے پنجاب میں الیکشن جیتنے کا دعویٰ کرنے والی تحریک انصاف نے صرف پندرہ فیصد نشستوں پر کیسے اکتفا کرلی؟ یہ ایسا سوال ایسا ہے جو آنے والے دنوں میں کئی مزید سوالا ت کو جنم دے گا۔
ملک کی انتخابی تاریخ میں آزاد امیدواروں کا اتنی بڑی تعداد میں جیتنا حیران کن ہے۔ ماضی میں چند امیدوار جیت جاتے تھے، لیکن اِس بار تعداد دیکھ کر لگتا ہے کوئی''آزاد پارٹی‘‘نامی جماعت بھی الیکشن لڑ رہی ہے۔ ہر جگہ پہلے اور دوسرے نمبر پر آزاد ہی چھائے ہوئے ہیں۔ ماضی میں میڈیا پر آزاد امیدوار آخری خانے میں ہوتے تھے، آج ٹی وی اسکرینوں پر آزاد امیدوار دوسری اور تیسری پارٹی کی پوزیشن پر آچکے ہیں۔ انگریزی میں''OTHERS‘‘کا مطلب غیر اہم ہی ہے لیکن اب یہ ''اَدرز‘‘نہیں بلکہ ایک مضبوط سیاسی قوت کے طور پر سامنے آنے والے''آزاد سیاستدان‘‘ ہیں۔ مسلم لیگ ن پنجاب میں اگر پہلے نمبر پر ہے تو آزاد امیدوار دوسرے نمبر پر۔ پیپلز پارٹی سندھ میں پہلے اور ایم کیو ایم دوسرے نمبر پر آئی ہے تو آزاد امیدوار یہاں بھی تیسری پوزیشن پر قبضہ کرچکے ہیں حالانکہ پہلے مرحلے میں سندھ میں آزاد امیدواروں کی تعداد کم تھی۔
سوشل میڈیا کے''ماسٹر مائنڈ‘‘ اپناکام ''ایمانداری‘‘ سے کر رہے ہیں۔ ایک میسج وائرل ہے کہ ''پنجاب میں مسلم لیگ ن‘ شہری سندھ میں ایم کیو ایم‘ دیہی سندھ میں پیپلز پارٹی‘ مردان میں جے یو آئی( ف)، فیس بک اور ٹوئٹر پر تحریک انصاف جبکہ اخبارات میں جماعت اسلامی بڑی سیاسی جماعتیں ہیں‘‘۔ کسی نے کہا ''پیپلز پارٹی پنجاب کی جماعت اسلامی بن گئی ہے‘‘۔ پیپلز پارٹی‘ جماعت اسلامی سے صرف چار نشستیں پیچھے ہے۔ پیپلز پارٹی کی سیٹیں 12ہیں جبکہ جماعت اسلامی 8 نشستوں پرکامیاب ہوئی ہے۔
پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر مولا بخش چانڈیو میڈیا سے صرف ایک شکوہ کرتے نظر آئے کہ ''بدین کو آپ فل ٹائم دے رہے ہیں۔ بریکنگ نیوزسے ٹاک شوز تک ہرجگہ صرف مرزا ہی مرزا ہے، لیکن تھرپارکر میں ارباب رحیم کو شکست، دادو میںلیاقت جتوئی کو مات اورٹھٹھہ میں شیرازی برادری کی ہار کو پارٹ ٹائم بھی نہیں دیا جارہا‘‘۔ ان کا شکوہ بجا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ذوالفقار مرزا نے آصف زرداری کو چیلنج کیا تھا کہ ''بدین میں اُن کی پیپلز پارٹی کو جیتنے نہیں دوںگا‘‘ اور پھر سب نے جذباتی سیاست کی فتح بھی دیکھی۔
ذوالفقار مرزا نے بھی آزاد گروپ بنایا تھا۔ وہ آزاد لڑے بھی اور جیتے بھی۔ انہیں تحریک انصاف کی جانب سے پارٹی میں شمولیت کی بھی پیشکش ہوئی، لیکن انہوں نے اپنی پارٹی بنانے کا اعلان کردیا جس سے یہ تاثر بھی ابھرا کہ اگر ملک میں چھوٹی چھوٹی پارٹیاں بننا شروع ہوگئیں تو بڑے سیاستدانوںکا مستقبل کیا ہوگا؟
پیپلز پارٹی کی قیادت بدین کی شکست پر اتنی برہم ہوئی کہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی اہلیہ فہمیدہ مرزا اور ان کے صاحبزادے حسنین مرزا سے استعفیٰ طلب کرنے کا فیصلہ کرلیا اور دونوں کی جانب سے استعفیٰ نہ دینے پر پارٹی قیادت الیکشن کمیشن سے رجوع کرے گی۔کچھ جذباتی لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں استعفیٰ دے کر آزاد امیدوار کی حیثیت سے دوبارہ الیکشن لڑنا چاہیے۔ لیکن پیپلز پارٹی کے مخالفین کہتے ہیںکہ ''جو پارٹی استعفے کا مطالبہ کر رہی ہے اس کی بدین میں تدفین ہوچکی ہے‘‘۔ ان کا خیال یہ ہے کہ سابق سپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا اور رکن سندھ اسمبلی حسنین مرزا کواستعفیٰ نہیں دینا چاہیے بلکہ انہیں یہ جنگ پہلے میڈیا اور پھر عدالت جاکر لڑنی چاہیے۔ اِس موضوع پر سوال جواب اور جواب الجواب کے نتیجے میں دونوں رہنمائوں کو اتنی میڈیا سپورٹ ملے گی کہ پیپلز پارٹی کانوں کو ہاتھ لگا کر بھاگے گی کہ وہ کس دلدل میں اترگئی ہے۔ غیر جانبدار تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ''جب ان دونوںکو نکالنے کا وقت تھا تو پیپلز پارٹی کسی اورکام میں مصروف تھی، اب تو پارٹی کے دامن پر شکست کا دھبہ واضح طور پر لگ چکا ہے اور پیپلز پارٹی کی قیادت کھسیانی بلی کی طرح کھمبے کو دیکھ رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کو چاہیے کہ بدین سے بھڑکنے والی بغاوت کی آگ کو پھیلنے نہ دے بلکہ اس پر پانی ڈالے کیونکہ موجودہ حالات میں سیاسی جماعتیں سیاست نہیں کر رہیں بلکہ میڈیا سیاست کررہا ہے اور میڈیا کو لڑانے کے لیے روزانہ نئے''مرغے‘‘(موضوعات) درکار ہوتے ہیں۔ انہیں اپنے ٹاک شوزکی''رونق‘‘بڑھانے سے دلچسپی ہے۔ بقول شاعر۔۔۔۔ تیری دوٹکیا دی نوکری تے میرا لاکھوں کا ساون جائے!