"ISC" (space) message & send to 7575

کراچی کابلدیاتی ’’درجۂ حرارت‘‘

کراچی نے بلدیاتی انتخابی مہم کا سب سے بڑا دن (اتوار)امن و امان سے گزار لیا ۔ہر سیاسی پارٹی نے طاقت دکھائی اورکراچی نے اِسے خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا۔پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور تجارتی مرکز کو رواں دواں رہنے میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آئی۔بلدیاتی انتخابی مہم کے دوران عجیب بات نظر آئی کہ عوام کسی بھی پارٹی کے لیے ماضی کی طرح جوش و خروش کے ساتھ نہیں نکلے ‘ غالباً اس لیے بھی کہ الیکٹرانک میڈیا سب کچھ گھر بیٹھے دکھا دیتا ہے؛ چنانچہ عوام دھوپ‘ دھول اور مٹی میں جانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عوام سیاسی جماعتوں کے اقدامات سے اس قدرمایوس ہیں کہ روٹھ کرگھربیٹھ رہے۔پاکستان میں سیاست اور عوامی خدمت کاروبار بن گیا ہے۔الیکشن کے بعد سیاست کاروں کی بے رُخی نے عوام کو سیاسی جماعتوں سے دور کردیا ہے‘جس کی تازہ جھلک اتوار کے روز کراچی میں نظر آئی۔گرما گرمی تو بہت تھی لیکن یہ بیانات اور تقاریر تک محدود رہی۔کارکنوں اورحامیوں نے پُر جوش شرکت نہیں کی۔یہ رجحان آہستہ آہستہ لوگوں کو جمہوریت سے دور کرنے کا ''سنہری موقع‘‘فراہم کرنے کا باعث بن رہا ہے۔عمران خان نے تو یہ کہہ کرجلتی پر تیل ڈالا کہ'' اسمبلیوں میں ڈاکو بیٹھے ہوئے ہیں‘‘۔ جمہوریت کے کسی بھی سُرخیل نے اس بیان کی مذمت نہیں کی، خاموشی دلیل بن رہی ہے کہ یہ الزام سچ ہے۔پاکستان کے 73کے آئین میں اٹھارویں ترمیم کرنے والے رضا ربانی بھی خاموش رہے‘لیکن کیا کراچی 5دسمبر کو بھی خاموش رہے گا؟ یا سیاسی کارکن ووٹرز کی بڑی تعداد کو پولنگ اسٹیشن تک لے آئیں گے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کراچی کا ''مختصر دورہ‘‘کیا۔وقت تو دو دن کا تھا لیکن جس نے بھی شیڈول ترتیب دیا وہ عمران خان کا خیرخواہ نہیں ہے‘افراتفری کا عالم نظرا ٓیا‘ہڑبونگ مچی رہی۔جہاں جانا تھا وہاں نہیں گئے‘جہاں نہیں رُکنا تھا وہاں چار پانچ گھنٹے گزار دیئے۔دائود چورنگی پر شرکاء انتظار کرتے رہے۔مشتعل کارکنوں کے غیظ و غضب نے رہنمائوں کو''روپوش‘‘ہونے پر مجبور کردیا‘لیکن تب تک کپتان ایئرپورٹ پہنچ چکے تھے۔لیاری کا جلسہ بھی توقع کے مطابق نہ تھا۔عوام کی تعداد کسی بڑی عمرکے سرکے سفید بالوں کی جھالر کی طرح نظر آرہی تھی۔عمران خان اردوبولنے والے علاقوں میں نہیں گئے‘ صرف فایئوسٹار چورنگی پر ہاتھ ہلانے کے لیے رُکے اورتیزی سے نکل گئے۔کراچی کے عوام تو وزیر اعظم سے شکوہ کرتے تھے کہ وہ کراچی کا مختصر ترین دورہ کرتے ہیں‘اب وہ'' نیا کراچی‘‘ بنانے والے لیڈر سے بھی یہی گلہ کررہے ہیں ۔
پیپلز پارٹی نے اتوارکو شیری رحمن کی قیادت میں بلاول ہائوس چورنگی سے سپارکو چورنگی تک ریلی نکالی ۔ پیر کو پیپلزپارٹی کے یوم تاسیس اور بلدیاتی الیکشن کا ''ٹُو ان ون‘‘جلسہ ملیر میں ہوا۔جلسے سے بلاول بھٹو زرداری نے خطاب کیا‘ یوں کراچی میں ایک بار پھر ان کی دستار بندی کی گئی‘لیکن یہاں بھی عوام کا وہ جوش وخروش نظر نہیں آیا جو پیپلز پارٹی کا خاصا رہا ہے۔ملیر اور لیاری میں پیپلز پارٹی نے کبھی راج کیا تھا‘لیکن اب لیاری ہاتھ سے نکل گیا اور ملیر کو بچانے کی کوششیں میمن گوٹھ کے جلسے میں نظر آئیں۔
ایم کیو ایم کی انتخابی مہم میں بھی جوش و خروش کا فقدان تھا۔ایم کیو ایم کو بیک وقت مختلف اتحادوں اور''نہ رکنے والے آپریشن‘‘کا سامنا ہے۔ایم کیو ایم نے اپنی تنظیمی قوت سے کراچی میں اپنی طاقت کا جال بچھا رکھا ہے۔ ان کے پاس مہاجر قومیت اور علیحدہ صوبے کا مسحورکن نعرہ ہے۔کراچی میں کسی بھی سیاسی پارٹی کے پاس کارکنوں کی اتنی بڑی فوج نہیں جتنی اکیلے ایم کیو ایم نے جمع کررکھی ہے۔جماعت اسلامی ابتدا میں مہاجر جماعت تھی اور بھارت کے شہرحیدرآباد دکن سے آنے والے ان کے بانی کراچی میں کچھ دن قیام کے بعد لاہور منتقل ہوگئے کیونکہ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد یہ بات اظہر من الشمس ہوگئی تھی کہ پاکستان میں طاقت کا سرچشمہ پنجاب بننے والا ہے‘ لیکن 1970ء کے الیکشن میں جماعت اسلامی نے کراچی سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں جیت کر خود کو تقویت پہنچائی تھی اور بھٹو کے خلاف تحریک میں مہاجروں نے دل اور تجوری کھول کر ساتھ دیا تھا۔1977ء میں جنرل ضیاء الحق آئے اور انہوں نے بھی کہا کہ'' میں مہاجر ہوں‘‘ لیکن کچھ ہی عرصے بعد یہ بات منظر عام پر آئی کہ وہ مسلم اقلیتی صوبوں کے نہیں جالندھر کے مہاجر ہیں۔جماعت اسلامی‘ کراچی کی اس بدلی ہوئی فضا میں اپنی طاقت کو سمیٹ رہی تھی کہ افغانستان میں روس داخل ہوا اورافغان جہاد شروع ہوگیا۔جماعت اسلامی نے پشاور سے اپنا امیر منتخب کرلیا‘تو کراچی کے مہاجر قومی سیاست میں تنہا ہوگئے۔ابھی مہاجر اس صدمے سے نکلے بھی نہیں تھے کہ جماعت اسلامی نے کراچی کے میئر کی چابی عبدالستار افغانی کو دیدی ۔مرے کو مارے شاہ مدار!
کہا جانے لگا کہ مہاجروں کو اپنی قوت کو ''ایٹمی طاقت‘‘میں تبدیل کرنا پڑے گا۔ پورا شہر اور اندرون سندھ کی مہاجر آبادی الطاف حسین کے پیچھے چل پڑی۔عبدالستار افغانی نے ایک نئے آئیڈیا پر کام کیا۔کراچی کی سرکاری زمینوں پر قائم ہونے والی کچی آبادیوں کو ''مفت عوامی نلکوں‘‘ کے ذریعے پانی دینے کا اعلان کیا اور جہاں پائپ لائن نہیں تھی وہاں بھی ٹینکروں کے ذریعے مفت پانی سپلائی کیا گیا تاکہ ان کچی آبادیوں میں جماعت اسلامی کی طاقت کومنظم کیا جائے۔ابتدا میں جماعت اسلامی اس مشن میں کامیاب بھی ہوئی‘لیکن اس کی پکائی اس دیگ کو چٹ کرنے کے لیے اے این پی اور پنجابی پختون اتحاد آگے بڑھے۔جماعت اسلامی کے لیے یہ کٹھن مرحلہ تھا کہ ''دکھ سہے بی فاختہ اور کوے انڈے کھانے آجائیں ‘‘۔اور ایسا ہوا بھی‘کوئوں نے مزے سے انڈے کھائے اور جماعت اسلامی کراچی کی سیاست سے کچھ اور دور کردی گئی۔ اگر اُس وقت جماعت اسلامی کراچی کے مسائل کو لے کر آگے بڑھتی تو ایم کیو ایم کو اتنا موقع نہ ملتا‘کیونکہ ایم کیو ایم کی لیڈر شپ ابھی نووارد تھی‘تجربے کی کمی تھی‘پیسہ اور وسائل بھی نہ ہونے کے برابر تھے‘ مگر جماعت خود کو مذہبی سیاست تک محدود رکھ کر کراچی کی پالیٹکس پر قبضہ واپس لینا چاہتی تھی لیکن وقت اور حالات بدل گئے تھے۔آج بھی جماعت اسلامی یہ کہتی ہے کہ وہ عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ خان کے دور کو واپس لانا چاہتی ہے۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ کراچی والے ان دونوں شخصیات جیسے میئر کا انتظار کررہے ہیں۔نعمت اللہ خان کی سوچ اور فکر کو سمجھنے کے لیے اُن کے یہ ریمارکس ہی کافی ہیں کہ ''کچی آبادیا ں کراچی کے ماتھے کا جھومر ہیں ‘‘،جبکہ وہ خود کراچی کے پوش علاقے نارتھ ناظم آباد میں رہائش پذیر ہیں۔یہ اور بات ہے کہ جماعت اسلامی 5دسمبر کے بلدیاتی انتخابات کے لیے انتخابی مہم میںنعمت اللہ خان کو''فاتح کراچی‘‘ کی حیثیت سے سٹیج پر اور عمران خان کے ساتھ ٹرک پرنہیں لائی‘جبکہ شخصی طور پر نعمت اللہ خان بہت نرم مزاج اور خوش اخلاق انسان ہیں اور اپنے مدمقابل کو قائل کرنے اور ساتھ لے کر چلنے کا فن بھی خوب جانتے ہیں۔یہ تو جماعت اسلامی ہی بتاسکتی ہے کہ اتنی اہم شخصیت جس کا حوالہ دیتے ہوئے ان کی زبان نہیں تھکتی‘ میدان میں کیوں نہیں لائی گئی ؟
5دسمبر کے انتخابات کے بارے میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم اِس بار اتنی آسانی سے الیکشن نہیں جیت سکے گی اور ایم کیو ایم کے سب سے بڑے مخالف ذوالفقار مرزا کا بھی یہی کہنا ہے کہ یہ الیکشن تو جیتے گی لیکن مارجن اتنا بڑا نہیں ہوگا۔غیر جانبدار تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ ''ایم کیو ایم کی کامیابی میں ان کی طاقت کا اتنا بڑا دخل نہیں ہوگا جتنا ان کے مخالفین کی تنظیمی کمزوریاں اور غلطیاں اس کا سبب ہوں گی‘‘۔ایم کیو ایم کے کارکن بلدیاتی انتخابی مہم کے لیے جب گھر گھر جاتے ہیں تو خواتین بڑے تیکھے سوالات کرتی ہیں '' ہم اپنا ووٹ لندن والے بھائی کو دے دیں گے لیکن کم از کم میرے بیٹے کا چھینا ہواموبائل فون تو واپس دلوادیں‘‘۔یہ مخالفین کے جھوٹے پروپیگنڈے کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے لیکن ایم کیو ایم کو کئی مقامات پر کڑے سوالات اور رکاوٹوں کا سامنا ہے مگر ان کے مخالفین اس سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت سے عاری ہیں۔کئی جگہ یہ بحث دیکھی گئی کہ جماعت اسلامی‘ایم کیو ایم کو سیدھا کرنے کیلئے اپنے ''بڑے بھائی ‘‘تحریک انصاف کو لے آئی‘لیکن اتوار کے روز ریلی کے آدھے راستے سے عمران خان کاٹرک سے اتر جانا تجسس کا باعث بنا ہوا ہے۔کراچی کی انتظامیہ کا یہ مذاق بھی سمجھ نہیں آتا کہ عمران خان کو جیل کے پاس کیوں اتارا گیا ؟ وہ کیا پیغام دینا چاہتے تھے؟اور جماعت اسلامی کے امیر کو بچی کھچی ریلی کے ساتھ قائد اعظم کے مزار پر کیوں بھیج دیا گیا؟ یہاںدلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان دھرنے کے دنوں کے دوران'' لندن والے‘‘ سے آشیرواد لے کر مزار قائد کے قریب میدان میں جلسہ کرنے کے لیے آئے تھے‘ انتظامیہ نے مزار قائد کے دروازے کھلے رکھے لیکن وقت کی کمی نے اس لیڈر کو پاکستان کے سب سے بڑے لیڈر کی قبرپر نہیں جانے دیا۔
بلدیاتی انتخابات ایم کیو ایم کے لیے کیا نتیجہ لاتے ہیں‘ کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔1986ء سے 2015ء تک کراچی کی سیاست میں بلاشرکت غیرے غالب کردار ادا کرنے والی تنظیم کو اب اپنی کامیابیوں کے اسباب اور غلطیوں کے نتائج کا بھی جائزہ لینا پڑے گا۔ ایم کیو ایم کے اس نعرے نے کراچی میں بہت بڑی حمایت پیدا کردی ہے کہ ''کام تو اپنے ہی آتے ہیں‘‘ ۔اس نعرے نے بکھرے ہوئے اردو سپیکنگ لوگوں کو دوبارہ اکٹھا کردیا ہے‘ لیکن انہیں بھی اپنا بن کر دکھانا پڑے گا‘ نعرے کو عملی جامہ پہنانا پڑے گا ۔
سندھ حکومت نے بلدیاتی اداروں کے بہت سے اختیارات منتخب نمائندوں سے چھین کر ''دیہی بیوروکریسی ‘‘کے ہاتھ میں دے دیئے۔لگتا ہے کہ یہ معاملہ کسی بڑی لڑائی کا نقطۂ آغاز بنے گا۔خود فاروق ستار نے اپنے اگلے منشور کا اعلان اِن الفاظ میں کیا تھا کہ ''میئرکے لیے وزیر اعلیٰ کو آدھے اختیارات چھوڑنا پڑیں گے ورنہ۔‘‘دوسری جانب سندھ حکومت کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کراچی کا پراپرٹی ٹیکس اور موٹر وہیکل ٹیکس جو بلدیہ کراچی کا حق ہے‘ اس کے اکائونٹ میں نہیں جاتا۔اسی وجہ سے کراچی کی سڑکیں موئن جو دڑو کی سڑکوں کے سامنے بھی شرمندہ نظر آتی ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں