"ISC" (space) message & send to 7575

ڈاکٹرعاصم کیلئے ’’آنکھ مچولی‘‘۔۔۔۔!!

سندھ حکومت اور رینجرز کے درمیان'' آنکھ مچولی‘‘ کا سلسلہ جاری ہے۔ غیرمصدقہ اطلاعات ہیں کہ چند دنوں میں حکومت شایدرینجرز کو با اختیار بنانے کی قرار داد سندھ اسمبلی سے منوالے۔ سندھ حکومت آج کل ہر کام میںآئین کا حوالہ دے رہی ہے۔ محکمہ اینٹی کرپشن رشوت خوروں کو پکڑنے میں کامیاب نہیں ہورہا۔ وجہ کیا ہے، ان کے ہاتھ کون روک رہا ہے ۔؟یا وہ بھی آئین کی فلاں فلاں شق کے تحت کسی کو پکڑ نے سے قاصرہیں۔ جرائم پیشہ لوگ اور بھتہ خور دندنارہے ہیں ۔رشوت خوراہلکارپراپرٹیاںبنارہے ہیں۔ چالیس‘ پچاس ہزارروپے تنخواہ لینے والا چھوٹا موٹا افسر کلفٹن اور ڈیفنس میں کوٹھیاں اور لگژری فلیٹ خرید رہا ہے۔ کیایہ سب آئین کے مطابق ہورہا ہے۔؟ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جب یہ تمام محکمے سندھ میں ناکام ہوئے تو رینجرز کو بلایا گیا۔ تاکہ سندھ میںا من وامان قائم ہو۔ لوٹ مار ختم ہو۔ بھتہ خوری اپنے انجام کو پہنچے اوراغواء برائے تاوان کا سلسلہ رُکے۔ رینجرز نے آکر جب بریک لگایا تو انہیں پتہ چلا کہ اکثر وائٹ کالر جرائم میں مبتلا افراد حاکموں کی آنکھ کے تارے اور سرکار کے پیارے ہیں۔ رینجرز نے جیسے ہی اُن کی طرف دیکھا توشور مچ گیا کہ رینجرز واپس بھیجی جائے۔ ہمیں سندھ پولیس اچھی لگتی ہے۔۔۔۔۔ان کی خواہش تھی کہ۔رینجرز کو بھی سندھ پولیس کی طرح مسکین اور کو آپریٹو(مددگار) ہو نا چاہیے۔'' یہ لوگ مجھے کچا کھا جائیں گے‘‘والابیان دینے والے ڈاکٹر عاصم نے بھی کہا کہ میں سندھ پولیس کی تحویل میں خود کو کمفرٹیبل (آرام دہ ) محسوس کرتا ہوں۔
ڈاکٹر عاصم آج کل پورے ملک میں موضوع بحث بنے ہوئے ہیں ۔ان کا ٹی وی چینلز اوراخبارات میں ایان علی اور ریحام خان سے زیادہ تذکرہ ہے۔وہ میڈیا کیلئے ''ہاٹ کیک‘‘ ہیں ۔ ان کے حوالے سے آنے والی خبروں میں گرمی بھی ہے اور سسپنس بھی ۔کہانی دلچسپ بھی ہے اور سنسی خیز بھی ۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ کوئی پیش گوئی نہیں کر سکتا کہ اس اسٹوری کا انجام کیا ہوگا؟۔
ڈاکٹر عاصم حسین سندھ میں لوٹ مار کی داستان کا ایک بڑا کردار تھا۔ ان کا سینہ رازوں کا قبرستان ہے ۔ ان کے اسپتال سے دہشتگردوں کے علاج کی میڈیکل ہسٹری کا ڈھیروں ریکارڈ ملا ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے فریال تالپور‘عبدالقادر پٹیل‘انیس قائم خانی ‘رئوف صدیقی اوردیگرکے کہنے پرفلاں فلاں دہشتگرد کا علاج کیا ہے۔ ڈاکٹرعاصم حسین کو دور طالب علمی سے'' ڈان‘‘ بننے کا بہت شوق تھا۔ وہ گزارتے تو معصومانہ زندگی تھے لیکن لڑاکا طالب علموں میںگینگ بنا کر رکھتے تھے۔ ایوان صدر میں ان کی رسائی نے انہیں اپنا ہرشوق پورا کرنے کا موقع دیا اور وہ کراچی سمیت ملک بھر میں اعلیٰ حلقوں تک راہ ورسم بڑھانے میں کامیاب ہوگئے۔ ان کی خواہش تھی کہ ٹیلی ویژن چینل نکالیں،وہ اس میں کامیاب ہوئے۔ اور ان کے ایک فرنٹ مین کے نام سے ٹیلی ویژن چینل بھی منظر عام پر آگیا جس کا دفتر انہی کے اسپتال کے ایک حصے میں بنایا گیا ہے یہ دنیا کا واحد چینل ہے جو اسپتال سے نکلتا ہے اس لئے اِس کے نام کی طرح اس کی '' ہیلتھ ‘‘بھی اچھی رہتی ہے۔
ڈاکٹر عاصم حسین کی اصل لڑائی کا آغاز اس وقت ہوا جب انہیں اچانک تعلیمی سرگرمیوں کے دوران گرفتار کیا گیا۔ وہ بیرون ملک مقیم تھے۔ پیپلز پارٹی کے کئی افراد نے انہیں منع بھی کیاکہ'' ادھر مت آنا‘ حالات اچھے نہیں ہیں‘‘ لیکن وہ نہ مانے اور کہا کہ'' مجھے کون پکڑے گا ؟‘‘اُن کی اِس خود اعتمادی نے اُنہیں رینجرز کی تحویل تک پہنچادیا ۔
رینجرز کی تحویل اور نوے دن کی قید تنہائی نے ڈاکٹر عاصم کو خود بخود بہت کچھ اگلنے پرمجبور کردیا انہوں نے بہت سارے وہ گناہ بھی اُگل دئیے جو برسو ںانہوں نے چھپا کر رکھے تھے۔ قید تنہائی میں انہو ں نے چار مرتبہ قرآن شریف پڑھا اور سچائی کے قریب پہنچ گئے ۔جیسے ہی رینجرز کی نوے روزہ قید سے باہر نکلے تو پھر دنیاداری شروع ہوگئی ۔وکیل سے ملاقات کے بعد وہ اپنی بتائی ہوئی ہر چیز سے مکرنے لگے ۔کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ رینجرز نے انکے اعترافی بیانات کی ویڈیو بھی بنا رکھی ہے جو آگے چل کر ان کے خلاف استعما ل ہوگی۔ڈاکٹر عاصم حسین نے یہ بھی بتایا کہ وہ اکثر مال بنانے والے کام ایوان صدر کی اہم شخصیت کے اشارے پر کرتے تھے۔ انہوں نے کئی بار اس شخص کا نام بھی لیا ڈاکٹرعاصم کے بیانات کے چندحصے اخبارات میں شائع ہوئے توکئی لوگوں کے کان کھڑے ہوگئے ۔ اسلام آباد اور کراچی سے لے کر دبئی تک خوف کی لہر دوڑگئی۔ بچائو بچائو کی آوازیں آنے لگیں۔ کہا گیا کہ'' یہ بھی مرے گا اور ہمیں بھی مروائے گا‘‘۔ڈاکٹر عاصم حسین نے یہ بھی اعتراف کیا کہ اس نے دہشت گرد ی میں ملوث افراد کا علاج اپنے اسپتال میں کیا ۔اس اعترافی بیان میں ڈاکٹر عاصم حسین سچے تھے کیوں کہ جب ہسپتال پر چھاپہ مارا گیا تو سٹور سے انتہائی خطرناک شخصیت کی میڈیکل رپورٹوں کی پرانی فائلیں بھی ملیں۔ یہ اطلاعات اُن لوگوں تک بھی پہنچیں جن کی گردن اب پھنسنے والی تھی۔ فیصلہ ہوا کہ ''عاصم کو بچا لو۔ اسکو کراچی سے نکالو۔ دبئی یا ملائیشیا پہنچا دو‘‘ اسی دوران رینجرز کے خصوصی اختیارات کی معیاد ختم ہوگئی ۔
سندھ حکومت کی وزارت داخلہ نے اختیارات میں توسیع کا نیا حکم نامہ تیار کیا اور ڈاکٹر عاصم کا مقدمہ سندھ پولیس کو سوپنے کے اشارے دئیے۔ دبے لفظو ں میں کہا ''کچھ لو اور کچھ دو‘ ہر بات کرلو‘ عاصم کو چھوڑ دو‘ حکم نامے پر دستخط ہوجائیں گے ‘‘۔جواباًوفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثا ر نے آنکھیں دکھائیں تو سندھ حکومت آئین کی آڑلے کر چھپ گئی اور ٹائم گین کرنے لگی۔ وفاقی حکام نے سندھ حکومت کو سمجھانے اورمنانے کی کوشش کی لیکن یہاں پھر کچھ اور ہو رہا تھا سندھ پولیس نے عدالتی فرائض سنبھال لیے ۔پراسکیوٹر جنرل نے مقدمہ عدالت میں پیش کرنے کے بجائے اس بات کی تائید کردی کہ یہ کیس بنتا ہی نہیں ہے۔ پولیس کو دہشت گردی کے جرم کے شواہد نہیں ملے اس لئے ڈاکٹر عاصم کو رہا کیا جاتا ہے۔ جب رات آٹھ بجے عدالتیں بند تھیں پولیس کے اعلیٰ افسران گھروں پر جاچکے تھے رینجرز گشت میں مصروف تھی۔اسی دوران ڈاکٹر عاصم کو گلبرگ تھانے سے ایئر پورٹ لے جانے کی تیاریاںبھی مکمل تھیں تاکہ ڈاکٹر عاصم پاکستان سے باہر چلے جائیں اور ان پر دہشت گردی کا مقدمہ نہ بن سکے۔ ڈر یہ تھا کہ اگر ڈاکٹر عاصم پر دہشت گردی کا مقدمہ بن گیا تو ریڈ وارنٹ جاری کر کے ان کی گرفتاری کیلئے انٹر پول سے مدد لی جاسکتی تھی۔ اور ڈاکٹر عاصم کے بیان کی روشنی میں پاکستان کے سکیورٹی اداروں کے لئے آسان تھا کہ وہ سابق صدر کو بھی دہشت گردی کے مقدمے میں شامل کرلیتے۔
بین الاقوامی قوانین کے تحت دہشت گردی میں مطلوب کسی بھی مجرم کو اقوام متحدہ کا کوئی بھی رکن ملک پناہ نہیں دے سکتا۔ بلکہ مذکوہ ملک جہاں پر مطلوبہ دہشتگرد یااس کا سہولت کار مقیم ہو تو وہ ملک خوداُسے گرفتار کرکے انٹرپول کے ذریعے حوالے کردے گا۔ ڈاکٹر عاصم وہ طوطا ہے جس میں اس کے ماسٹر مائنڈ کی جان ہے۔ کراچی میں کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری سے قبل یہ پلان بنایا گیاتھا کہ مسٹر زرداری کی کسی قریبی شخصیت کو گرفتار کیا جائے تاکہ ملزم خود کو قانون کے حوالے کردے۔ سندھ اور پنجاب پولیس مطلوبہ سنگین مجرموں کو پکڑنے کیلئے ماں‘باپ یا بھائی بہن کو گرفتار کرلیتی ہے لیکن رینجرز کے سینئر افسران نے اس طریقہ کار کو غلط قرار دیا اور کہا کہ کسی خاتون پر کسی اور کے مقدمے میں ہاتھ ڈالنا صحیح نہیں ہے اور جب مزید تفتیش کی گئی تو ڈاکٹر عاصم وہ شخص نکلا جسے سابقہ حکمرانوں کے ہر راز کا پتہ تھا۔ ہر ڈیل کا علم تھا اوروہ منی لانڈرنگ کے بہت سے کرداروں سے واقف تھا۔ اس لیے ڈاکٹر عاصم نے کہا تھا کہ ''یہ لوگ مجھے کچاکھا جائیں گے ‘‘انہوں نے نام لئے بغیر کہا کہ ''کسی اور کے جھگڑے میں مجھے خوامخواہ گھسیٹا جارہا ہے‘‘ ڈاکٹر عاصم کا یہ اعترافی بیان پاکستان کے تمام الیکٹرانک میڈیا کے ریکارڈ ہوا اور پوری قوم نے سنا۔ ڈاکٹر عاصم کا کیس ایک ایسا معمہ ہے کہ وہ ہر طریقے سے خود بھی پھنستے جارہے ہیں اور اپنے ماسٹر مائنڈ کو بھی پھنسا رہے ہیں۔ آج ڈاکٹر عاصم کا یہ خدشہ بہر حال سچ لگتا ہے کہ یا تو ''وہ‘‘ مار دیںگے یا '' یہ ‘‘مار دیں گے، اس لیے اُن کی حفاظت کرنا بہت ضروری ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں