"ISC" (space) message & send to 7575

رینجرز کے ہاتھ کیوں باندھے گئے؟

16دسمبر کو سقوط ڈھاکہ اورآرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد تیسرا بڑا سانحہ رینجرز کے اختیارات کم کرنے کی قرارداد کی سندھ اسمبلی سے منظوری ہے ،قرارداد کے مطابق رینجرز کے اختیارات میں توسیع 12 ماہ کے لیے کی گئی اور اُسے صرف 4 جرائم کے خلاف آزادانہ طور پر کارروائی کی اجازت ہوگی جن میں اغوا برائے تاوان‘ بھتہ خوری‘ ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی شامل ہیں۔ قرارداد میں شامل شرائط کے تحت رینجرز کرپشن کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کرنے کی اہل نہیں ہوگی اور نہ ہی چیف سیکرٹری کی اجازت لیے بغیر کسی سرکاری دفتر پر چھاپہ مارسکتی ہے۔یعنی اب کوئی بھی کہیں بھی کرپشن کرے اُسے رینجرز کا خوف نہیں ہوگا۔ صوبائی نیب کا قیام عمل میں اب تک تو نہیں آسکا۔اینٹی کرپشن خود کرپشن کا شکا ر ہے اور جس چیف سیکرٹری سے اجازت لینی ہے وہ خود ضمانت پر ہیں۔ قرارداد میں یہ بھی کہا گیا کہ کسی بھی اہم شخصیت کی گرفتاری‘ حکومتی دفتر پر چھاپہ اور کسی بھی شخص کے خلاف جو دہشت گردی میں براہ راست ملوث نہ ہو بلکہ صرف دہشت گردوں کا معاون ہونے کے شک کی صورت میں اسے گرفتار کرنے سے پہلے بھی وزیراعلیٰ سے تحریری اجازت لینا ہوگی۔اس کا مطلب واضح ہے کہ سائیں کا موڈ ٹھیک ہوا تو گرفتاری عمل میں آجائے گی۔سہولت کاروں کو اب ڈرنے کی ضرورت نہیں وہ وزیر اعلیٰ کی تحریر تک ''آزاد‘‘ ہیں۔قرارداد کے مطابق رینجرز اب صرف پولیس کے علاوہ کسی اور ادارے کی مدد نہیں کرسکے گی۔کسی مزاح نگار کے بقول رینجرز کے اختیارات کا'' فلسفیانہ حل ‘‘نکالا گیا ہے جسے دیکھ کر آپ یہ کہیں کہ اس سے مسئلہ بہتر تھا ۔
سندھ اسمبلی کی یہ قرارداد ایک مذاق کے علاوہ کچھ نہیں ۔ چار ماہ کی جگہ سال کی توسیع کو مزیدکرپشن کیلئے ایک سالہ ''لائسنس ‘‘قرار دیا جارہا ہے ،قرارداد کی کاپی اپوزیشن کو پہلے نہیں دی گئی،کوئی بحث ہوئی نہ تکرار،انتہائی عجلت میں پیش اور منظور ہونے والی اِس قرارداد سے سب کچھ کھل کر سامنے آگیا۔ جس جماعت کے ہیڈ کوارٹر''نائن زیرو‘‘ پر چھاپہ مارا گیا۔سیکٹر اور یونٹ انچارج گرفتار کئے گئے۔وہ جماعت سندھ اسمبلی میں رینجرز کے ساتھ کھڑی نظر آئی۔ ایم کیو ایم نے رینجرز کے حق میں اور کرپشن کیخلاف آواز اٹھائی۔سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن نے رینجرز کو پہلے جیسے اختیارات دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ''پیپلزپارٹی نے 16 دسمبر کے روز قوم سے مذاق کیا۔ انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھے۔ رینجرز اختیارات سے متعلق قرارداد آئین و قانون کے منافی ہے جسے عدالت میں چیلنج کرنے پر غور کریں گے۔پیپلزپارٹی نے لینڈ مافیا کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے قرارداد منظور کی جس سے تصادم کرانے کی سازش کی جارہی ہے لہٰذا کراچی میں ہونے والے آپریشن کا دائرہ پورے سندھ تک وسیع کیاجائے‘‘۔ اپوزیشن جماعت فنکشنل لیگ کے رہنما شہریار مہر نے کہا کہ ''اسمبلی میں قرارداد کو چوروں کی طرح پیش کیا گیا‘ اسمبلی کو کرپٹ اور چوروں کے تحفظ کے لیے استعمال کیا گیا ہے‘‘ ارباب غلام رحیم کا کہنا تھا کہ'' قرارداد ڈاکٹر عاصم کو بچانے کے لیے لائی گئی ہے‘‘۔لیاقت جتوئی نے قراردادکو نیشنل ایکشن پلان کے خلاف قرار دیا اور کہا کہ'' اس طرح کی قرارداد پیش کرنے پر پیپلزپارٹی کو اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں‘‘ تحریک انصاف کے رہنما خرم شیر زمان نے کہا کہ ''ایوان کو بادشاہ سلامت کی طرح چلایا جارہا ہے، ہم بھی دیکھتے ہیں اب پیپلزپارٹی کس طرح اس ایوان کو چلاتی ہے؟‘‘۔
سندھ اسمبلی میں قراردادمنظور ہوتے ہی پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری دبئی سے سعودی عرب پہنچ گئے۔ان کے ہمراہ ''مفاہمتی جادوگر ‘‘رحمن ملک بھی ہیں ۔ایک ایسے وقت میں جب پیپلز پارٹی یہ اعلان کرچکی ہے کہ 27دسمبر کو آصف زرداری پاکستان آئیں گے ان کا دورہ سعودی عرب انتہائی اہم ہے ۔وہاں سے کیا گارنٹی لی جارہی ہے؟ کہیں نیب اور ایف آئی اے کو بھی سندھ میں داخلے سے روکنے کیلئے سعودی عرب سے کوئی ٹیلی فون تو نہیں کروایا جائے گا ؟واقفان ِ حال کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی نے رینجرز کے اختیارات محدود کرکے آصف زرداری کو گرفتاری سے بچانے کی کوشش کی ہے، جبکہ وفاقی حکومت سے بھی معاملات طے کئے جارہے ہیں تاکہ کسی قسم کا کوئی خدشہ باقی نہ رہے، لیکن راولپنڈی سے یہ خبریں آرہی ہیں کہ منگل 
کو ہونے والی کورکمانڈر کانفرنس میں فوجی قیادت نے کراچی آپریشن اور رینجرز اختیارات پر 
سیاسی شرائط نامنظور کرتے ہوئے واضح پیغام دیا ہے کہ آپریشن پر کوئی حدود و قیود تسلیم نہیں کی جائیں گی۔یہ بات بھی بالکل واضح کردی گئی تھی کہ دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو کسی بھی صورت نہیں چھوڑا جائے گا۔یہ بھی واضح کیا گیا کہ یہ بات کسی بھی طور پر قبول نہیں کی جائے گی کہ وزیر اعلیٰ سندھ آپریشن کو کنٹرول کریں ۔ان کی کئی سیاسی مجبوریاں ہوسکتی ہیں اور وہ کسی بھی طرح غیر جانبدار نہیں رہ سکتے۔ سندھ حکومت نے دبئی سے آنے والے احکامات پرفوج کے اس واضح پیغام کویکسر نظر انداز کردیا ہے جس کے سندھ کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔آنے والے دنوں میں سندھ کی سیاست پر دبئی کے بعد سعودی عرب کے اثرات بھی واضح طور پر محسوس کئے جاسکتے ہیں۔اوپر کے حلقوں میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ رحمن ملک فوجی قیادت اور آصف زرداری کے درمیان پل کا کردار ادا کرنا چاہتے تھے کہ کوئی ایسا مفاہمتی فارمولا وضع کیا جائے جس کے تحت زرداری صاحب کو خلاصی دلائی جاسکے لیکن رحمن ملک کو کوئی مثبت جواب نہیں ملا اور انہیں کہا گیا کہ وہ عدالتی راستے سے انصاف حاصل کریں ایسے ''مک مکا‘‘کرنے سے قوم کے جذبوں کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں