"ISC" (space) message & send to 7575

کراچی میں سالِ نو پر پابندی!

نئے سال کی آمد کا جشن نیوزی لینڈ سے شروع ہوا۔ آسٹریلیا میں آتش بازی ہوئی، انڈونیشیا میں چراغاں ہوا، تھائی لینڈ میں لوگ سڑکوں پر آگئے، بھارت اور چین میں لوگوں نے نئے سال کو خوش آمدید کہا۔ ان تمام ممالک سے ہوتا ہوا ''نیو ایئر‘‘ جب پاکستان پہنچا تو ملک بھر میں بھنگڑے ڈالے گئے ، لیکن سالِ نو کی خوشیوں بھری تقاریب غارت کرنے کے لیے کراچی میں''مسلح‘‘ سندھ پولیس موجود تھی۔
کنٹینروںکی ڈیوٹی لگائی گئی تھی کہ سڑکوں کی ناکہ بندی کردو۔ ایسا لگ رہا تھا کہ کراچی کی سڑکوں پر پولیس''نیو ایئر نائٹ‘‘ منارہی ہے اور کسی کو اس میں شریک کرنا اسے ہرگز گوارا نہیں تھا۔ اس کے باوجود بھی مستی اور دیوانگی میں کراچی کسی سے بھی پیچھے نہ رہا، بلکہ کئی مراحل پر دیگر پاکستانی شہروں کے مقابلے میں آگے نکلتا رہا۔ شاید کراچی دُشمن پالیسی بنانے والوں سے کچھ خامیاں رہ گئی تھیں، اس لیے31 دسمبر کی شب وہ کراچی کو پوری طرح نہ اجاڑ سکے جس کا بدلہ اُنہوں نے کراچی کے لیے بجلی کی قیمتوں میں 56 پیسے فی یونٹ اضافہ کر کے لے ہی لیا جبکہ پورے ملک میں بجلی کی قیمتوںمیں 2.06 روپے کمی کی گئی ہے۔ کراچی کے ساتھ بار باریہ ظالمانہ سلوک اس لیے کیا جاتا ہے کہ کراچی کی ترقی کی رفتار رُک جائے، روشنیاں کم ہوتے ہوتے اندھیروں میں ڈوب جائیں۔ کراچی ملک میں سب سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے اورمار کھانے میں بھی سب سے آگے ہے۔ وزیر اعظم سے لے کر سب چھوٹے بڑے کراچی کو پاکستان کی معیشت کا حب کہتے ہیں توکوئی کراچی کو ملکی معیشت کا انجن کہتا ہے، لیکن حیرت انگیز طور پر پورے ملک میں یہ اتفاق رائے کیوں پایا جاتا ہے کہ کراچی کو اجاڑ دیا جائے، اسے ویران کر دیا جائے؟ 
سندھ حکومت صبح شام وفاقی حکومت کے غاصبانہ رویے اور صوبائی خود مختاری کے گیت گاتے نہیں تھکتی، لیکن جب بھی موقع ملتا ہے وہ کراچی اور حیدر آباد کی بلدیات کا لہو ضرور پیتی ہے۔ شاید سندھ حکومت خود مختاری کا مطلب صرف وفاق سے صوبے تک اختیارات کی منتقلی کو ہی سمجھتی ہے اور اس سے آگے ''فل اسٹاپ ‘‘ لگا کر اپنا مفاد نکالنا چاہتی ہے۔ اگلے دو چار دنوں میں آنے والے میئر صاحبان کے اختیارات میں اتنی کمی کر دی جائے گی کہ وہ اپنے گھر کے سامنے کی سڑک بھی نہیں بنوا سکیں گے۔ سارے فنڈز اور وسائل سندھ حکومت کے ایک افسر کے ہاتھ میں دے دیے گئے ہیں اور اُس افسر کے سامنے منتخب میئر اور پوری منتخب بلدیہ اس طرح بے بس ہوگئی ہے جس طرح آج کل نیب کے ہاتھوں ڈاکٹر عاصم بے بس ہیں۔
کراچی کو دبانے اور ترقی کی دوڑ میں پیچھے رکھنے میں جہاں ملک کے مختلف ادارے ایک دوسرے سے بازی لے جانے میں مصروف ہیں وہاں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کراچی کے از خود پیدا ہونے والے وسائل کی فراہمی کو روک کر انہیں کسی طرح ضائع کیا جائے۔ ''کراچی دُشمنی ‘‘ کے لفظ کراچی میں کثرت سے استعمال ہونے والے ہیں، لیکن اگر تمام حقائق کا جائزہ لیا جائے تو ''کراچی دشمنی‘‘ کی ترکیب بہت چھوٹی نظر آتی ہے، کراچی کے ساتھ ہونے والا سلوک اس سے بہت بڑا ہے۔ ایسا سلوک تو تاریخ میں کسی نے بھی نہیں کیا۔ آخر کراچی کا قصور کیا ہے؟ کراچی نے کیا غلطی کی ہے؟ کوئی یہ نہیں بتاتا، صرف یہی کہا جاتا ہے کہ کراچی کی ترقی کو پھلنے پھولنے کا موقع نہ دیا جائے۔ کئی
بین الاقوامی پروجیکٹ آئے۔ جاپان نے کہا کہ ہم لائٹ ٹرین سروس دینے کیلئے تیار ہیں، امریکہ کی ایک کمپنی نے آفرکی کہ ہم ڈزنی لینڈ بنانا چاہتے ہیں، ایک غیر ملکی کمپنی انڈر گرائونڈ ٹرین کا منصوبہ لے کر آئی لیکن ان سب کے سامنے یہی لوگ ایسے سینہ تان کر آ گئے جیسے دروازے پر چوکیدار کھڑا ہوتا ہے۔ ایک موبائل کمپنی نے کہا کہ ہم کراچی‘ دبئی لوکل کال سروس دینا چاہتے ہیں، اُس کو تو رسماً انکار کا جواب بھی نہیں دیا گیا۔ یہ توخوش قسمتی سے اب واٹس ایپ آگیا اور دُنیا کے کئی ممالک کے درمیان مفت رابطہ ہوگیا لیکن ہمارے حکمرانوں نے کراچی کی باری پر اپنا دل بڑا نہیں کیا۔
کراچی میں سالِ نو کا جشن منانے پر پابندی لگا دی گئی ۔ کراچی کے شہریوں کی تفریح کے لیے ایک سمندر ہی تو ہے، اسے بھی ''بند‘‘کردیا گیا۔ کیا کراچی کے لوگوںکے لیے ہلہ گلہ کرنے پر پابندی ہے؟ کیا کراچی کے عوام کے چہروں پر مسکراہٹ کسی کو پسند نہیں ہے؟ کیا کراچی کے شہری پورے پاکستان کے عوام کی طرح جشن نہیں مناسکتے؟ پورے ملک میں عوام نے جشن منایا لیکن کراچی میں پولیس نے سڑکوں پر ناکہ بندی کی۔ پورے ملک میں عوام نے سالِ نو پر آتش بازی کی لیکن کراچی میں پولیس نے چھاپے مارے اور گرفتاریاں کیں۔ کراچی کے عوام کے ساتھ پولیس کا یہ غاصبانہ سلوک کیوں ہوتا ہے؟ سندھ کے حقوق کے چیمپیٔن بننے والے کراچی کے عوام کے ساتھ یہ امتیازی سلوک کیوں کرتے ہیں؟ پورے ملک پر ہر وقت نظر رکھنے والا میڈیا اِس معاملے پر کیوں خاموش رہتا ہے؟ بنگلہ دیش میں پاکستان کے حامیوں کو پھانسیاں دی جا رہی تھیں اور جب انسانی حقوق کے حوالے سے سوال اٹھایا گیا تو بنگلہ دیش سے یہی جواب آیا تھا کہ ''جو ہم پر گزری ہے کبھی تم نے آکر ہماری وہ داستان ِستم سُنی تھی؟ اب کیوں آئے ہو؟ ہمیں ہمیشہ ''کالا کالا بنگالی‘‘ کہا، اب ہم کالوں سے کیوں بات کرنے آئے ہو؟‘‘۔ کراچی کی تین چار نسلیں جمہوریت کا راگ الاپنے والوں کے ہاتھوں یہی امتیازی سلوک برداشت کر رہی ہیں۔ کراچی میں ہر آنکھ اشک بار ہے اور ملک کے دیگر بڑے شہروں میں نیلی پیلی ٹرینیں رفتار کے مقابلے کر رہی ہیں۔ نہ سو موٹو ایکشن ہے نہ کہیں ''ری ایکشن ‘‘ ہے۔ ایک سناٹا ہے جو مار ڈالتا ہے۔ ایک بے بسی ہے جس کا تماشا بھی کوئی دیکھنے نہیں آتا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں