کراچی اس بار موسم سرما کے دوران آئینی موشگافیوں اور ہلکی پھلکی جھڑپوں میں ''نمونیا‘‘کی طرح مبتلا ہے۔ سندھ کے جاگیرداروں کا کراچی پر قبضہ کرنے کا خواب اب پورا ہوچکا ہے اور کراچی ایک بے بس مرغی کی طرح اُن کے پنجہ استبداد میں جکڑا پھڑپھڑارہا ہے۔ اپنی آنکھوں کے سامنے شہری آزادیوں اور جدید معاشرے کو تباہ و برباد ہوتا دیکھ رہا ہے ۔۔۔۔۔اورکوئی کراچی کی اس حالت پرترس کھانے کو تیار نہیں،چاہے وہ ماں جیسی ریاست ہویاباپ جیسا وفاق یا اسی ''فیملی‘‘کا بزرگ صوبہ۔کراچی ایسا سوتیلا بیٹا ہے جو کماتا بھی سب سے زیادہ ہے اور مار بھی سب سے زیادہ کھاتا ہے کیایہی اس کا مقدر ہے؟یا پھر اسے جان بوجھ کر ''غیر‘‘ بنایا جارہا ہے ۔
ایوب خان نے پاکستان کو بھارت کی طرح جاگیردارانہ نظام سے نکالنے کیلئے زرعی اصلاحات کیں اور پی آئی ڈی سی بناکر جس ''صنعتی پاکستان‘‘ کی بنیاد رکھی تھی، اب وہ پورا منصوبہ زمین بوس ہوگیا ہے۔ موجودہ سیاستدانوں کی شریف اور گٹرسیاست اسی منصوبے کے ملبے پر ہورہی ہے۔ ملک ''ترقی ‘‘کرتے کرتے بدترین معاشی تباہی کے گڑھے میں گرگیا ہے ۔ پاکستان اب وہ پاکستان نہیں رہا جس کی پلاننگ اور منصوبہ بندی کوریا نے ہم سے مانگی تھی، مالٹا ایئر لائن‘سنگاپورایئرلائن اور گلف ایئرلائن ہمارے ماہرین کی خدمات حاصل کر کے دنیاکی بڑی ایئرلائنز بن گئیں اور ہم تباہ شدہ ایئرلائن کا ماتم کرکے عالمی سطح کی نمبرون ایئرلائن پی آئی اے کو نہ صرف کوڑیوں کے دام بیچ رہے ہیں بلکہ اپنے قومی اثاثے لٹارہے ہیں۔
ڈاکٹر محبوب الحق نے ملک کی اقتصادی ترقی کیلئے پانچ سالہ منصوبے کی بنیاد رکھی تھی جو ہم نے دس پندرہ سال سے بند کردی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو منصوبہ بندی اچھی نہیں لگتیوہ تو ادارے تباہ کرنے کے منصوبے بناتے ہیں۔کمیشن بڑھانے کی پلاننگ کرتے ہیں۔ہمیںصرف خاندانی منصوبہ بندی اتنی ''راس‘‘ آئی کہ ہم نے اس کا محکمہ ہی بند کردیا۔یہ آزادی کا دور ہے جو بچہ پیدا ہونا چاہے اطمینان سے پیدا ہواُسے کوئی نہیں روک سکتا۔ بات ہو رہی تھی پی آئی اے کی کہ اسے ایک پلاننگ کے تحت بیچا جارہا ہے ابھی تو سینیٹ نے پی آئی اے کو فروخت کرنے کا صدارتی آرڈیننس ہی منسوخ کرڈالا ہے لیکن دوسرے شارٹ کٹ نکالے جارہے ہیں کہ کسی طرح یہ قومی اثاثہ جلد ازجلدفروخت ہو اور ملک ایک بڑی پہچان سے محروم ہو جائے۔ سوال یہ ہے کہ خریدار کمپنی اسے کیوں خریدنا چاہتی ہے؟ جواب یہی ہوسکتا ہے کمانے کیلئے!! ایسے جواب پر کیا عوام اور پارلیمنٹ یہ سوال نہیں کرسکتی کہ وہی اقدامات آپ کیوں نہیں کرلیتے؟ اور اگر آپ میں ایک ایئرلائن
چلانے کی صلاحیت نہیں ہے تو پھر آپ پوراملک کیسے چلائیں گے؟ آپ نے تو پاکستان کو''ایشئین ٹائیگر‘‘ بنانے کا اعلان کیا تھا اب آپ اس کو''ایشئین بلی‘‘ کیوں بنارہے ہیں؟ تھائی لینڈ کے ایک وزیر اعظم نے اپنی ذاتی سیٹیلائٹ کمپنی ''تھائی کام‘‘ کو سنگاپور کی کمپنی ''سنگ ٹیل‘‘ کو فروخت کرنے کا معاہدہ کیاتو پورے تھائی لینڈ میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ وزیر اعظم کو اقتدار سے ہٹادیا گیا اُن پر الزام یہی تھا کہ انہوں نے اپنی ذاتی کمپنی ''تھائی کام‘‘ملک کے نام کے ساتھ فروخت کی۔ عوام کا اعتراض تھا کہ ''تھائی لینڈ‘‘ کا نام بیچاگیا ہے ۔عوام سے شکست کھاکر سابق تھائی وزیر اعظم امریکہ فرار ہوگیاتھا لیکن پاکستان میںتو ہر عمل نرالا ہے ۔ہمارے حکمران پی آئی اے کے نام کے ساتھ نام''پاکستان‘‘ اور جہاز پر''پرنٹڈ‘‘قومی پرچم کو بیچ رہے ہیں اور رکاوٹ ڈالنے والا کوئی نہیں ۔۔۔۔۔کیا ایسے ملک دنیا کے نقشے پر احترام کے ساتھ موجود رہتے ہیں؟کاش!! اس کھیل کو کوئی سمجھ سکے اوراس کا مقابلہ کرسکے۔
دوسری طرف کراچی میں وفاق سے آئین اور صوبائی خود مختاری کے نام پر لڑنے والی سندھ حکومت نے کراچی کی بلدیات کے اکثر حقوق دبالئے اور بیشتر چھین لئے۔ اب ایک بڑی لڑائی شروع ہونے والی ہے۔ ہماری وفاق کی قیادت نے پہلی بار کوئی جواب نہ دینے کی پالیسی اپنا رکھی ہے وزیر داخلہ مسلسل''روپوش‘‘ ہیں۔ انہوں نے ''صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں‘‘والی پالیسی اپنا رکھی ہے، وہ نہ تیل دیکھ رہے ہیں اور نہ تیل کی دھار،پتہ نہیں وہ کہاں دیکھ رہے ہیں ۔۔۔۔۔؟ اور کیا دیکھ رہے ہیں؟۔
سندھ حکومت نے اپنوں کو بچانے کیلئے ایک نرالا قانون بناڈالا کہ حکومت کسی بھی زیر سماعت مقدمے میں ملوث شخص کا نہ صرف مقدمہ روک سکتی ہے بلکہ ملزم کو بھی آزاد کرسکتی ہے۔ اِس
قسم کے قوانین پونے دو سوسال قبل انگریزوں نے برصغیرکے غلاموں کو کنٹرول کرنے کیلئے بنائے تھے۔ اب اِن'' مُردہ قوانین‘‘ کو دوبارہ'' قبرستانوں‘‘ سے نکالا جارہا ہے تاکہ''صوبائی خود مختاری‘‘ کے بھر پور مزے لوٹے جاسکیں اور بلدیاتی الیکشن کے بعدکراچی اور حیدرآباد میں آنے والے منتخب نمائندوں کے اعتراضات پر پکڑے جانے والے''اپنوں‘‘ کو بچایا جاسکے لیکن لگتا ہے کہ سندھ میں یہ قانون نافذ نہیں ہوسکے گا کیونکہ اب اُس کے خلاف مقدمہ سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر ہوگیا ہے اِس لئے نئی قانون سازی کو''بریک‘‘ لگ گئی ہے، جب تک سپریم کورٹ اس پر کوئی فیصلہ نہ دے ۔اِس طرح اللہ رب العزت نے اہلیانِ کراچی کو''بڑے صوبائی عذاب‘‘سے بچالیالیکن بہرکیف کراچی والے دو طرفہ ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔سندھ حکومت''کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی‘‘سے لفظ کراچی نکال کر''سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ‘‘بناتے ہوئے اس پر قبضہ کرلیتی ہے ۔دوسری جانب وفاق'' کراچی اسٹاک ایکسچینج ‘‘سے کراچی نکال کر اس کا نام ''پاکستان سٹاک ایکسچینج‘‘ رکھ کر اس پر قبضہ کرلیتا ہے ۔معلوم نہیں کراچی دشمنی میں دونوں ایک کیوں اور کیسے ہوجاتے ہیں؟ شاید ''کراچی دشمنی‘‘کی ''ریس ‘‘میں دونوں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنا چاہتے ہیں۔