ڈاکٹر عاصم کا ''معلوماتی رس‘‘ نچوڑ کر ریفرنس کا ''گلاس‘‘ تیار کرلیا گیا ہے اور اب قومی احتساب بیورو (نیب )سات سال بعد اپنی تنخواہ ''حلال‘‘ کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ ریفرنس منظور ہوتے ہی نیب کا شکنجہ ڈاکٹر عاصم کے بیان کردہ لوگوں کے گرد کسا جائے گا۔ عزیر بلوچ کی فائل کے ساتھ ابھی تک زیادہ ''چھیڑ چھاڑ‘‘ نہیں کی گئی، بعض رپورٹرز اور اینکرز اپنی خواہش کے مطابق خبریں بنا کر''ٹی آر پی‘‘ کے ساتھ اپنے نمبر بنا رہے ہیں تو کچھ اپنی ''جان‘‘ بچانے کی بھی تیاری کر رہے ہیں۔ دبئی سے عزیر بلوچ کی پاکستان اچانک منتقلی پر پریشان سابق وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن نے لندن کی اڑان بھری، لیکن ہیتھرو ایئرپورٹ پر امیگریشن حکام کے ہتھے چڑھ گئے جہاں ان سے کئی گھنٹے پوچھ گچھ کی گئی۔ انہیں یہ ہدایت بھی مل گئی کہ وہ 14 فروری کو حکام کے سامنے دوبارہ پیش ہوں اور یہ بھی کہا گیا کہ وہ اپنے ہوٹل سے کہیں بھی سفر کریں تو اطلاع لازمی کریں۔ لندن پولیس نے ان کی ہوٹل کو ہی ''عارضی سب جیل‘‘بنا دیا ہے۔ یہ سندھ کے پہلے سیاستدان ہیں جو اپنے خرچے پر '' قید بالرضا ‘‘ کاٹیں گے اور یہ ایک ورلڈ ریکارڈ ہوگا۔ شرجیل میمن پر کرپشن کے مقدمات کی ایک طویل فہرست ہے۔ ان کے دو فرنٹ مین بھی گرفتار ہوچکے ہیں جبکہ ان کے پرسنل سیکرٹری کی گرفتاری کے لئے بھی چھاپے مارے جارہے ہیں، لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ سابق صوبائی وزیر اویس مظفر ٹپی ابھی تک منظر نامے سے غائب ہیں۔ بعض واقفانِ حال کا یہ بھی کہنا ہے کہ اویس مظفر ٹپی کو''آخری کارڈ‘‘کے طور پیش کیا جاسکتا ہے۔
نیب کی پے درپے کارروائیوں پر وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ برہم بلکہ آگ بگولا ہورہے ہیں تو دوسری جانب ''عزیر کارڈ‘‘ کو فی الحال روک لیا گیا ہے اور اب''سیاسی آپریشن‘‘ شروع کیا جارہا ہے۔ باخبر حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ شرجیل میمن نے اسٹیبلشمنٹ کے بعض حلقوں سے رابطے کرکے پیشکش کی ہے کہ اگر انہیں معاف کردیا جائے تووہ سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف اہم ثبوت سامنے لائیں گے۔
شرجیل میمن کے وزارت اطلاعات کے دور میں گھپلے اور بدعنوانیوں کا ایک نیا دور چلا ۔ سینہ گزٹ سے یہ اطلاع بھی ہے کہ شرجیل میمن کے گھر سے اربوں روپے کی رقم برآمد ہوئی جسے لانچوں کے ذریعے بیرون ملک بھجوانے کی تیاریاں کی گئی تھیں۔ مقتدر حلقوں نے سندھ کے کپتان قائم علی شاہ کو شرجیل میمن اور دیگر وزراء کی بدعنوانیوں کے بارے میں آگاہ کیا تو انہوں نے وقتی طور پر اسٹیبلشمنٹ کو مطمئن کرنے کے لئے شرجیل میمن کی وزارت تبدیل کردی، لیکن جیسے ہی شرجیل میمن کو خبر ہوئی تو وہ بیماری کا بہانہ بنا کر بیرون ملک چلے گئے۔ لیکن جب انہیں بیرون ملک بیٹھ کر بھی تحفظ کا احساس نہ ہوا اوردبئی سے گم شدہ ہونے والے عزیر بلوچ کی گرفتاری کراچی سے ظاہر ہوئی تو انہوں نے دوستوں سے مشاورت کی اور عدہ معاف گواہ بننے کے لئے تیار ہوگئے۔
نیب کی پھرتیاں سب کو نظر آرہی ہیں اور اب یہ کارروائیاں صرف سندھ تک ہی محدود نہیں رہیں گی بلکہ پنجاب کی بھی آٹھ اہم شخصیات کے خلاف کیسز تیار کر لئے گئے ہیں اور نندی پور پروجیکٹ میں اہم افسران کی گرفت صوبائی حکومت کے لئے درد سر بننے والی ہے، جس میں ایک صوبائی وزیر‘ ایک وفاقی وزیر اور ایک ایم این اے بھی شامل ہیں۔ واقفانِ حال یہ بھی کہتے ہیں کہ شرجیل میمن کے بعد ایک اور ''شاہ کا نمبر بھی آنے والا ہے جو سندھ کے اہم وزیر ہیں۔ ایک وقت تو ایسا بھی تھا جب انہیں وزیر اعلیٰ سندھ بنانے کی بھی تیاریاں مکمل تھیں لیکن سندھ سید ایسوسی ایشن کی جانب سے ''کلیئرنس‘‘ نہ ملنے پر انہیں وزارت پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔
اگر کوئی بھی شخص حکمرانوں کے چہروں کو غور سے دیکھ لے اور چہرہ شناس بھی ہو تو اسے اندازہ ہوجائے گا کہ یہ لٹکے ہوئے منہ اور اترے ہوئے چہرے کیا پیغام دے رہے ہیں۔ کچھ اہل ِنظر کو دھرنے والے دنوں کا خوف نظر آرہا ہے اور بعض افراد یہ کہتے ہیں کہ غلام اسحاق خان کے آخری دنوں کا طوفان بھی ایسا ہی تھا۔ عزیر بلوچ نے تو ابھی چند راز اُگلے ہی تھے کہ پیپلز پارٹی کے کئی وزراء اور صوبائی اسمبلی کا ''ہاضمہ‘‘ خراب ہوگیا۔ بعض ارکان ملک چھوڑ کر چلے گئے تو کچھ نے اِدھر اُدھر ہونے کی حکمت عملی اپنالی۔ سندھ اسمبلی میں یہ کڑا وقت بھی آسکتا ہے کہ جب حزبِ اختلاف کے ارکان یہ مطالبہ کردیں کہ وزیر اعلیٰ ایوان میں اکثریت کھوچکے ہیں اس لئے اعتماد کا ووٹ دوبارہ لیا جائے۔ یہ مرحلہ بڑا خطرناک ہوسکتا ہے اور اقتدار کا تخت و تاج ڈول سکتا ہے اور ایک دفعہ سندھ اسمبلی میں سجا سجایا تخت خالی ہو گیا تو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ سندھ کا آئندہ حکمران کون ہوگا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1971ء کے الیکشن میں حصہ لیا تو سندھ اسمبلی کی ساٹھ میں سے 28 نشستیں پیپلز پارٹی نے حاصل کی تھیں، اسے ایوان میں ووٹوں کی عددی اکثریت حاصل نہیں تھی لیکن'' سیاسی جادوگری‘‘ نے پیپلز پارٹی کے سر پر تاج رکھ دیا اور ان کے قدموں میں تخت بچھادیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہیں تاریخ خود کو دوبارہ نہ دہرا نے لگے۔ سندھ میں کچھ نہ کچھ ہونے کی خوشبو آ رہی ہے اور سب سے پہلے سندھ میں ہی کچھ ہوگا بلکہ بہت کچھ ہوگا۔
سندھ حکومت اِن دنوں عوام کی خدمت کے لئے منصوبہ بندی نہیں کر پا رہی ہے۔ ان کی ترجیحات کچھ اور ہیں، کراچی تباہ ہورہا ہے، سندھ کے اندرونی علاقوں اور خاص طور پر تھر سے روزانہ تین ‘چار بچوں کی اموات کی خبرآ رہی ہے، لیکن کسی کو بھی فکر نہیں ہے، ہر کوئی اپنی جان بچانے اور ویزہ لگانے میں مصروف ہے۔ پیپلز پارٹی کا تو نعرہ ہی ''جان ہے تو جہان ہے‘‘بنتا جارہا ہے .....نہ سیاسی تقریبات ہیں اور نہ سماجی و ثقافتی پروگرام کی صدارتیں، پورا سندھ خاموش ہے، صرف ٹی وی ٹاک شوز پر تھوڑا بہت شور شرابہ ہے۔
پاکستان کی سیاست بھی اس وقت منجمد ہے.... ایسا لگتا ہے کہ اب صرف مایوسی راج کرے گی اور جو طاقتور ہیں انہوں نے اب کچھ نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ڈاکٹر عاصم اور عزیر بلوچ کے اعترافات کے بعد اداروں کی آنکھیں بھی کھل گئی ہیں، انہیں یقین نہیں آرہا کہ جمہوریت کے نام پر اس ملک میں کیسا کالا کاروبار ہو رہا تھا؟ اس لئے بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں اب زلزلہ بھی آنے والا ہے او ر آفٹر شاک بھی،پھر سب کچھ بدل جائے گا اور لوگ یہ بھی دیکھ لیں گے کہ آخری قہقہہ کون لگاتا ہے؟