سندھ حکومت اور نومنتخب بلدیاتی نمائندوں میں ''شدید لڑائی‘‘ کسی بھی وقت شروع ہونے والی ہے۔ اختیارات کی جنگ گلی محلوں میں نہیں بلکہ اسمبلیوں اور عدالتوں میں ہو گی۔ ایک عدالتی فیصلہ آ چکا ہے جس میں سندھ حکومت کو پسپائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اب میئر و ڈپٹی میئر کا انتخاب خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہو گا۔ اس طرح سندھ میںگھوڑوں کا ایک اور اصطبل بننے سے بچا لیا گیا۔ ''ہارس ٹریڈنگ‘‘ ہوتے ہوتے رہ گئی۔ مسائل اور وسائل کی تقسیم کا جھگڑا ''بوائلنگ پوائنٹ‘‘ تک پہنچ گیا ہے۔ مسائل میں بے پناہ اضافہ ہوا‘ لیکن وسائل کی کٹوتی ہی ہوتی رہی۔ محکمہ خزانہ سندھ کی ایک دستاویز ''لیک‘‘ کیا ہوئی انکشافات کی بھرمار ہو گئی۔ دستاویز کے مطابق مالی سال کے سات ماہ گزرنے کے باوجود سندھ حکومت 55 فیصد ترقیاتی فنڈز جاری نہ کر سکی‘ جس کے باعث صحت‘ تعلیم‘ پولیس‘ پانی کی فراہمی اور سڑکوں کی تعمیر کے منصوبے التوا کا شکار ہیں۔ سندھ کے بجٹ میں مختص 142 ارب روپے میں سے 79 ارب روپے جاری نہیں کئے گئے‘ اور اب آدھے سے زیادہ منصوبے اپنے مقررہ وقت پر پورے نہیں ہو سکیں گے۔
سندھ حکومت کی یہ منطق بھی سمجھ سے باہر ہے کہ ''مشرف دور جتنے اختیارات نہیں دے سکتے‘‘۔ اُن کے بقول مشرف ڈکٹیٹر تھے‘ اگر اُن کی بات مان لی جائے تو اب جمہوری حکومت ہے‘ اس لئے ڈکٹیٹر دور جتنے یا کم نہیں بلکہ اس سے زیادہ اختیارات دینا پڑیں گے۔ جو حکومت خود پیسے خرچ نہ کر سکے اسے بلدیاتی اداروں کے حصے کی وہ رقم بلدیاتی اداروں کے حوالے کر دینی چاہیے تاکہ عوامی وسائل کے ذریعے ہی مسائل میں کمی ہو سکے۔ بلدیاتی اداروں کو سندھ حکومت سے واپس لینے کے لئے بل اسمبلی میں جمع کرا دیا گیا ہے۔ کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ گاڑیاں کراچی کی سڑکوں پر دوڑتی ہیں‘ بلدیہ کراچی سڑکوں کی مرمت کرتی ہے اور موٹر وہیکل ٹیکس سندھ حکومت لے جاتی ہے۔ عمارتیں کراچی میں تعمیر ہوتی ہیں پراپرٹی ٹیکس وصول کرنے کے لئے سندھ حکومت آستینیں چڑھا کر آ جاتی ہے‘ جبکہ سندھ حکومت کی حالت یہ ہے کہ ایک سال میں تعمیر ہونے والا ملیر 15 فلائی اوور ڈھائی سال بعد مکمل ہوا تو پہلے دن کے ٹریفک لوڈ کی وجہ سے اس میں دراڑیں پڑنا شروع ہو گئیں۔ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ ٹھیکیدار بھی کوئی ''جیالا‘‘ ہی ہو گا۔
یہ 1971ء نہیں کہ منتخب قیادت کو ووٹ لینے کی سزا دی جائے۔ نہ ہی 1983ء یا 1987ء ہے کہ میئر کراچی عبدالستار افغانی کو موٹر وہیکل ٹیکس اور پراپرٹی ٹیکس مانگنے کے جرم میں میئرشپ سے محروم کیا جائے‘ اور لاک اپ کر دیا جائے۔ آج آزاد میڈیا اور آزاد عدلیہ کا دور ہے۔ بہت سے مسائل میڈیا پر آتے ہی ''حل‘‘ میں بدل جاتے ہیں‘ جبکہ بیشتر معاملات پر عدالتی فیصلے کی مہر لگ جائے تو وہ برسہا برس ''ریفرنس‘‘ کے طور پر استعمال ہوتے رہتے ہیں۔
پیپلز پارٹی اس وقت وفاق سے لڑ رہی ہے۔ ہر دو تین ماہ بعد چوہدری نثار علی ایک پریس کانفرنس کرکے ''آگ‘‘ لگا دیتے ہیں اور پیپلز پارٹی جوابی بیانات دینا شروع ہی کرتی ہے کہ شریک چیئرمین ''زباں بندی‘‘ کا حکم جاری کرتے ہیں۔ اینٹ سے اینٹ بجانے والے کی یہ ''مفاہمت‘‘ کسی کو سمجھ نہیں آئی۔ اب پیپلز پارٹی کو بلدیاتی اختیارات پر ایم کیو ایم سے بھی لڑائی کا سامنا ہو گا۔ ایک ہی وقت میں اسمبلی‘ عدالت اور میڈیا ہر جگہ وسائل کی تقسیم اور اختیارات کے بٹوارے کی باتیں شروع ہو جائیں گی۔ پیپلز پارٹی کی پہلی کوشش ہو گی کہ ''اختیارات روکو‘‘ پالیسی کا بھرپور دفاع کیا جائے لیکن ایسا کب تک ہو گا؟ یہ وہ سوال ہو گا جو آنے والے دنوں میں پیپلز پارٹی کی قیادت کو سمجھ آ جائے گا... یا سمجھانے کے لئے ''سیاسی تاش‘‘ کے مزید پتے ''شو‘‘ کئے جا سکتے ہیں۔
خدشہ یہ ہے کہ بلدیاتی حقوق کے لئے شروع ہونے والی جنگ کہیں سندھ کے بٹوارے تک نہ پہنچ جائے۔ جب کھلم کھلا یہ کہا جانے لگے کہ ہم آپ کے حقوق نہیں دیں گے‘ آپ کے حصے کی رقم بھی ہم خرچ کریں گے‘ گٹر کے ڈھکن لگیں نہ لگیں ان پر اپنی تصاویر بنوا کر ''فکس اٹ‘‘ مہم کے بانی ہم بنیں گے‘ ہم حاکم بن کر راج کریں گے اور تم محکوم بن کر احتجاج کرتے رہو گے‘ تو ہر شخص جان سکتا ہے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ 1945ء میں بھی کانگریس نے یہی غلطی کی تھی اور لیاقت علی خان کے دو کروڑ کے اضافی فنڈز کے مطالبے پر ہندو کابینہ جس طرح آنکھیں دکھانے کے لئے آ گئی تھی اس کا نتیجہ تقسیم ہند کی صورت میں نکلا تھا۔ ہم نے 1971ء میں بھی کہا تھا کہ جو رکن اسمبلی ڈھاکہ جائے گا‘ وہ پھر واپس نہیں آئے گا‘ اُسے ''ریٹرن ٹکٹ‘‘ لینے کی ضرورت نہیں۔ اور تنگ نظری کی اسی سوچ نے مشرقی پاکستان کا نام ہی بدل ڈالا تھا۔ سیاست میں بھی جب جب اکڑ دکھائی گئی درخت کے درخت ہی جڑ سے اکھڑ گئے۔
سندھ میں اس وقت تین کروڑ اہلیانِ کراچی کو ریاستی طاقت کا غلام بنانے اور گندگی میں ڈوبے شہر میں رہنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ کیا اہلیانِ کراچی اتنے بے بس‘ مجبور‘ بے کس‘ بے حس اور بے اختیار ہیں کہ اب اپنے ہی شہر میں مجبوراً آباد رہیں گے‘ جہاں کی سڑکوں پر گڑھوں کی قطاریں‘ کھلے مین ہولز کی بھرمار اورکچرا کنڈی کے ڈھیر ہوں‘ اس شہر کا 67 فیصد ریونیو کس کھاتے میں جائے گا؟ کراچی کے گڑھے موہن جو دڑو کی سڑکوں کو دکھا دیے جائیں تو وہ شہر قائد کو اپنی تاریخ سے بھی 5 سو سال پرانی حیثیت ''گفٹ‘‘ کرنے پر مجبور ہو جائیں گی۔ کراچی اُجڑ رہا ہے۔۔۔۔ تباہ ہو رہا ہے۔۔۔۔ لوٹا جا رہا ہے۔۔۔۔ کھنڈر بن رہا ہے۔۔۔۔ لیکن سندھ حکومت کو نہ اس کی پروا ہے اور نہ ہی کراچی میں بیٹھ کر سندھ پر حکومت کرنے والوں کی آنکھوں میں کوئی رحم۔ بلدیاتی اداروں کے ''پاورز‘‘ فریز کر لئے گئے۔۔۔۔ اختیارات محدود کر دیے گئے ہیں۔۔۔۔ شہر کا پانی بند ہے۔۔۔۔ لیکن ٹینکر سروس پانی کی وافر فراہمی کے لئے دن رات ایڈوانس بکنگ کر رہی ہے۔۔۔۔ سیوریج کا پانی سڑکوں پر صبح شام موجود رہتا ہے۔۔۔۔ سندھ حکومت ہر کام کے لئے علیحدہ رقم کا مطالبہ کرتی ہے۔۔۔۔ اور اہلیانِ کراچی کو قدم قدم پر یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ انہیں نہ حقوق ملیں گے اور نہ ہی اختیارات۔۔۔۔!!