مردم شماری دنیا کے تمام ممالک میں کچھ وقفے (عموماً دس سال)کے بعد ہوتی ہے۔ اس سے مراد ملک میں لوگوں کی تعداد اور ان کے بارے میں مواد اکٹھا کرنا ہوتا ہے۔ یہ مواد معاشی منصوبہ بندی اور ترقی میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ملک کی ضروریات کیا ہیں؟ ملک کی آبادی میں کتنا اضافہ ہوا؟ کیاکمی آئی؟ آبادی کا تعلق کس زبان اور نسل سے ہے؟ ان کی تعلیم کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔
قومی مردم شماری و خانہ شماری کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ یہ بھی بدقسمتی اور ذمہ دار لوگوں کی نااہلی ہے کہ ان کو 17سال کے عرصے میں پتا نہیں چل سکا کہ پاکستان کی آبادی کتنی بڑھ چکی ہے۔ زندگی کے کن کن شعبوں میں عوام کی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لئے کیا ضرورتیں ہیں؟ کون سے شعبے میں زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے؟ حکومت ہر شعبے میں اندھیرے میں ڈنڈا چلانے کی کوشش کر رہی ہے۔ حکومت کو پتا ہی نہیں کہ کس جگہ خوراک کے لئے کتنا اناج درکار ہے؟ ملک کے کس حصے میں عوام کے علاج معالجے کے لئے کس تعداد میں اسپتالوں کی ضرورت ہے؟ اور عوام کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لئے کتنے اسکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں کی ضرورت ہے؟ عوام کیوں بنیادی حقوق حاصل کرنے سے محروم ہیں؟
1998ء میں پانچویں مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 13کروڑ 23 لاکھ نفوس پر مشتمل تھی اور اب 18سال بعد لوگوں کو گننے کا عمل چھٹی بار شروع ہوتے ہوتے رہ گیا ہے۔ پہلی مردم شماری 1951ء دوسری 1961ء تیسری 1972ء اور چوتھی 1981ء میں ہوچکی ہیں۔ فوج کی آپریشن ضرب عضب اور دیگر سیکیورٹی معاملات میں مصروفیت کے باعث مردم شماری مارچ میں نہیں ہوسکتی۔ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں ہونے والے اس فیصلے میںچاروں وزائے اعلیٰ شریک تھے۔ ہرصوبے کی خواہش ہے کہ مردم شماری فوج کی نگرانی میں ہو تاکہ ''دھاندلی‘‘کا کوئی امکان نہ رہے۔ سندھ چاہتا ہے کہ مردم شماری کا عمل جلد از جلد مکمل ہو تاکہ قومی مالیاتی فنڈ کی رقم ''نئی گنتی‘‘ کے مطابق ملے۔ سندھ حکومت نے مردم شماری مؤخر ہونے پراحتجاج کرتے ہوئے آل پارٹیز کانفرنس بھی طلب کرلی ہے۔
کراچی میں آج کل یہ صف بندی ہو رہی ہے کہ مردم شماری کے مرحلے پر کس طرح مردانگی دکھانی ہے اور انسانوں کو کس طرح گنوانا بھی ہے اور تولنا بھی ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے مردم شماری کو سندھ (دیہی سندھ) کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ قرار دے دیا ہے۔ گزشتہ 17سال میں سے 8 سندھی صوبائی حکمرانوں نے اندرون ِسندھ یا دیہی سندھ کی ترقی کے فنڈز ترقیاتی کاموں کے بجائے ذاتی ترقی پر لگادیئے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سندھ بنجر ہوگیا۔ لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال نے اندرونِ سندھ ملازمتوں کے مواقع ختم کردیئے اور سندھی نوجوان ملازمتوں کی تلاش میں شہروں کی طرف نکل پڑے، لیکن سندھی حکمرانوں نے پھر بھی اس مسئلے پر توجہ نہیں دی کہ ہماری دیہی قوت (مین پاور) چھوٹے اور بڑے شہروں کی طرف ہجرت کررہی ہے اور ہمارے حلقہ انتخاب ووٹروں سے خالی ہورہے ہیں۔ اب تو وزیر اعلیٰ صاحب کو بھی ماننا پڑ رہا ہے کہ ''مردم شماری ہماری زندگی اور موت کا مسئلہ ہے‘‘۔ ایک سندھی قومی پرست رہنما جلال محمود شاہ نے فرمایا: ''سندھیوں کی آبادی 6 کروڑ سے زیادہ ہے، مردم شماری میں عوام بھرپور حصہ لیں‘‘۔ اگر جلال محمود شاہ کے اس بیان کودرست تسلیم کرلیا جائے تو سندھ کی آبادی شاید پنجاب سے بھی زیادہ ہوجائے گی کیونکہ سندھ میں سندھیوں کے علاوہ اردو بولنے والے، پنجابی ‘ بلوچ اور پختون بھی آباد ہیں۔ نادرا کے ریکارڈ کے مطابق کراچی میں 29 لاکھ 50 ہزار تارکین وطن بھی موجود ہیں جن کو رجسٹر بھی کیا گیا ہے، ان میں اکثریت افغانیوں اوربنگالیوں کی ہے۔ دلچسپ اعداد و شمار یہ ہیں کہ کراچی جیسے بین الاقوامی شہر میں101ممالک کے تارکینِ وطن آباد ہیں اورکراچی کے وسائل اور سہولیات سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ بعض اوقات تو شہریوں کو پانی نہیں ملتا اور تارکین وطن نہا رہے ہوتے ہیں۔ کراچی کی معیشت کے گھومتے پہیے سے اِن تارکین ِوطن کو نکالنا آسان نہیں ہے۔
کراچی کی آبادی میں سب سے بڑا حصہ اردو بولنے والے مہاجروں کا ہے۔ ایم کیو ایم سندھ میں ان کی تعدادساڑھے تین کروڑ بتاتی ہے۔ کبھی کبھی تقریروں میں یہ تعداد چار کروڑ بھی بتائی جاتی ہے۔ اندرونِ سندھ بھی حیدرآباد‘ میرپور خاص‘ سکھر‘ ٹنڈوجام‘ ٹنڈو الہ یار‘ ٹنڈو آدم اورشہداد پور اردو بولنے والوں کے اکثریتی علاقے ہیں۔ ان سب کو کس طرح مردم شماری سے نکالا جاسکتا ہے؟ اور سندھیوں کی تعداد بھی کوئی کس طرح کم کرسکتا ہے؟ وزیراعلیٰ کی طرف سے بلائی جانے والی گول میز کانفرنس میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ دوسرے صوبوں سے آنے والوں کو'' ورک پرمٹ‘‘ دیا جائے لیکن آئینی طور پر ایسا ممکن نہیں کیونکہ آئین ِ پاکستا ن یہ ضمانت دیتا ہے کہ ''ہر پاکستانی ملک کے کسی بھی حصے میں کاروبارکرنے کے لئے جاسکتا ہے، رہائش اختیار کرسکتا ہے اور الیکشن بھی لڑسکتا ہے ‘‘۔ یہ صاف نظر آرہا ہے کہ ماضی کی طرح سندھ میں نان سندھی حالیہ مردم شماری سے لاتعلق نہیں رہیں گے‘ اپنا کردار ادا کریں گے۔ پشاور میں آباد پختونوں سے زیادہ تعداد میں بسنے والے کراچی کے پٹھان سیاسی شعور کا مظاہرہ بھی کرنا چاہتے ہیں۔ اندرونِ سندھ تقسیم سے قبل آباد پنجابی جو خود کو ''آبادگار‘‘کہتے ہیں ان کی خاموش تیاریوں کی اطلاعات بھی کچھ نیا ہونے کا اشارہ دے رہی ہیں۔
مردم شماری نہ ہونے کی وجہ سے کراچی سمیت اندرونِ سندھ میں بلدیاتی حلقہ بندیوں کی تشکیل کے موقع پر کئی اضلاع میں آبادی کم اور ووٹرزکی تعداد زیادہ رہی۔ کراچی میں کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جو 1998ء کی مردم شماری میں بھی نہیں ہیں۔ بعض ذرائع کہتے ہیں کہ کراچی میں کئی علاقے 1998ء کے بعد وجود میں آئے، وہاں بلدیاتی حلقے بنائے گئے ہیں لیکن قومی اور صوبائی حلقوں میں اضافہ نہیں کیاگیا جس کی وجہ سے فنڈز کے جاری ہونے میں قانونی رکاوٹیں ہیں اور عوام اپنے جائز حقوق سے محروم ہیں۔
رقبے کے اعتبار سے ملک کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں بعض بلوچ اور پشتون قوم پرست جماعتوں کے درمیان یہ بات ہمیشہ متنازع رہی ہے کہ بلوچستان میں کون اکثریت میں ہے؟ماضی میں جو مردم شماریاں ہوئیں انہیں پشتون قوم پرستوں نے تسلیم نہیں کیا اوراس مرتبہ بلوچ قوم پرست جماعتوں نے دھمکی دی ہے۔ بلوچستان میں اس وقت قوم پرست جماعتیں تقسیم ہیں۔ علیحدگی پسند بلوچ جماعتیں انتخابات اور مردم شماری کی مخالفت کر رہی ہیں جبکہ پارلیمانی سیاست کرنے والی بلوچ اور پشتون قوم پرست جماعتیں انتخابات اور مردم شماری کی تو حامی ہیں لیکن بلوچ قوم پرست سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کے موجودہ حالات مردم شماری کے لیے سازگار نہیں ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ''بلوچستان جل رہا ہے، اس صورت حال کے باعث بلوچ آبادی والے بیشتر علاقوں سے لوگ نقل مکانی کرچکے ہیں‘‘۔ بلوچ قوم پرست یہ بھی کہتے ہیں کہ بلوچستان میں اس وقت لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین بھی آباد ہیں جن میں سے بڑی تعداد نے پاکستانی شہریت کی دستاویزات حاصل کر رکھی ہیں۔ 1998ء میں سردار اختر مینگل کے دور حکومت میں جب مردم شماری ہوئی تھی تو پشتون قوم پرست جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے اس کا بائیکاٹ کیا تھا اور اب بھی ملک کے کئی علاقوں کی صورت حال میں تبدیلی نہیں آئی۔
سندھ میں شہری اور دیہی تنازعے کے ساتھ بلوچستان کی طرح سندھی اور بلوچ آبادی کے اعدادوشمار بھی مزید واضح ہوں گے۔ جیکب آباد ‘ سکھر‘ گھوٹکی اور دیگر بالائی اضلاع میں بلوچ قومیت بڑی تعداد میں آباد ہے۔ ان کا شمار سندھیوں میں کیسے کیا جائے گا؟ اور اگر انہوں نے بھی اپنی علیحدہ ثقافت اور شناخت ظاہر کی تو کیا ہوگا؟