کراچی میں سیاسی طوفان آیا ہوا ہے۔ کوئی مانے یہ نہ مانے بڑے بڑے درخت اکھڑنے والے ہیں۔ لچکدار پودے اپنی جگہ بدل کر زندہ رہ سکتے ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کراچی کی نئی تاریخ لکھ دی جائے۔ 3 مارچ کو مصطفی کمال کی پریس کانفرنس کے جواب میں ایم کیو ایم کے ارکان پارلیمنٹ اورپوری رابطہ کمیٹی کو ''شو‘‘ کیا گیا۔ یہ پیغام میڈیا کے لئے تو یقیناً نہیں تھا، لیکن پھر7 مارچ کو ایک اور پریس کانفرنس نے ''آفٹرشاکس‘‘ کا کام کیا۔ سابق صوبائی وزیر صحت اور موجودہ رکن سندھ اسمبلی ڈاکٹر صغیر احمد ''کمال ہائوس‘‘ پہنچ گئے اور ''نامعلوم پارٹی‘‘ میں شامل ہوگئے۔ ٹی وی چینلز کو پھر چار‘ پانچ دن کا ''چورن‘‘ مل گیا۔ اس بار ایم کیو ایم نے فوری جوابی پریس کانفرنس سے بھی گریز کیا، لندن سے ندیم نصرت اور واسع جلیل نے تین چارٹویٹس کرکے پریس کانفرنس کو ''پرانے اسکرپٹ ‘‘کی نئی قسط قرار دے دیا۔ ایم کیو ایم اس کو 1992ء کے آپریشن سے تشبیہ دے رہی ہے۔ 1992ء کے آپریشن میں ایم کیو ایم کی سیاسی طاقت عالم ِشباب پر تھی۔ بریکنگ نیوز اور ٹکرکا گرم مصالحہ لگانے والا الیکٹرانک میڈیا نہیں تھا۔ عوام دل ‘ جان ‘ کھال ‘ فطرے اور چندے کے ساتھ ایم کیو ایم کے شانہ بشانہ تھے۔ ایم کیو ایم کو اپنے جوہر دکھانے کا موقع نہیں ملا تھا، لوگ پر امید تھے اور اہالیانِ کراچی و حیدرآباد، مہاجروں سمیت ایم کیو ایم کو بھی''مظلوم‘‘ سمجھتے تھے۔ دوسری طرف ایم کیو ایم حقیقی کے آنے کا اسٹائل پنجابی فلموں کے ولن جیسا تھا۔ وہ گھوڑے پر سوار تھے، ان کے ہاتھ میں کچھ تھا، انہوں نے کئی اہم لوگوں کو'' قابو‘‘ بھی کرلیا تھا۔ اُس وقت ایم کیو ایم پروپیگنڈے کی طاقت کے استعمال سے جیت گئی تھی لیکن آج حالات یکسر مختلف ہیں۔ ایم کیو ایم کیا کرچکی ہے اور کیا کرسکتی ہے؟ عوام دونوں سے واقف ہیں۔ جو نسل ایم کیو ایم کی دیوانی تھی اور جو ''مظلوموں کا ساتھی ہے‘‘ جیسا نغمہ سن کر تھرکتی تھی وہ جوانی کی سرحد عبور کرکے ادھیڑ عمری کی طرف جا رہی ہے۔ آج کی نئی نسل اس طرح کی دیوانی نہیں ہے، اسے تو گٹکا اور مین پوری کھا رہا ہے۔ بے روزگاری ‘حقوق سے محرومی اور غربت کا دلدل انہیں اپنے دامن میں نگل رہا ہے۔
ایم کیو ایم حقیقی کی آمد لائو لشکر کے ساتھ تھی، لیکن اس بار ایسا نہیں ہوا، اب تو مصطفی کمال کہہ رہے ہیں کہ وہ توڑنے نہیں جوڑنے آئے ہیں، وہ مقابلے کی پارٹی بنانے نہیں سمجھانے اور صحیح راستہ دکھانے آئے ہیں۔ انہوں نے ایم کیو ایم کے کارکنوں کو جاگنے کا درس دیا۔ اب ایم کیو ایم ان کا مقابلہ کرے یا میدان کھلا چھوڑ دے، یہ اُن پر منحصر ہے۔ ان کے پاس مقابلہ کرنے کے لئے بہت سارا مرچ مصالحہ موجود ہے، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ان کے پاس کونسی لیڈرشپ ہے جو اسے''فیس ‘‘ کرسکتی ہے۔ دوسروں کی وکٹیں گرنے کی عینی شاہد ایم کیو ایم کی وکٹیں بھی گرنا شروع ہوگئی ہیں اور اس بار قوت بازو یا ووٹوں کی طاقت کا مقابلہ نہیں بلکہ یہ نفسیات اور اعصاب کی جنگ ہے۔ یہ بتانا ہوگا کہ کون صحیح ہے اور کون غلط؟ کیونکہ اب تک نہ کسی نے کسی کا پیچھا کیا ہے نہ کسی نے ہوائی فائرنگ کی نہ کوئی کسی کے گھر پرگیا اور نہ ہی کسی کو دھمکایا گیا۔ دونوں جانب سے اچھے طرز عمل کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ کراچی میں دلائل کی لڑائی بھی ہو رہی ہے اور شہر قائد ''شانت‘‘بھی ہے۔ ایم کیو ایم نے مخالفین کے الزامات کا جواب نہ دینے کی حکمت عملی اپنائی ہے جس پر تبصرہ کرنا فوری طور پر آسان نہیں کیونکہ ایک طرف مخالفین کیل کانٹے سے لیس ہو کرحملہ کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف ''نرگسیت‘‘ کا مظاہرہ ہو رہا ہے۔مصطفی کمال نے قائد ایم کیو ایم کی کیٹیگری ''بھائی‘‘ سے ''صاحب ‘‘ میں تبدیل کردی لیکن ڈاکٹر فاروق ستار کو وہ اب بھی ''بھائی‘‘ کہہ رہے ہیں، ان پر کوئی الزام نہیں لگایا، کوئی تنقید نہیں کی۔ مصطفی کمال میڈیا کوبھی چکمہ دینے میں کامیاب رہے، ان کی دوسری پریس کانفرنس سے قبل ذرائع کے حوالے سے مختلف چینلز پر قیاس آرائیاں کی گئیں۔ ایک چینل نے تو حماد صدیقی کی واپسی اور'' نامعلوم پارٹی‘‘ میں شمولیت کی خبر بھی بریک کردی۔ ایک اور چینل رضا ہارون کی خبریں نشر کرتا رہا، لیکن سکرین پر ڈاکٹر صغیر ''سرپرائز پیکج‘‘ کے طور پر نمودار ہوئے اور میڈیا کی ''بریکنگ نیوز‘‘ بری طرح ''بریک ہو گئیں، یعنی مصطفی کمال نے خبر کہیں سے''لیک ‘‘ ہونے نہیں دی۔
کراچی کے سیاسی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو یہ نظر آتا ہے کہ ایم کیو ایم کی جڑیںکراچی میں میلوں تک پھیلی ہوئی ہیں، لیکن اگر تاریخ میں دیکھا جائے تو بعض مرحلوں پر جنگیں فوجی طاقت پر تیر وکمان سے نہیں حکمت علمی سے جیتی گئی ہیں۔ اگر طارق بن زیاد اسپین پر حملے کے موقع پر اپنی کشتیوں کو آگ نہ لگواتے تو جنگ جیتنا مشکل تھا لیکن طارق بن زیاد نے واپسی کے راستے مسدود کرکے جنگ جیتنے کے علاوہ تمام آپشن ختم کردیئے تھے۔ ایم کیو ایم کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ''3 لڑکوں‘‘ کو دندنانے کا موقع دیناہے یا مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں اترنا ہے۔ سیاست اور لڑائی میں فرار کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ یہ لڑائی گولی اور گالی کی نہیں بلکہ دلیل اور وکیل کی ہے۔ ایم کیو ایم نے کراچی میں اپنی سلطنت بنا رکھی ہے اور اتنی بڑی سلطنت کو بچانے کا دفاع بھی اتنا ہی بڑا ہونا چاہیے۔ اس وقت صورت حال ایسی نہیں کہ چھپ کر دفاع کیا جاسکے، بلکہ کھل کر مقابلہ کرنا چاہئے اور ایم کیو ایم کے پاس ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو مصطفی کمال اینڈ کمپنی کا جواب دینے کی طاقت رکھتے ہوں۔ بقول فیضؔ ؎
ہاں، جاں کے زیاں کی ہم کو بھی تشویش ہے لیکن کیا کیجئے
ہر راہ جو اْدھر کو جاتی ہے، مقتل سے گزر کر جاتی ہے
حالات بتا رہے ہیں کہ سلطنتِ ایم کیو ایم پر ایک ''پلانٹڈ حملہ‘‘ کیا جا رہا ہے اور کچھ افراد محفوظ مورچوں میں بیٹھ کر پے در پے حملوں کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ مصطفی کمال کی کوئی خوبی ہو یا نہ ہو لیکن وہ کراچی کا ہیرو ہے۔ انیس قائم خانی ایم کیو ایم کے تنظیمی امور کا ''چیف انجینئر‘‘ ہے۔ یہ دو افراد بہت اندر تک گھس کر اپنا کام دکھاسکتے ہیں۔ ایم کیو ایم کو ان سے بچائو کی فوری ترکیبیں کرنی چاہئیں، اپنے حامیوں کو ان کے الزامات کے سچ یا جھوٹ ہونے
کا بتانا چاہئے کیونکہ یہ حملہ ایم کیو ایم پر باہر سے نہیں اندر سے ہوا ہے اور گھر کا بھیدی جس ارادے سے آتا ہے وہ سب کو معلوم ہوتا ہے۔ ہوشیار! بہت سنبھل کر چلنے کی ضرورت ہے اور ایم کیو ایم جیسی تنظیم نے اس سے زیادہ خطرناک صورت حال کا مقابلہ کیا ہے۔ معاملہ صرف دانائی کا ہے، بات صرف ہمت کا مظاہرہ کرنے کی ہے۔ اگر مجھے سچ لکھنے کی اجازت ہو تو میں یہ لکھ سکتاہوں کہ مصطفی کمال کے مقابلے پر جوابی تقریر بھر پور اور طاقتور نہیں تھی۔ مجھے نہیں معلوم اس کی کیا وجہ تھی، لیکن کچھ بھی ہو اس کے نتیجے میں کچھ لوگ کنفیوژ ہو سکتے ہیں۔ ایک تاریخ دان نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ''شاہی مسجد کے پاس خالی میدان میں ایک سرخ رنگ کی اینٹ آئی تو کچھ لوگوں نے پوچھا یہ کیا ہے اور کیوں آئی ہے؟ تو مزدوروں کے انچارج نے کہا کہ یہاں قلعہ بن رہا ہے۔ سب نے قہقہہ لگایا، پھر اچانک دو کروڑ اینٹیں آگئیں اور لاہور کا یہ عالی شان قلعہ تن کر کھڑا ہوگیا جو آج تک عظمت کا مینار بنا ہوا ہے‘‘۔ اس لئے پہلی اینٹ پہلے قطرے اورپہلے پتھر سے بچو! کراچی میں ایم کیو ایم کے زوال اور تباہی کا دن رات وظیفہ پڑھنے والی دو جماعتیں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف مصطفی کمال کی نموداری سے بہت پریشان ہیں اور اسے اچھی نگاہ سے نہیں دیکھ رہے۔ انہیں محسوس ہو رہا ہے کہ مال غنیمت (ووٹ بینک) سے انہیں کچھ نہیں ملے گا۔ ان دونوں جماعتوں کا صرف ایک ہی المیہ ہے کہ وہ ایم کیو ایم کو کفر سمجھتے ہیں اور اسے مٹانے کے درپے ہیں، لیکن وہ مصطفی کمال کا بھی ساتھ نہیں دے سکتے کیونکہ مصطفی کمال کا ساتھ دینے کا مطلب ''سیاسی خودکشی‘‘ کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
آخر میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ قائد ایم کیوایم کی ایک کرشماتی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے 25 سال سے لندن میں بیٹھ کر اپنی پارٹی چلائی، اس پر کنٹرول برقرا رکھا اور مطلوبہ مقاصد حاصل کرتے رہے۔ ان کی لیڈر شپ مثالی اور وہ کراچی کے بے تاج بادشاہ ہیں، ان پر کئی چھوٹے بڑے حملے بھی ہوئے لیکن اب بھی ان کی گرفت اتنی کمزور نہیں ہوئی کہ کوئی ان سے کراچی کو بآسانی چھین سکے، لیکن انہیں مقابلے کے میدان میں رہنا پڑے گا۔ سوال و جواب کی محفل سجتی ہے تو حملہ آوروں کا کھیل کامیاب ہوتا ہے۔ ایم کیو ایم کی نائو بیچ سمندر میں بغیر خوراک اور پانی کے بھٹک رہی ہے۔ پینے کے لئے بھی سمندری کڑوا پانی ہی میسر ہے۔ حالت یہ ہوگئی ہے ؎
پیتا ہوں تو مر جاتا ہوں
نہیں پیتا تو بھی مر جاتا ہوں