اٹلی اور فرانس کی سرحد پر ایک چھوٹا سا ملک مناکو تھا۔ اِس ملک کا بادشاہ بھی تھا اور فوج بھی، وزیر بھی تھے اور مشیر بھی، تمام اخراجات وہاں قائم صرف جُوا خانوں پر ٹیکس وصول کرکے پورے کئے جاتے تھے۔ اٹلی اور فرانس میں جوئے پر پابندی کے باعث وہاں کے شہری جوا کھیلنے مناکو جاتے تھے۔ مناکو کی معیشت کا تمام دار و مدار انہی کی ادا کردہ ٹیکس کی رقم پر تھا۔ وہاں کسی قسم کے لڑائی جھگڑے نہیں تھے، اس لئے صرف ایک پولیس اسٹیشن مع لاک اپ بنایا گیا تھا۔ معمولات زندگی رواں دواں تھے کہ اچانک ایک دن دو افراد میں جھگڑا ہوا اور ایک قتل ہوگیا۔ معاملہ بادشا ہ تک پہنچا تو وہ غصے میں آگ بگولا ہوگیا اور فوری طور پر سر قلم کرنے کا حکم جاری کیا۔
حکم کی تعمیل میں ایک رکاوٹ آگئی کہ مناکو حکومت کے پاس سر قلم کرنے والی مشین اور تجربہ کار جلاد نہیں تھا۔ پہلے اٹلی کی حکومت سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس کام کا معاوضہ بیس ہزار فرانک طلب کیا۔ رقم بڑی تھی، وزراء نے سرجوڑ لئے، حساب کتاب لگایا تو یہ ان کی حکومت کے ایک سال کا کل خرچہ تھا۔ فرانس سے رابطہ ہوا تو انہوں نے بھی پندرہ ہزار فرانک مانگے لیکن اتنی ادائیگی کا مطلب مناکو کو دیوالیہ کرنا تھا۔ ایک چالاک وزیر نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ مجرم کی سزا عمر قید میں تبدیل کردیں، اس سے آپ کی رحم دلی بھی ثابت ہوگی اور خرچہ بھی بچے گا۔ ایسا ہی ہوا لیکن مناکو حکومت کے پاس کوئی جیل نہیں تھی۔ دستیاب لاک اپ کے باہر ہی ایک پولیس اہلکار تعینات کردیا گیا، وہی اس قاتل کو کھانا پہنچاتا اور حفاظت بھی کرتا۔ ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے کہ وزراء نے پھر حساب لگایا کہ قیدی کی صحت روز بروز اچھی ہوتی جا رہی ہے اور ابھی یہ بیس سے پچیس سال مزید زندہ رہ سکتا ہے اور اس پر خرچہ جاری رہے گا۔ سکیورٹی پر تعینات پولیس اہلکار ہٹا لیاگیا۔ اب وہ قیدی خود کھانا لینے جاتا اور پھرلاک اپ میں آجاتا۔ بادشاہ کو بتایا گیا کہ قیدی کو موقع بھی دیا گیا ہے لیکن وہ فرار نہیں ہو رہا۔ بادشاہ نے قیدی کو بلایا اور دوہزار فرانک دے کر رہا کردیا کہ وہ کہیں دور چلا جائے اورکوئی کاروبار کرلے۔
یہ قصہ نیدرلینڈ کی جیلوں کی ایک خبر پڑھ کر یاد آیا۔ یورپی ملک نیدر لینڈ میں 2013 ء میں 19جیلوں کو اس لیے بند کیا گیا کہ ملک میں اتنے مجرم ہی نہیں تھے جن سے انہیں بھرا جاسکتا۔ اب موسم گرما کے اختتام تک مزید پانچ جیلوں کو اسی وجہ سے بند کیا جا رہا ہے۔ ڈچ روزنامے ٹیلیگراف کی ایک رپورٹ کے مطابق جیلوں کو بند کرنے کا رجحان 2004ء کے بعد سے جرائم کی شرح میں نمایاں کمی کے بعد سامنے آیا۔ جیلوں میں خالی کمروں کا مسئلہ گزشتہ سال ستمبر میں اتنا بڑا ہوگیا کہ نیدر لینڈ کو ناروے سے 240 قیدی درآمد کرنا پڑے تاکہ یہ جگہیں کچھ تو بھر سکیں۔ نیدرلینڈکے وزیر انصاف آر ڈوینڈر اسٹیوار نے پارلیمنٹ میں اعلان کیا تھا کہ خالی جیلوں کی دیکھ بھال کے اخراجات اس چھوٹے ملک کے لیے بھاری ثابت ہو رہے ہیں۔ نیدر لینڈ نے جرائم پر قابو پانے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں، جن میں سزا کے مقابلے میں ملزمان کی شخصیت میں تبدیلی لانے پر توجہ اور پیروں میں الیکٹرانک مانیٹرنگ سسٹم کی تنصیب بھی ہے جس سے جرائم کی شرح میں 50 فیصد تک کمی آئی اور نیدرلینڈ میں سزا پانے والے مجرموں کو جیلوں میں وقت ضائع کرنے کی بجائے معاشرے کو بہتر بنانے کا موقع دیا جاتا ہے۔ نیدرلینڈ کی آبادی ایک کروڑ 70 لاکھ ہے اور وہاں صرف 11 ہزار سے زائد افراد ہی جیلوں میں قید ہیں۔ یہ شرح ایک لاکھ میں 69 قیدی بنتی ہے۔ اس کے مقابلے میں امریکہ میں یہ شرح ایک لاکھ پر 716 ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔
نیلسن مینڈیلا نے کہا تھا کہ ''ہمارے ملک میںلیڈر پہلے جیل جاتے ہیں اور پھر صدر بن جاتے ہیں‘‘۔ پاکستان کی صورت حال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں، یہاں بھی جیل جانے والے صدر مملکت بن چکے ہیں، لیکن نہ ملک کے حالات بدلے اور نہ جیلوں کے حالات میں تبدیلی آئی۔ سندھ کی جیلوں کی بات کریں تویہاں جرائم اور کرپشن جتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے جیلیں کم پڑتی جا رہی ہیں۔ اب تو جیلوں میں توسیع اور نئی جیلوں کے قیام کا مطالبہ بھی بڑھ رہا ہے ۔ کراچی آپریشن کی کامیابی کا ایک ثبوت سندھ حکومت کا وفاق سے یہ مطالبہ ہے کہ سندھ میں چھ نئی جیلوں کی تعمیر کے لئے فنڈز دیے جائیں۔ وفاق سے فنڈز مانگنا اوربلدیات کے فنڈز روکنا سندھ حکومت کی پرانی عادت ہے۔ سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ سندھ کی جیلوں میں قیدیوں کا دبائو بڑھ رہا ہے، اس لئے سندھ کے چھ ڈویژنوں میں موجود جیلوں کی توسیع کے لئے فنڈز دیے جائیں۔ اس وقت سندھ کی 25 چھوٹی بڑی جیلوں میں 20ہزار پچانوے قیدیوں کو ٹھونسا گیا ہے جبکہ ان جیلوں میں صرف 12ہزار 245 قیدیوں کی گنجائش ہے۔ سندھ حکومت کی جانب سے وفاق سے نئی جیلوں کی تعمیر اور توسیع کے لئے فنڈز کا مطالبہ انوکھا نہیں ہے۔ کراچی میں ہر صوبے کے جرائم پیشہ افراد دندناتے پھر رہے ہیں اور انہوں نے کچی آبادیوں میں اپنی کمین گاہیں بنا رکھی ہیں۔ وہ اکثر انہی کچی آبادیوں میں گم ہوجاتے ہیں اور پھر آسانی سے پکڑ میں نہیں آتے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں میں فنڈز کی جو ریل پیل ہوئی ہے اس کے بعد وفاق کا دروازہ کھٹکھٹانا اور وفاقی وسائل سے جیلیں وسیع کرنا کوئی منفرد بات نہیں۔ سندھ حکومت کا حق بنتا ہے کہ وہ جیلوں کی توسیع کے لئے وفاق سے فنڈز مانگے، بلکہ اگر قانون اور آئین اجازت دے توآئی ایم ایف سے بھی مالی مدد لے کرنئی جیلیں بنائی سکتی ہیں۔ سندھ حکومت نیدر لینڈ کی حکومت سے بات کرکے وہاں کی خالی جیلیں بھی کرائے پر لے سکتی ہے۔ حال ہی میں ناروے کی جیلوں کو دنیا کی نمبر ون جیلیں قرار دیا گیا ہے۔ وہاں کے قیدی جیل سے باہر آنے کو تیار نہیں ہوتے۔ ہماری جیلوں میں بھی ایسا ہوچکا ہے جب معروف سماجی رہنما عبدالستار ایدھی نے صدقے کے بکرے جیلوں میں بھجوائے تو مٹن کھانے والے قیدی آپس میں لڑ جھگڑ کر اپنا ریکارڈ خراب کرنے لگے تاکہ سزا میں کمی کا آپشن ختم ہوجائے۔ یہاں تو مڈل کلاس طبقہ بھی بکرے کا گوشت نہیں کھا سکتا، جیل میں ایسی نعمت کون ٹھکرائے گا۔
کراچی کی سنٹرل جیل کبھی شہر سے باہر تھی، شہر ایسا پھیلا کہ جیل کو چھوتا ہوا بہت آگے تک نکل گیا۔ اب یہ جیل شہر کے لئے ایک دھبہ بن گئی ہے اور اسے ایک بار پھر شہر سے باہر نکالا جانا ناگزیر ہو چکا ہے۔ اس کے اطراف کے علاقے بھی جیل بنتے جا رہے ہیں کیونکہ جب سے موبائل جیمرز لگائے گئے ہیں، ان کی وجہ سے حیدرآباد کالونی‘ غوثیہ کالونی اور نیوٹائون سمیت اطراف کے علاقے'' غیر اعلانیہ جیل‘‘ میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ کئی اہل نظر کا یہ کہنا ہے کہ سنٹرل جیل کو مسمار کرکے یہاں میوزیم یا تھیم پارک بنادیا جائے، لیکن چونکہ مطالبہ کرنے والوں نے پلاٹ بناکربیچنے کی تجویز نہیں دی اس لئے عوامی مفاد کے اس مطالبے پر کسی نے توجہ دینا بھی گوارا نہیں سمجھا۔
سندھ کی جیلوں کو پاکستان میں بہت تاریخی اہمیت حاصل ہے۔ ان جیلوں میں سابق صدر آصف زرداری ‘ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اورموجودہ وزیر اعظم میاں نوازشریف بھی رہ چکے ہیں۔ تحریک پاکستان کے دنوں میں بھی سندھ کی جیلوں میں ''شمع آزادی‘‘ کے پروانوں نے قیام فرمایا۔ سندھ کی جیلیں عالمی معیارکی نہیں ہیں لیکن ان جیلوں نے اپنا بھرپورکردار ادا کیا ہے، اس لئے وفاق کی ذمہ داری ہے کہ وہ سندھ میں جیلوں کا جال بچھانے کے لئے اپنا بھرپورکردار بھی ادا کرے۔
ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں انگریزوں کے دور کی جیل کو توڑنے کا حکومتی فیصلہ ہوا۔ ابھی ایک آدھ دیوار ہی گرائی گئی تھی کہ اخبارات میدان میں آگئے اور کہا کہ ''اس تاریخی عمارت کو کوئی نہیں گرا سکتا، یہ ہمارا قومی اثاثہ ہے‘‘ چونکہ کوالالمپورکے اخبارات ٹینڈر نوٹس کے سامنے''سجدہ ریز‘‘ نہیں ہوتے اس لئے حکومت سے اپنی بات منوانے میں کامیاب ہوگئے اور آج اس جیل کو میوزیم کا درجہ دے کرسیاحوں کے لئے وقف کردیا گیا ہے۔