"ISC" (space) message & send to 7575

’’پانامہ لیکس‘‘ اور ہمارے حکمران۔۔۔۔!

ایک سیاح کسی ملک کے ہوٹل میں گیا،کائونٹر پر 100 ڈالر کا نوٹ بطور ایڈوانس رکھا اور کمرہ پسند آنے کی صورت میں بکنگ کا کہہ کر کمرہ دیکھنے چلا گیا۔ اتنی دیر میں اس ہوٹل کو گوشت سپلائی کرنے والا قصائی آیا اور اپنے قرضے کے عوض وہی 100 ڈالر کا نوٹ اٹھا کر چلاگیا۔ قصائی اپنے جانوروں کا علاج کرنے والے ڈاکٹر کا مقروض تھا، اس نے وہ نوٹ اس ڈاکٹر کو دے دیا۔ ڈاکٹر کے بیشتر مہمان اسی ہوٹل میں قیام کرتے تھے اور وہ ہوٹل کا مقروض تھا، اس نے وہ نوٹ ہوٹل بھجوادیا اور ایک بار پھر اس کائونٹر پر وہی 100 ڈالر کا نوٹ پڑا تھا۔
سیاح واپس کائونٹر پرآیا اور کمرہ پسند نہ آنے کا کہہ کر اپنا100 ڈالرکا نوٹ اٹھا کر چلا گیا۔ اس پورے عمل سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا لیکن کئی لوگوں کا قرضہ ضرور اترگیا۔ یہ قصہ سوشل میڈیا پربہت مشہور ہے اوراس سے ایک بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر سرمایہ ملک میں آئے گا تو قرضے ضرور اتریں گے، لیکن اگر سرمایہ باہر جائے گا تو قرضے بڑھنے پر تعجب بالکل نہیں ہونی چاہیے۔ جب ملک کے حکمران اپنا سرمایہ باہر لگائیں گے تو باہر سے کون پاکستان آئے گا۔ اس طرح ملک کو ''ایشین ٹائیگر‘‘ تو دور'' ایشین بلی‘‘ بھی نہیں بنایا جاسکتا۔
وکی لیکس اور سوئس لیکس کے بعد ''پانامہ لیکس‘‘ نے دنیا بھر کے سربراہان مملکت اور دیگر سیاستدانوں کے 60 قریبی رشتہ دار اور رفقا کے نام ''لیک‘‘کرکے تہلکہ مچادیا ہے۔ روسی صدر پیوٹن کے قریبی رفقا، چینی صدر کے بہنوئی، یوکرین کے صدر، ارجنٹائن کے صدر، برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے آنجہانی والد اور وزیر اعظم پاکستان کے چار میں سے تین بچوں کا ان دستاویزات میں ذکرموجود ہے۔ آئس لینڈ، برطانیہ سمیت غیر ملکی سربراہ، شہنشاہ، امیتابھ‘ ایشوریہ خاندان اور جیکی چن بھی کمپنیوں کے مالک نکلے۔ ایسے لوگ کالے دھن کو سفید کرنے کے لئے ایسی کمپنیوں کا سہارا لیتے ہیں۔ ان کمپنیوں کی تعداد دو لاکھ چودہ ہزار کے قریب ہے۔ تہلکہ خیز انکشافات کے بعد کئی ممالک میں تحقیقات شروع ہوگئی ہیں جبکہ بعض ممالک کی سیاسی جماعتیں بحث اور الزام تراشی میں مصروف ہیں۔ ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات جرمن اخبار ''سودیوچے زیتنگ‘‘ نے حاصل کیں جس نے انہیں تحقیقاتی صحافیوں کے بین الاقوامی کنسورشیم آئی سی آئی جے کے ساتھ شیئرکیا۔ یہ کنسورشیم 76 ملکوں کے 109 میڈیا آرگنائزیشنز کے صحافیوں پر مشتمل ہے۔ اس میں برطانوی اخبار ''گارجین‘‘ بھی شامل ہے اور ان دستاویزات کا تجزیہ کرنے میں ایک سال سے زیادہ لگاہے، یہ عجلت میں جاری کی گئی کوئی دستاویزات نہیں ہیں۔ بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ''یہ تاریخ کی سب سے بڑی لیکس ہیں جس کے مقابلے میں وکی لیکس بھی چھوٹی ہیں۔ پانامہ لیکس میں دو لاکھ 14 ہزار افراد، کمپنیوں، ٹرسٹ اور فاؤنڈیشن کی تفصیلات ہیں‘‘۔ پانامہ لیکس میں اب تک 200 پاکستانیوں کی نشاندہی کی جاچکی ہے اور یہ گنتی ابھی جاری ہے، مزید کتنے پاکستانی کتنی لاء فرمز کا استعمال کرکے غیر ملکی کمپنیوں کی ملکیت اپنے پاس رکھتے ہیں اس کا اندازہ نہیں؛ حالانکہ اب تک محض ایک ہی کمپنی کا ریکارڈ دستیاب ہوا ہے۔ ان دستاویزات میں 1977ء سے لے کر دسمبر 2015ء تک کی معلومات موجود ہیں۔ ان دستاویزات کا بڑا حصہ ای میلز پر مشتمل ہے، لیکن معاہدوں اور پاسپورٹس کی تصاویر بھی شامل ہیں۔ 
ٹیکس سے بچنے کے کئی قانونی طریقے ہیں لیکن اس وقت دنیا بھر میںزیادہ تر دولت کے حقیقی مالک کی شناخت چھپانا، دولت حاصل کرنے کے ذرائع کو خفیہ رکھنا اور اس دولت پر ٹیکس نہ دینے جیسے اقدامات کرنا عام ہے۔ آف شور کمپنیاں ظاہری طور پر تو قانونی ہیں لیکن اندر سے کھوکھلی ہوتی ہیں اور دولت کے مالک کی شناخت کو چھپاتی ہیں۔
پانامہ لیکس کے اثرات پاکستان پر بھی پڑرہے ہیں۔ عوام کا پیسہ چوری کرکے باہر لے جانے والوں کے ثبوت اب آہستہ آہستہ سامنے آرہے ہیں۔کالے دھن کی بات ہو اور پاکستانی سیاست دانوں کا ذکر نہ ہو، ایسا ممکن ہی نہیں۔ پانامہ لیکس نے جہاں دنیا بھرکے سیاستدنواں کا کچھا چٹھا کھول کر سامنے رکھا، وہیں پاکستانی سیاست کے بڑے بڑے ناموں کی ہنڈیا بھی بیچ چوراہے پھوٹ گئی۔کیا نواز! کیا بھٹو! بڑے سیاسی مہرے کالے دھن کی ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔
خفیہ دستاویزات منظر عام پر آنے کے بعد بھٹو اور شریف خاندان سمیت کئی معززین کے ناموں کی دھجیاں اڑ گئیں۔کالے دھن اور ٹیکس چوری میں صنعت کار، ججز، بینکر بھی شامل ہیں جبکہ پڑوسی ملک بھارت کے بگ بی امیتابھ، حسن کی دیوی ایشوریا اور کے پی سنگھ کی شہرت اور عزت بھی داغ دار ہوگئی ہے۔
بعض حکومتی شخصیات کا کہنا ہے کہ لندن کا مقدمہ لندن میں چلے گا۔ ان سے ایک مؤدبانہ سوال ہے کہ ایک امریکی اخبار کی خبر پر ایگزیکٹ نامی کمپنی کا نام ونشان ختم کرنے کیلئے ایف آئی اے نے سر دھڑکی بازی کیوں لگائی؟ عمران فاروق کا قتل لندن میں ہوا لیکن ایف آئی آر پاکستان میں کیوں درج ہوئی ؟ یہ سب کچھ ہمارے ملک میں قانون کی کمزوری کو ظاہرکرتا ہے۔ یہاں بکری چوری پر تو سزا ہے لیکن عوام کے پیسے کی ہاتھی نما چوری پرکوئی موثر قانون موجود نہیں۔ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی صاحب آرٹیکل 6کو تو آئین سے نکالنے کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن تمام خرابیوں کی جڑ اور ان کی اپنی تیار کردہ اٹھارویں ترمیم پر کوئی بات کیوں نہیں کی جاتی۔ پاکستان میں پہلے ہی ''لوٹ مار‘‘ کم تھی جو اٹھارویں ترمیم کے نا م پر ''لائسنس ٹو لُوٹ‘‘ دے دیا گیا ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان میں ایسی قانون سازی کی جائے کہ سرکاری وسائل کے غلط استعمال اور لوٹ مار کا ''چانس‘‘ ہی ختم ہو جائے۔ سیاستدان رقوم کے لئے نہیں قوم کے لئے سوچیں۔ قوم کمیشن اور کک بیکس کے بارے میں سوچنے سے نہیں حکمرانوں کی پلاننگ اور پالیسیوں سے بنتی ہے۔ ہمارے یہاں اکثر ''پاورفل شخصیات‘‘ لوٹ مار کی ''کیٹ واک‘‘ میں اپنے'' جلوے‘‘ دکھانے کے لئے بے چین رہتی ہیں۔ مہاتیر محمد نے ملائیشیا کو کن بلندیوں پر پہنچا دیا۔ 
لی کوآن یو نے جب اقتدار سنبھالا تو سنگاپور میں ایک میل لمبی سڑک بھی پکی نہیں تھی، لیکن جب اقتدارچھوڑا توسنگاپور میں ایک فٹ کچی سڑک نہیں تھی۔ لی کوآن یو کی پالیسیوں کے نتیجے میں 18سال کا ہر نوجوان لڑکا یا لڑکی حکومت سے اپنی پسند کا روزگار اور گھر حاصل کرنے کا حقدار تھا، آج بھی سنگاپور میں بچے کی پیدائش کا الائونس دیا جاتا ہے۔ ان حکمرانوں نے اپنی منصوبہ بندی سے عوام کی قسمت بدلی کیونکہ انہوں نے کبھی اپنی قسمت بدلنے کا نہیں سوچا۔ اگر وہ اپنی قسمت بدلنے کا سوچتے تو وہاں کے عوام آج پاکستانی عوام جیسی زندگی گذار رہے ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں حکمرانوں کا ذکر آتے ہی وہاں کے عوام کی آنکھیں آج بھی نم ہوجاتی ہیں۔ حکمرانی خدا کا عطیہ ہے اور اسے ذاتی مفاد کے لئے استعمال کرنے والے اکثر حکمرانوں کی قبروں کے قریب سے بھی کوئی نہیں گزرتا۔
پاکستانی حکمرانوں اور سرکاری افسران کو قانون کے ذریعے پابند کیا جائے کہ وہ اقتدار میں آنے سے قبل جو سیاسی حلف اٹھاتے ہیں اس میں یہ جملہ بھی شامل ہو کہ ''نہ میں خود کوئی مالی کرپشن کروں گا نہ میرے بچے اوررشتہ دارایسا کریں گے اور نہ ہی میں کسی کرپٹ شخص کی کوئی مدد کروں گا‘‘۔ جس طرح سرکاری ملازم پر یہ پابندی ہوتی ہے کہ وہ ریٹائرمنٹ کے دو سال تک الیکشن نہیں لڑسکتا اسی طرح حکمرانوں پر بھی یہ پابندی ہونی چاہیے کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد کوئی کاروبار نہیں کریں گے۔ بھارت کا کوئی سابق وزیر اعظم یا صدر کسی بیرونی ملک میں رہائش پذیر نہیں ہے، ہمارے اکثر حکمران رہتے بیرون ملک ہیں اور حکومت کرنے پاکستان آتے ہیں۔۔۔۔ ملک کو ایسے ''گردشی حکمرانوں‘‘سے نجات دلانا ہوگی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں