"ISC" (space) message & send to 7575

1973ء کابچا کچھا آئین!

آئین یا دستور کسی حکومت کے لئے قوانین اور اْصولوں کا ایسا مجموعہ ہوتا ہے جو ایک سیاسی وجود کے اختیارات اور کارکردگی کو محدود اور متعین کرتاہے۔ بھارتی دستور کسی ملک کا لکھا ہوا سب سے بڑا آئین ہے، جس کے انگریزی ترجمے میں ایک لاکھ سترہ ہزارتین سو چھیانوے الفاظ ہیں جبکہ امریکی دستور دنیا کے کسی ملک کا سب سے چھوٹا دستور ہے، جس میںچار ہزار پانچ سو تینتالیس الفاظ ہیں۔ برطانیہ کا آئین لکھا ہوا ہی نہیں ہے، وہ صرف روایتوں پر چلتا ہے اسے ''اَن رِٹن کانسٹی ٹیوشن‘‘ کہا جاتا ہے۔
آئین پاکستان کواسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین مجریہ 1973ء کہاجاتا ہے۔ مارشل لاء ہٹائے جانے کے بعد نئی حکومت کے لئے سب سے زیادہ اہم کام نئے آئین کا مسودہ تیار کرنا تھا۔ اس دور میں قائم کمیٹی کے اندر ایک اختلاف یہ تھا کہ ملک میں پارلیمانی نظام ہونا چاہیے یا صدارتی؟ صوبائی خود مختاری کے معاملے پر بھی مختلف خیالات تھے۔ آئینی کمیٹی کو رپورٹ تیار کرنے میں آٹھ ماہ لگ گئے اور بالآخر 10 اپریل 1973ء کو اس نے آئین کے متعلق اپنی رپورٹ پیش کی۔ وفاقی اسمبلی میں اکثریت یعنی 135 مثبت ووٹوں کے ساتھ اسے منظور کر لیا گیا اور 14 اگست 1973ء کو یہ آئین پاکستان میں نافذ کر دیا گیا۔ابھی آئین پاکستان کو نافذ ہوئے ایک سال بھی نہ گزرا تھا کہ 4 مئی 1974ء کو پہلی ترمیم کی گئی جس میں پاکستان کی سرحدوں کا ازسر نو تعین کیا گیا۔ دوسری ترمیم 7ستمبر 1974ء، تیسری 18 فروری 1975ء،چوتھی21 نومبر1975ء، پانچویں 5ستمبر1976،چھٹی 22 دسمبر 1976ء اور ساتویں ترمیم 1977ء میں کی گئی۔ پھرمشہور زمانہ آٹھویں ترمیم 1985ء میں نافذ العمل ہوئی جس کی رُو سے حکومتِ پاکستان پارلیمانی طرزِ حکومت سے جزوی صدارتی طرزِ حکومت میں تبدیل ہو گئی اور صدر پاکستان کو بھرپور آئینی قوت اورکئی اضافی اختیارات میسر آگئے۔ یہ اختیارات ذیلی حصہ 2 (ب) کے آرٹیکل 58 میں شامل ہوئے جس کے تحت صدر پاکستان کو یہ اختیار بھی مل گیا کہ وہ پاکستان کی قومی اسمبلی کو تحلیل‘ وزیر اعظم اور کابینہ کو فارغ کر سکتے تھے۔ آٹھویں ترمیم دراصل غیر جماعتی بنیادوں پر منتخَب پارلیمان اور اس وقت کے صدر جنرل ضیاء الحق(مرحوم) کے مابین ایک ''ڈیل‘‘ تھی۔
نویں ‘دسویں ‘گیارہویں اور بارہویں ترمیم کے بعد جب سیاستدانوں کا ''وار‘‘ چلا تو تیرھویں ترمیم لائی گئی۔ 1997ء میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت نے آرٹیکل اٹھاون 2 ب (58-2 B) میں یہ ترمیم منظور کی اور صدر پاکستان کے اختیارات برائے تحلیلِ قومی اسمبلی ختم کر دیئے گئے۔ اس ترمیم کے چند ہی ماہ بعد چودہویں ترمیم منظور کی گئی جس کی رُو سے ارکان قومی اسمبلی کو سختی سے اس بات کا پابند بنا دیا گیا کہ وہ اپنی متعلقہ سیاسی جماعت کے کسی بھی فیصلے سے انکار نہیں کر سکتے اور اگر وہ ایسا کرتے پائے گئے تو انھیں تادیبی کارروائی، جس میں رکنیت کی معطلی شامل تھی کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔ اس ترمیم نے وزیر اعظم کے عہدے پر موجود تمام احتسابی نکات کا خاتمہ کر دیا۔ اس ترمیم کو عرف عام میں ''امیر المومنین ترمیم‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اسی ترمیم کے بعد نواز حکومت عوام میں انتہائی غیر مقبول ہونا شروع ہو گئی حالانکہ ان کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (نواز) نے دو تہائی اکثریت سے انتخابات جیتے تھے۔ یہ خیال کیا جانے لگا کہ ملک میں'' سول آمریت کا راج‘‘ ہے۔پندرھویں اور سولھویں ترمیم کے بعد ایک بار پھر سترھویں ترمیم نے معاملات کو ''بیلنس‘‘ کیا۔ سترھویں ترمیم دسمبر 2003ء میں کی گئی جو تقریباً ایک سال تک اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان بحث مباحثے اور کئی مواقع پر تلخیوں کے بعد منظور کی گئی تھی۔ تیرھویں ترمیم میں کی گئی تقریباً تمام ترامیم واپس لے لی گئیں۔
اب تک کی سب سے زیادہ متنازعہ ترمیم اٹھارھویں ترمیم کہلائی جا رہی ہے۔ 8 اپریل 2010ء کو قومی اسمبلی نے اسے منظور کیا۔ اٹھارھویں ترمیم نے صدر کے پاس موجود تمام ایگزیکٹو اختیارات پارلیمان کو دے دیئے۔ قائد ایوان ہونے کی وجہ سے زیادہ اختیارات وزیراعظم کے حصے میں آگئے جبکہ وفاق سے زیادہ تر اختیارات لے کر صوبوں کو دے دیئے گئے۔
آئین پاکستان میں اتنی ترامیم کے بعد بھی اسے1973ء کا آئین کہا جاتا ہے؛ حالانکہ اٹھارھویں ترمیم کے بعد اب یہ آئین آہستہ آہستہ مارشل لاء کی بھونڈی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے جس پر حبیب جالب کی یاد آنا فطری ہے: ؎
دِیپ جِس کا محلّات میں ہی جلے
چند لوگوں کی خْوشیوں کو لے کر چلے
ایسے دستور کو، صبحِ بے نْور کو
مَیں نہیں مانتا مَیں نہیں جانتا
چند روز قبل ''یوم دستور‘‘منایا گیا۔ قائم مقام صدر اورچیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے کراچی میںمنعقدہ تقریب سے دھواں دار خطاب کیا جس میں انہوں نے آرٹیکل 6 کو آئین سے نکالنے کا مطالبہ بھی کیا۔ ان کا کہنا تھاکہ '' آئین کا آرٹیکل 6 آئین اور جمہوریت کے دفاع میں ناکام رہا، اس کو آئین سے حذف کر دینا چاہئے‘‘۔ لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ آرٹیکل 62 اور 63 پر کون سا عمل ہو رہا ہے اورکون سی جمہوریت بچائی جارہی ہے؟ پارلیمنٹ میں بیٹھے کتنے ارکان ان آرٹیکلز پر پورے اترتے ہیں۔ پارلیمنٹ لاجز سے تو شراب کی بوتلیں بھی برآمد ہوتی ہیں، عوام کا پیسہ لوٹ کر باہر بھیجا جاتا ہے، من پسند ٹھیکیداروں کو ٹینڈر دے کر کِک بیکس لئے جاتے ہیں، غریب پاکستانیوں کا لوٹا ہوا پیسہ سوئس بینکوں میں سڑتا رہتا ہے، سفارشی کلچر پروان چڑھتا ہے، احتساب کا نظام ''فیل‘‘نظر آتا ہے، مفت تعلیم کے نام پر اساتذہ مفت کی تنخواہیں ہڑپ کرتے ہیں، سرکاری اسپتالوں میں مریض ایڑیاں رگڑتے ہیں، ٹرینیں چھت تک بھری ہوتی ہیں، ہوائی جہازوں میں سفرکے لئے ٹکٹ تک نہیں ملتا، لیکن قومی خزانہ ہے کہ بھرنے کا نام ہی نہیں لیتا۔
آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ہمیں اپنا بہترین کلائنٹ قرار دیتے ہیں کیونکہ ہم نے اپنے تما م اثاثے ان کے پاس گروی جو رکھے ہوئے ہیں۔ ہم اپنے عوام کے منہ کا نوالہ چھین کراُن کو سود اور قسطیں اداکررہے ہیں۔ ہمارے موجودہ بچے تو دُور، پیدا ہونے والے بھی مقروض ہیں۔ ہمارا آئین تو اب تک پینے کا صاف پانی اور غریبوں کو سستا انصاف نہیں دے سکا، لیکن ہم چاہتے ہیں کہ آرٹیکل 6کو نکالا جائے۔
پاکستان میں حالیہ ''پانامہ بحران‘‘کی بھی تمام تر ذمہ داری اٹھارھویں ترمیم پر عائد ہوتی ہے۔ اٹھارھویں ترمیم وہ ناگ ہے جو اس ملک کی اخلاقی اقدار کو نگل رہا ہے۔ پاکستان کا موجودہ آئین عوام کو تحفظ دینے کی بجائے حکمرانوں اور ارکان پارلیمنٹ کو تحفظ دے رہا ہے۔ کوئی بھی حکمران چاہے ''آن ڈیوٹی‘‘ ہو یا ''آف ڈیوٹی‘‘، موجودہ ارکان اسمبلی ہوں یا سابقہ، پاکستان کے احتساب کے ادارے نہ انہیں گرفتار کرسکتے ہیں نہ ہی تفتیش کرسکتے ہیں۔ یہ کام اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کردیا گیا ہے اور چونکہ پارلیمانی کمیٹی حکمران جماعت اور اپوزیشن جماعتوں کے نصف ‘ نصف ارکان پر مشتمل ہوگی، یہ نہ کسی کو سزا دے گی اور نہ ہی کسی کو مجرم ٹھہرائے گی۔ ایک ''پیٹی بھائی‘‘ دوسرے''پیٹی بھائی ‘‘ کی حفاظت کرتا ہے، تحفظ دیتا ہے اور اس طرح قوم کو یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ حکمرانوں کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ سب کچھ اسی طرح چلتا رہا ہے اور چلتا رہے گا۔ موجودہ حکمران بھی اپنے پانچ سال پورے کریں گے۔ نیب‘ ایف آئی اے‘ عدالتیں اوراینٹی کرپشن کے محکمے ہاتھ باندھے اپنی بے بسی کا تماشہ دیکھتے رہتے ہیں۔ جب اسٹیبلشمنٹ نے احتساب کا ڈنڈا گھمایا تو سیاستدانوں کی اکثریت غراہٹ کی آوازیں نکالنے لگی۔ آئین کی بعض شقوں کے وہ حوالے دیئے گئے کہ احتسابی اداروں کے بڑھتے قدم رک گئے۔ یہ اٹھارھویں ترمیم کا ''جادو‘‘ ہے۔
مسلمانوں کے خلیفہ دوئم سے مسجد نبوی ﷺ میں پوچھا گیا کہ ''آپ کا کرتا کس کپڑے سے بنایا گیا ہے، آپ کے پاس تو اتنا کپڑا نہیں تھا‘‘۔ جواب ملا ''میرے بیٹے نے اپنے حصے کا کپڑا مجھے دیا تھا اور یہ کرتا دونوں کپڑوں کو ملاکر بنایا گیا ہے، مال غنیمت میں کوئی خیانت نہیں ہوئی‘‘۔کیا پاکستان کے حکمرانوں سے کوئی پوچھ سکتا ہے کہ آپ کے دور حکومت میں جو بدعنوانیاں ہوئیں ان کا ذمہ دار کون ہے ؟ 1973ء کے آئین کا یہ کمال ہے کہ وہ عوام کے ہاتھ باندھتا ہے، منہ بند کرتا ہے اور حکمرانوں کو کھلی چھٹی دیتا ہے کہ ''لوٹو اور پھوٹو‘‘ تمہیں کوئی نہیں پکڑے گا۔
پاکستان کے اندر سیاسی فساد اس وقت تک ختم نہیں ہوگا جب تک آئین کا ''میجر آپریشن‘‘ نہ ہو۔ ضیاء الحق نے ایران کے ایک میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ''آئین کیا ہے، چار صفحات کی کتاب جسے میں جب چاہوں پھاڑ کر پھینک سکتا ہوں‘‘۔ ضیاء الحق نے تو آئین کے ساتھ کچھ نہیں کیا لیکن جمہوریت کے نام پر آنے والے''نان اسٹیک ایکٹرز‘‘ نے نہ صرف آئین کو پھاڑکر رکھ دیا بلکہ اسے ذاتی مفادات کی لونڈی بنا کر آئین پر سے عوام کا اعتماد ختم کردیا۔
عام آدمی یہ سمجھتا ہے کہ موجودہ آئین پاکستان کے اندر ایماندار اور نیک نیت حکومت کی تشکیل کے لئے کوئی بھی ''گارنٹی‘‘ نہیں دیتا۔ یہ آئین کبھی مقدس کتاب تھا جو اب صرف کتاب بن کر رہ گیا ہے۔ یوم دستور منانے سے آئین کا تقدس نہیں بڑھتا بلکہ عوام کے حقوق کا تحفظ کرنے سے آئین کے تقدیسی چشمے پھوٹتے ہیں۔ اسی لئے تو پاکستان کے تجزیہ کار‘ کالم نویس اور سیاستدان سب سے کم جس کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں وہ آئین ہے اور بہت سوں نے تو اس کتاب کا ٹائٹل تک نہیں دیکھا۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں