"ISC" (space) message & send to 7575

گرم کراچی اور ’’ٹھنڈی‘‘حکومت.... !!

کراچی اس وقت شدید گرمی کی لپیٹ میں آچکا ہے۔جون اور جولائی کے قیامت خیز مہینے دورہیں لیکن سورج نے ابھی سے ایسی ''آنکھیں ‘‘دکھانا شروع کردی ہیں۔ '' ہیٹ سٹروک‘‘بھی حملہ آور ہوگیاہے۔پانی غائب ہورہا ہے۔بجلی کا بحران سنگین ہوتا جارہا ہے۔کچرے کا ڈھیر شہر قائد اپنی بے بسی پر نوحہ کناں ہے۔
رواں ہفتے کراچی کا پارہ 38سے 40ڈگری تک پہنچ گیا جس کی شدت 44ڈگری سینٹی گریڈ محسوس کی گئی ۔محکمہ موسمیات نے پیش گوئی کی ہے کہ گرمی کی یہ لہر ابھی جاری رہے گی اس بات نے کراچی کے باسیوںکو پریشان کردیا ہے کیونکہ جہاں بلدیات کا محکمہ ہی '' خواب خرگوش‘‘ کے مزے لے رہا ہو وہاں عوام کو بھی نیند کی '' گولیاں‘‘ دے دینی چاہئیں۔کراچی طویل عرصے سے کچرے کا ڈھیر بنا ہوا ہے جس کی نشاندہی شہر کی تمام جماعتیں کرچکی ہیںلیکن یہ بھی اللہ کا شکر ہے کہ پیپلزپارٹی کی ''بڑی ‘‘خاتون رہنما فریال تالپور کی آنکھیں کھلیں اور انہیں یہ کچرا نظر آگیااور انہوں نے یہ اعتراف کیا کہ ''کراچی میں واقعی کچرا موجود ہے‘‘۔جس طرح پاناما لیکس کو قدرت کاتحفہ قرار دیا جارہا ہے اسی طرح فریال تالپور کو کچرا نظرآنا اور پانی کی کمی محسوس ہونا بھی قدرت کا ایک اورتحفہ کہا جاسکتاہے۔پاکستان کے خالق اور بابائے قوم قائداعظم بھی کراچی کے کچرے سے محفوظ نہ رہ سکے۔ان کی رہائش گاہ کے باہر کچرے کاڈھیرہٹانے کیلئے بھی الیکٹرانک میڈیا کو ''نان اسٹاپ ٹرانسمیشن‘‘چلانا پڑیں۔ہم کیسی قوم ہیں کہ ہم اس نوٹ کی تو قدر کرتے ہیں جس پر قائداعظم کی تصویرہو لیکن اس جگہ کو اہمیت ہی نہیں دیتے جو قائد اعظم کی جائے پیدائش ہے۔گورنر اوروزیراعلیٰ کی رہائش گاہیں ‘اس کے اطراف کی سڑکیں اور وہاں کی صفائی دیکھ کر بابائے قوم بھی یہ شکوہ ضرور کررہے ہوں گے کہ ''پاکستان میں نے بنایا تھا یا اِن لوگوں نے‘‘ہم نے قائد اعظم کو کچرے کا تحفہ دیاہے اور جب بابائے قوم کی رہائش گاہ کی یہ حالت ہو تو شہر کی صورتحال کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں۔
کراچی کے شہری ایوب خان کے مارشل لاء کو یاد کرتے ہیں کہ جب دودھ اور گوشت کی دکانوں پر جالیاں لگا کر شہریوں کی صحت کا خیال رکھا گیا ۔اب تو لگتا ہے پورے کراچی پر جالی لگانی پڑے گی۔یہ کیسی جمہوریت ہے جو ایک شہر کا بلدیاتی نظام نہیں سنبھال سکتی۔کچرا صاف نہیں کرسکتی ۔پانی فراہم نہیں کرسکتی۔سڑکیں تعمیر نہیں کرسکتی ۔فلائی اوور اور انڈر پاس مکمل نہیں کرسکتی۔جب ایک شہر کا یہ حال ہے پورے سندھ کا کیا ''حشر‘‘ہوگا۔سند ھ کے عوام اس بات پر بھی حیران ہیں کہ جب کراچی اور حیدرآباد سمیت پورے سندھ میں ترقیاتی کام نہیں ہورہے تو ترقیاتی بجٹ کہاں جارہا ہے۔کہیں یہ پیسہ بھی اپنی ذاتی ''ترقی‘‘کیلئے دیواروں‘پانی کی ٹنکیوں اور دیگر خفیہ مقامات پرتو جمع نہیں ہورہا اور اگر یہ پکڑاگیاتونوٹ گنتی کرنے والی مشینیں بھی گرم ہوکر جل جائیں گی ۔ 
ایک شہرتوہم سے سنبھل نہیں رہا ۔صفائی ہو نہیں رہی ۔آئے روز خونخوار نالوں میں بچے گر کر مر رہے ہیں۔بجلی نہیں ہوتی۔کبھی نلکوں میں پانی آتا ہے اور کبھی ہوا !دنیا تو کچرے سے بھی بجلی بنارہی ہے اورہم اسی کچرے کی فوٹیج اور تصاویر ہی بنارہے ہیں۔ عالمی مارکیٹ میں بھارت اور چین کے مقابلے کی باتیں تو ہم کرتے ہیںلیکن ہماری عملی صورتحال یہ ہے کہ کوئی مزاحیہ اداکار اسٹیج پر یہ نہ کہہ دے کہ'' اگر اسرائیل کوتباہ کرنا ہو تو سندھ حکومت کے حوالے کردیاجائے انشااللہ اس کی گلیاں کچرے میں بدل جائیں گی اورسڑکیں گڑھوں میں تبدیل ہوجائیں گی۔یہودیوں کو نہ پانی ملے گا اور نہ ہی بجلی ۔انہیں یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ'' ناغہ‘‘ کیا ہوتا ہے اور ''لوڈ شیڈنگ‘‘ کسے کہتے ہیں...ان کی نئی نویلی گاڑیاں کھنڈراتی سڑکوںپر چلنے کے بعد کسی قابل نہیں رہیں گی اور ٹریفک جام کا مزہ کیسا ہوتا ہے یہ بھی یہودیوں کے بچے بچے کو معلوم ہوجائے گا‘‘۔پاکستان کی مذہبی جماعتیں بھی کہیں اپنے مظاہروں میں یہ بینر نہ لے آئیں کہ ''اسرائیل کو تباہ وبرباد کرنے کیلئے سندھ حکومت کے حوالے کردیا جائے ‘‘۔
اقوام متحدہ کوگندے ترین شہر کا مقابلہ کرانا چاہیے جس میں کراچی بلامقابلہ پہلے نمبر پر آجائے گا۔اس مقابلے کیلئے کسی سروے ٹیم کی بھی ضرورت نہیں ہوگی۔صرف شہر میں گھومنے کی دیر ہے ۔ناک پر رومال ہوگا اور ہاتھ میں کراچی کے ''نمبر ون‘‘ہونے کا نتیجہ۔ ماضی میں بھارت کا شہر دہلی بھی چار مرتبہ گندے ترین شہروں میں سرفہرست تھا لیکن عام آدمی پارٹی نے جب جھاڑو اٹھایا تو دہلی اس فہرست میں سے باہر ہوگیا ۔سندھ میں تو کوئی عام پارٹی ہی نہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی بھی خاص ہے اور اس کی حکومت بھی خاص۔
کراچی ابھی کچرے سے ''پاک ‘‘نہیں ہوا کہ'' گرمی ‘‘بھی قہر بن کر برسنے لگی ہے حکومت بھی عجیب ہے اور اس کے اقدامات بھی دلچسپ ۔سردیوں میں ''ہیٹ سٹروک‘‘سے بچائو کیلئے میٹنگز ہوتی رہیں۔شدید گرمی سے بچنے کے ''فارمولے‘‘طے کئے جاتے رہے لیکن جب گرمی آئی تو بلدیاتی ادارے ''غائب‘‘ہوگئے۔ سمندری ہوا رکنے لگی ہے، ہوا میں نمی بڑھ رہی ہے اور یہ سب کچھ مئی میں ہورہا ہے، ابھی جون اور جولائی کو بھی آنا ہے ۔اپنا ''جوبن‘‘دکھانا ہے لیکن کو ن پوچھتا ہے ۔؟کون پوچھے گا۔؟ لاوارث شہر میں جب تک دو ڈھائی ہزار لوگ نہ مریں کوئی توجہ نہیں دیتا۔ گزشتہ سال ڈھائی ہزار لوگوں کے جاں بحق ہونے کے بعد اب سرد خانوں کی ''کولنگ ‘‘بھی بڑھادی گئی ہے ۔حکومت کی پلاننگ یا توواقعے سے پہلے ہوتی ہے یا پھر بعد میں جس وقت ہونی چاہیے اس وقت حکومت ''ٹھنڈی‘‘پڑجاتی ہے ۔
معروف شاعر فانی بدایونی نے لکھا تھا کہ ع
بستی بسنا کھیل نہیں بستے بستے بستی ہے
سندھ حکومت کی خوبی یہ ہے کہ فانی بدایونی کے اس آفاقی شعر کو انہوں سے سچ ثابت کردکھایا۔کراچی کو اتنے زاویوں سے اجاڑ کررکھ دیا کہ جنگ عظیم دوئم کے بعد اجڑا ہوا لندن برطانوی حکومت نے دوبارہ تعمیر کردیا لیکن شاید برطانوی انجینئر کراچی کے معاملے پر اسی طرح معذرت کرکے واپس چلے جائیں جس طرح بینظیر شہید کے قتل کی تحقیقات کیلئے آنے والی اقوام متحدہ کی ٹیم ''سوری‘‘کہہ کرچلی گئی تھی ۔ 
کراچی کا کچرا سوشل میڈیا پر بھی چھایا ہوا ہے ۔ٹویٹس ‘ پوسٹس اور لائکس کے یہ نوحے چل رہے ہیں۔''بجلی کے بل فوج لے۔ سیلاب میں فوج پہنچے۔ زلزلے میں فوج آئے۔ الیکشن فوج کرائے۔ مردم شماری فوج کرے۔ چھوٹو گینگ کوفوج پکڑے ۔بھل صفائی فوج کرے۔پانامہ صفائی فوج سے کرائی جائے۔کیا اب کراچی کے حقوق بھی فوج سے مانگنا پڑیں گے؟‘‘ایک اور ٹویٹ میں لکھا گیا''جو کراچی کے گٹروں کے ڈھکن تک کے پیسے کھا گئے ہوں وہ جب کرپشن کے خلاف بات کرتے ہیں تو ہنسی نکل جاتی ہے‘‘۔کراچی کے ریلوے سٹیشن پر ''کراچی سٹی ‘‘کا جو بورڈ آویزاں ہے اب اس کے نیچے غالب کا یہ شعر لکھ دینا چاہیے کہ ؎
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی 
میرے درد کی دوا کرے کوئی 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں