"ISC" (space) message & send to 7575

’’بلدیہ کراچی‘‘ کی ’’تدفین ‘‘کاآ خری مرحلہ...!!

کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی(کے ڈی اے)کو سندھ حکومت کے ماتحت کرکے کراچی دشمنی کا ایک اور ثبوت دے دیا گیاہے۔سندھ حکومت نے بلدیہ عظمیٰ کراچی سے اہم ترین بلدیاتی محکمے ''چھین ‘‘لئے ہیں۔ دنیابھرمیں بلدیاتی اداروں کی پہلی شناخت صفائی ستھرائی کے نظام سے ہوتی ہے لیکن بلدیہ عظمیٰ کراچی سمیت دیگربلدیاتی ادارے کچرااٹھانے اور ٹھکانے لگانے سمیت شہرمیں جھاڑو دینے کے اختیارسے بھی محروم ہورہے ہیں۔لوکل ٹیکس، ماس ٹرانزٹ،ماسٹر پلان، تعلیم وصحت بلدیہ عظمیٰ کراچی سے واپس لیے جاچکے ہیںاور اب آخری وار ادارہ ترقیات کراچی(کے ڈی اے ) کو واپس لے کر کیا گیا۔
کراچی کاآنے والامیئر نہ تو ادارہ فراہمی ونکاسی آب کا چیئرمین ہوگا اورنہ ہی اس کاکوئی کنٹرول بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی پرہو گا۔ دنیا کی دوسری بڑی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے پاس آمدنی کاکوئی موثرذریعہ بھی باقی نہیںرہا۔ اب ترقیاتی کاموں کیلئے وفاقی وصوبائی حکومتوں پرانحصار کرناہوگا۔جن کو کراچی اور کراچی کے ترقیاتی کاموں سے ایک فیصد بھی دلچسپی نہیں ہے۔اختیارات کے اعتبارسے بلدیہ کراچی کی 150 سالہ تاریخ کا کمزور ترین میئر اب بلدیہ عظمیٰ کراچی کا بے اختیارسربراہ بنے گا(اگر بناتو...؟) سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء کے تحت بلدیہ عظمیٰ کراچی سے اہم ترین محکموں کااختیار پہلے ہی چھین لیاگیاہے۔
18ویں ترمیم کے تحت تمام اختیارات صوبائی حکومتوں کے پاس ہیں،لیکن سندھ حکومت نے ان اختیارات کونچلی سطح پر دینے کے بجائے بلدیاتی اداروں کے بنیادی اختیارات بھی چھین لئے ہیں۔سندھ حکومت نے بلدیہ عظمیٰ کراچی اورضلعی بلدیاتی اداروں کی بنیادی شناخت شہر کی شاہراہوں کی صفائی ستھرائی پر مبنی تھی۔ کچرا اٹھانے و ٹھکانے لگانے کے فرائض بھی صوبائی محکمہ بلدیات کے سپرد کردیئے گئے ہیں...اس ضمن میں کروڑوں روپے کی سوئپنگ‘ گاڑیاں،ڈمپر‘ لوڈراورایکڑوں پرمشتمل اراضی و دیگر اثاثے صوبائی حکومت کو دئیے جارہے ہیں۔سندھ حکومت نے اشتہاری بورڈلگانے اور تعلیم وصحت کاانتظام بھی بلدیہ عظمیٰ کراچی سے لے کرڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنز کے حوالے کردیاہے۔بلدیہ عظمیٰ کراچی اہم شاہراہوں کی تعمیرومرمت کرتی ہے۔لیکن آمدنی کے بڑے ذریعے لوکل ٹیکس سے بھی بلدیہ عظمیٰ کراچی کو محروم کردیاگیا ہے۔اطلاعات یہ ہیں کہ سابق کمشنر کراچی آصف حیدر شاہ اور صوبائی وزیر بلدیات جام خان شورو کے درمیان لڑائی کی وجہ لوکل ٹیکس تھی۔ وزیر موصوف چاہتے تھے کہ بڑے بڑے بل بورڈز اور ہورڈنگز زیادہ سے زیادہ لگائے جائیں اور اس کی آمدنی سندھ حکومت کے کھاتے میں آجائے اور آصف حیدر شاہ اس بات کے خلاف تھے اسی وجہ سے معاملات خراب ہوتے چلے گئے ۔اور بالآخر انہیں کمشنر کی کرسی کی ''قربانی‘‘دینی پڑی۔کراچی کی آمدنی کا دوسرا بڑا ذریعہ ماسٹر پلان پہلے ہی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے سپرد ہوچکاہے۔جبکہ بچا کچھا ''پلان‘‘ادارہ ترقیات کراچی کے ساتھ ہی سندھ حکومت کے پاس چلا گیا ہے۔ بلدیاتی امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ جمہوری حکومتوں نے کبھی بھی بلدیاتی اداروں کوپنپنے نہیں دیا۔سابق صدر جنرل مشرف کے دور میں مقامی حکومت کانظام متعارف کرواکربلدیاتی اداروں کو طاقتور بنایا گیا۔ کئی صوبائی اداروں کوسابق شہری حکومت کراچی کے حوالے کیاگیا اور اربوں روپے ترقیاتی فنڈزجاری ہوئے لیکن جمہوری حکومت آتے ہی سب کچھ بدل گیا اوراب صورتحال یکسر مختلف ہے۔
ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی ‘لیاری ڈویلپمنٹ اتھارٹی ‘سہون ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘حیدرآباد میونسپل کارپوریشن اورکراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سربراہان سے محروم ادارے ہیں۔ان اتھارٹیز میں ایسے افسران کی تقرریاں کی گئی ہیں جو ان اسامیوں میں دلچسپی ہی نہیں رکھتے تھے ۔وہ اب دفتر آتے ہی نہیں اور اگر آجائیں تو چند گھنٹے کی خانہ پری ہی کرتے ہیں ۔جس کی وجہ سے ان محکموں میں فائلوں کے ڈھیر لگ گئے ہیں ۔لوگ ٹھوکریں کھارہے ہیں ۔انہیں مسائل کا سامنا ہے لیکن اس کا حل کیا ہے ۔؟کوئی نہیں بتا سکتا۔ سندھ میں قابل افسران کی قلت ہے یا اہم پوسٹوں پر تعیناتی کیلئے من پسند افسران میسر نہیں ہیں ۔شعیب صدیقی جیسے افسران 22گریڈ پر پہنچنے کے بعد وفاقی سیکریٹری تو بن چکے ہیں لیکن اب انہیں پوسٹنگ ملنا ایک بڑا مسئلہ ضرورہے وفاقی وزراء کی بیوروکریسی کے ساتھ ''لڑائی‘‘بھی سب کے سامنے ہے۔
18سال بعد کراچی شہر کے سب سے بڑے اور ذمہ دار ادارے کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو اب کراچی سے علیحدہ کردیا گیا ہے۔ مستقل ڈی جی میسر نہ ہونے کی صورت میں اس ادارے کے سینئر افسر ناصر عباس کو ایڈیشنل چارج بھی دیدیا گیا ہے ۔ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا چارج بھی سیکریٹری بلدیات کے پاس ہے وہ تکنیکی معاملات سے واقف ہی نہیں اس لئے ان محکموں کا کام عملاً ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے۔
اب سندھ حکومت کراچی کے بلدیاتی اداروں پر آخری وار کررہی ہے۔صوبائی اور وفاقی حکومتوںکی بلدیاتی نظام سے یہ ناراضگی ہے کہ وہ نئی لیڈر شپ کی آبیاری کرتے ہیں ۔متبادل قیادت پیدا کرتے ہیں۔ شہروں کو ترقی یافتہ بناتے ہیں جبکہ جاگیرداروں کی خواہش یہی ہے کہ بلدیاتی ادارے ان کے پنجے میں سسکتے رہیں اور آزاد ماحول میں سانس نہ لے سکیں ۔یہ بلدیاتی ادارے جمہوریت کی نرسریاں اور کیاریاں ہیں ۔پاکستان کی 50فیصد سیاسی قیادت بلدیاتی اداروں کے راستے ہی آئی ہے۔اوربلدیاتی اداروں کو اس لئے تباہ وبرباد کیا جارہا ہے کہ جاگیردارانہ بادشاہت کو چیلنج کرنے والا کوئی پیدا نہ ہوسکے ۔
1972ء سے بھٹو صاحب نے شہر کی ترقی کو کچلنے ‘صنعتی ماحول اور معاشرے کو ختم کرنے اور تعلیم کو قابو میں رکھنے کیلئے ''نیشنلائزیشن ‘‘کا نظام متعارف کرایا۔بھٹو صاحب بھی کمال کی شخصیت تھے انہوں نے کراچی کے قریب پاکستان اسٹیل قائم کی اور 5ہزار ایکڑ زمین خالی رکھی تاکہ اسٹیل سے وابستہ صنعتیں لگائی جائیں جاسکیں۔ایک طرف پاکستان اسٹیل تعمیر وتخلیق کے مراحل میں تھی تودوسری جانب بھٹو صاحب نے 1200کارخانے حکومتی تحویل میں لے لئے جس سے صنعت کار اور تاجر خوف زدہ ہوگئے اور سرمایہ کاری رک گئی ۔اس کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی تھا کہ بھٹو صاحب نے کراچی ‘لاہور‘گوجرانوالہ ‘فیصل آباد اور حیدرآباد کے صنعت کاروں سے کہا کہ وہ پاکستان اسٹیل سے ملحقہ 5ہزار ایکڑ زمین (جس کا نام ذوالفقار بھٹو کے نام پر''ذوالفقار آباد‘‘رکھا گیا تھا)پر صنعتیں لگائیں ۔لیکن صنعت کار یہ کہتے رہے کہ ہم مزید کارخانے اس لئے لگائیں کہ حکومت انہیں قومیالیاور اس طرح اسٹیل مل کا عظیم الشان منصوبہ سبوتاژ ہوگیا۔پاکستان کو ''میٹھی چھری‘‘ سے تباہ کرنے کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا لگتا ہے کہ وہ اب بلدیہ کراچی کے ٹکڑے ٹکڑے کردینے سے پورا ہوجائے گا۔ایک طرف کراچی کو سونے کی چڑیا سمجھ کر نوچا اور لوٹا جارہا ہے دوسری طرف اداروں میں تقسیم کرکے اس کے غیر ترقیاتی اخراجات بڑھا کر کراچی کے تمام وسائل کو ضائع کیا جارہا ہے کہا جاتیا ہے کہ ایک بار ذوالفقار علی بھٹو ایئرپورٹ سے اسٹیٹ گیسٹ ہائوس آتے ہوئے اس وقت کے وزیر بلدیات جام صادق علی سے کہا تھا کہ ''تم ہر خالی میدان کو پلاٹ بنا کر بانٹ رہے ہو کہیں ایسا نہ ہو کہ مزارقائد اعظم کو پلاٹ بناکر فروخت کردو‘‘اس پر جام صادق علی نے جواب دیا کہ ''میں آپ سے کئے ہوئے وعدے کا پابندرہوں گا‘‘اور اس طرح مزار قائد ''چائنا کٹنگ‘‘سے بچ گیا۔
کراچی کا بلدیاتی نظام آخری ہچکیاں لے رہا ہے لیکن اس کی حفاظت کرنے والا کوئی نہیں ۔کراچی تباہ ہواتو پاکستان کا پورا صنعتی معاشرہ برباد ہوجائے گا۔ ٹیکس کی آمدنی ختم ہوجائے گی اور دنیا میں کوئی قرض بھی نہیں دے گا۔بھارت کو بھی پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی کیونکہ نہ نومن تیل ہوگا اور نہ رادھا ناچے گی۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں