عید گزر گئی۔ کہا جا رہا تھا کہ ''کراچی آپریشن‘‘ کی رفتار ''بلٹ ٹرین‘‘ کی طرح تیز ہو جائے گی۔ دہشت گردوں کا گھر تک پیچھا کرکے انہیں نیست و نابود کر دیا جائے گا‘ لیکن ایسا ''گرجدار آپریشن‘‘ فی الحال ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ پھر یہ بھی کہا گیا کہ وفاق میں ''سیاسی آپریشن‘‘ ہو گا۔ احتساب کا آتش فشاں پھٹ پڑے گا اور بیشتر کرپٹ افراد لاوے میں بہہ جائیں گے‘ لیکن تاحال اسلام آباد اور کراچی دونوں جگہ سناٹے ہیں اور شور ہے تو صرف بارش کا۔
کراچی کیلئے کہا گیا تھا کہ عید کے بعد ہونے والا آپریشن اپنے مقاصد کے لحاظ سے بھرپور ہو گا۔ دہشت گردوں کیلئے زمین تنگ کر دی جائے گی۔ یہ بھی اشارے ملے کہ آپریشن کی شدت اتنی تیز ہو گی کہ لوگ لیاری گینگ وار کے خلاف ''آن دی سپاٹ آپریشن‘‘ کو بھی بھول جائیں گے... اور شہر میں امن قائم ہو جائے گا‘ لیکن جب بعض قوتوں نے کراچی میں اتنے ''پاورفل‘‘ آپریشن کی منصوبہ بندی کی تو انہیں سمجھ آئی کہ سندھ پولیس کے ہوتے ہوئے بہت سارے اہداف حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہو گا۔ سندھ پولیس صوبائی حکومت کی وفادار ہے جبکہ دوسری قوت کو چوہدری نثار کنٹرول کر رہے ہیں۔ گو کہ آپریشن کے بیان کردہ مقاصد مثبت بھی تھے اور کراچی کے مفاد میں بھی‘ لیکن محسوس یہ ہوا کہ جنگ سے پہلے اختیارات کی جنگ ہو گی‘ جس کا نتیجہ آپریشن کے راستوں کو متعین کرے گا۔ کراچی اتنا بڑا شہر ہے کہ اسے غیر مقامی اور ''اجنبی‘‘ پولیس کنٹرول کر ہی نہیں سکتی اور رینجرز کے پاس نہ تھانے ہیں اور نہ ہی ''ہیومن انٹیلی جنس نیٹ ورک‘‘ کہ وہ گلی گلی پر قابو پا سکیں۔ دنیا بھر میں کہیں بھی پیراملٹری فورسز پولیس کی مدد کے بغیر اپنے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر سکتیں‘ اس کے لئے انہیں مقامی سپورٹ کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ مشرقی پاکستان میں اسی قسم کا ناکام تجربہ ہم کر چکے ہیں۔ کراچی آپریشن اسی رفتار سے جاری رہے گا یا اس میں تیزی آئے گی اس کا جواب آئندہ ''شکار‘‘ سے ہی ہو سکتا ہے۔
کراچی آپریشن کے اثرات اسلام آباد کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ علاج کے بعد واپس لوٹنے والے حکمرانوں کا منصوبہ یہ ہے کہ پاکستان کی ''غیر مرئی قوتوں‘‘ کو کراچی میں الجھا دیا جائے۔ تمام ''فوکس‘‘ کراچی پر کر لیا جائے۔ ''ٹکرز‘‘ سے بریکنگ نیوز کے حصول کے لئے میڈیا بھی اپنی ڈی ایس این جیز کراچی کی سڑکوں پر دوڑاتا رہے تاکہ حزب اختلاف کی قوتوں کا متحدہ محاذ اسلام آباد کے ''لال قلعے‘‘ پر جو چڑھائی کا منصوبہ بنا رہا ہے‘ اس کی شدت میں کمی آ جائے۔ اب چند دنوں میں یہ فیصلہ ہو جائے گا کہ پہلی باری سندھ کی آتی ہے یا پھر اسلام آباد کی؟
اسلام آباد کے باخبر حلقوں سے اطلاعات آ رہی ہیں کہ دبائو اتنا شدید ہو گا کہ وفاق کے مضبوط قلعے بھی لرزنے لگیں گے اور ہانکا اتنا طاقتور ہو گا کہ بچائو کے راستے بھی شاید ہی بچ سکیں۔ ابتداء میں ''چالاک لوگوں‘‘ کی حکمت عملی یہ نظر آ رہی ہے کہ حملہ آور اپوزیشن میں اختلافات کے چھید کیے جائیں تاکہ وہ ان کو پُر کرتے رہیں اور مزید وقت مل جائے۔ دوسرے مرحلے میں پیپلز پارٹی کو ڈرا دھمکا کر (سوئس مقدمات کے حوالے سے) یا پھر بہلا پُھسلا کر چارٹر آف ڈیموکریسی پر لایا جائے گا اور ایک بار پھر مشہور زمانہ ''مفاہمت‘‘ کا فارمولا ''اپلائی‘‘ کر دیا جائے‘ لیکن کراچی میں کہا جا رہا ہے کہ ساری لڑائی‘ کشمکش‘ بے چینی اور گرائو‘ بچائو کے اس حتمی معرکے میں پیپلز پارٹی کی خواہش ہے کہ ''بارگیننگ‘‘ کے ذریعے زیادہ سے زیادہ ''گندے کپڑے‘‘ دھلوا لئے جائیں۔ پیپلز پارٹی اب تک ''ڈبل گیم‘‘ کھیل رہی ہے۔ خورشید شاہ نے اسحق ڈار کو آسرے میں رکھا ہوا ہے‘ جبکہ بلاول بھٹو زرداری کو وزیر اعظم کے پیچھے لگا دیا گیا ہے اور اعتزاز احسن کے بیرسٹر ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں تیسرے راستے پر کھڑا کر دیا گیا ہے۔ اب کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ تو ہو گا۔ پیپلز پارٹی کے پاس دو آپشن بچے ہیں: اول یہ کہ وہ سندھ حکومت کو بچا لے اور اس کے لئے پیپلز پارٹی آپریشن کی رفتار تیزکرے تو زیادہ بہتر ہے لیکن کم از کم موجودہ رفتار جاری رکھنا بہت ضروری ہو گا۔ دوئم یہ کہ مقتدر قوتوں سے معاہدہ کرکے 9 سال کے بعد بذریعہ انتخابات بلاول بھٹو زرداری کو وزیر اعظم بنا سکتی ہے۔ بلاول کی اِس وقت عمر 26 سال ہے اور 9 سال بعد ہی وہ آئین کے مطابق وزیر اعظم بن سکیں گے کیونکہ آئینِ پاکستان میں وزیر اعظم کی عمر 35 سال ہی درج ہے۔ بینظیر بھٹو نے بھی تو اسی طرح پرویز مشرف سے وزیر اعظم بننے کا معاہدہ کیا تھا‘ لیکن وہ وقت سے پہلے شہید ہو گئیں۔ خود میاں نواز شریف‘ پرویز مشرف سے دس سالہ جلا وطنی کا معاہدہ کرکے چلے گئے تھے۔ ویسے سب سے زیادہ معاہدے بھی پاکستان میں ہی ہوتے ہیں۔
دیکھنا یہ ہے کہ مسلم لیگ ن اپنا بچائو کیسے کرتی ہے؟ پیپلز پارٹی اس لڑائی میں کیا حاصل کرے گی؟ عمران خان اور ایم کیو ایم اپنے کون سے پتے کب کھیلیں گے؟ ق لیگ بھی سرگرم ہے اس کی چال کیا ہو گی؟ اس تمام تر صورتحال کا اندازہ آنے والے دنوں میں ہو جائے گا۔
کراچی میں یہ بحث بھی چل رہی کہ موجودہ ''جاگیردارانہ برانڈ جمہوریت‘‘ اپنی بقا کی جنگ میں خود کو بچا پائے گی یا پھر ایسی ''برانڈڈ جمہوریت‘‘ ہمیشہ کے لئے رخصت ہو جائے گی۔ پاکستان میں جمہوریت ناکام نہیں ہو رہی بلکہ پورا نظام بیٹھتا جا رہا ہے‘ اور جب کوئی نظام ناکام ہوتا ہے تو نیا متبادل نظام آتا ہے یا پھر کوئی اور نظام ڈھالنا مجبوری بن جاتا ہے۔
کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ جمہوریت کا نعرہ لگانے والے پاکستان میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی حلقہ بندیاں آبادی کی بنیاد پر نہیں کرتے۔یہ ''پری الیکشن دھاندلی‘‘ ہے جو عوام کے ساتھ ہر انتخابات میں ہوتی ہے۔ حلقوں کی تقسیم کا مفاد پرستانہ ''فارمولا‘‘ ندی‘ نالوں‘ نہروں‘ سڑکوں اور جاگیردارانہ مرضی کے تحت کیا جاتا ہے۔ ملک میں ہر دو‘ تین سال بعد مردم شماری کی ایک نئی تاریخ آ جاتی ہے۔ خانہ شماری کا اعلان ہوتا ہے‘ لیکن نہ لوگوں کی گنتی ہوتی ہے اور نہ ہی گھر گنے جاتے ہیں۔ آج کے کمپیوٹرائزڈ دور میں مردم شماری کی ضرورت کیا ہے؟۔ جس کے پاس قومی شناختی کارڈ ہے وہ مردم شماری میں آ گیا اور جس کے پاس ''ب‘‘ فارم ہے وہ خانہ شماری کے معیار پر پورا اترتا ہے۔ گھر کے سربراہ سے لے کر بچوں تک کی گنتی بھی آپ آسانی سے کر سکتے ہیں۔ اور جس کے پاس قومی شناختی کارڈ نہیں تو وہ پاکستانی شہری کیسے ہو سکتا ہے؟ اُس کو تو گننے کی ویسے ہی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی‘ لیکن سب سے پہلے یہ طے کیا جائے کہ اتنے افراد کی تعداد پر قومی اسمبلی کا حلقہ بنے گا اور اتنے افراد صوبائی حلقے میں ہوں گے۔ جس دن ایسا ہو گیا‘ احساس محرومی ختم ہو جائے گا۔ فنڈز کی تقسیم آسان ہو جائے گی اور ہر ووٹر کو اپنا حق بآسانی مل سکے گا۔ نئے صوبے بنائے جائیں بلکہ ہو سکے تو صوبے ختم کرکے ریاستیں بنائی جائیں۔ سرکاری طور بنائی گئی ظفر احمد انصاری کی رپورٹ موجود ہے کہ ہر ڈویژن کو صوبہ بنا دیا جائے۔ جب افغانستان میں 34 اور امریکہ میں 50 ریاستیں ہیں۔ روس کے اتنے ٹکڑے ہونے کے باوجود اب بھی اس کے 46 صوبے ہیں۔ کیا پاکستان میں 20 یا 25 صوبے نہیں بن سکتے؟ جب بھارت نئی دہلی سٹی کو ایک صوبہ بنا سکتا ہے تو ہم سیکڑوں مربع میل پر محیط ڈویژن کو صوبہ کیوں نہیں بنا سکتے؟
پاکستان میں صنعتی اور زرعی معیشت پر مبنی صوبوں کی ضرورت ہے۔ بھارت ایک سیکولر (لادین) ملک ہے لیکن مشرقی پنجاب کی تقسیم ہوئی تو خاموشی سے اکثریتی سکھوں کا الگ‘ ہندوئوں کا الگ اور مکس آبادی کا علیحدہ صوبہ بنایا گیا۔ تقسیم میں تمام مذاہب کا خیال رکھا گیا۔ ملک کو ذہانت سے چلایا جاتا ہے ڈنڈے سے نہیں۔ آئندہ چند ماہ میں زوالِ اسلام آباد ہوتا ہے یا نہیں‘ اور اگر ہوتا ہے تو نیا نظام آئے گا یا اسی گلے سڑے‘ بدبودار نظام پر ہی عوام کو گزارا کرنا پڑے گا‘ اور ملک قرضے مانگتے ہوئے عالمی سطح پر معاشی ترقی کے قریب بھی آ سکے گا یا دور کھڑے رہ کر ترقی یافتہ ممالک کے لئے تالیاں بجاتا رہے گا۔