پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے خورشید شاہ نے ایک عجیب و غریب اور ناقابل یقین بیان دیا کہ سندھ میں امن پولیس نے قائم کیا ہے اور باقی کسی ادارے کا اس میں کوئی کردار نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ رینجرز کو اختیارات ضرور دیں گے مگر قانون اور قواعد کی پابندی کرتے ہوئے، انہوں نے رینجرز کا نام لیے بغیر کہا کہ کسی کو بھی ریاست کے اندر ریاست بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، یہ بیان ان کا ایک ایسے وقت آیا جب ملک میں یہ بحث زوروں پر تھی کہ سندھ حکومت رینجرز کو اختیارات دے گی بھی یا نہیں؟ سندھ حکومت نے بہت معصومیت کے ساتھ رینجرز کے اختیارات کی تاریخ گزر جانے دی پس منظر کے مطابق کراچی (شہری سندھ) میں رینجرز کو آئین کے آرٹیکل147 کی ذیلی دفعہ 3 اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 4 کے تحت سول انتظامیہ کی مدد کے لئے 1989ء میں طلب کیا گیا تھا اور متعلقہ قوانین کے تحت اسے پولیس کے اختیارات تفویض کئے گئے تھے، رینجرز کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ90روز تک کسی ملزم کو اپنی تحویل میں رکھ سکے۔ گزشتہ بار اختیارات میں توسیع کے مسئلے پر صوبائی اور وفاقی حکومت کے درمیان تناؤ ہوا اور رینجرز کے اختیارات میں توسیع میں تاخیر کی گئی، موجودہ توسیع چار مئی کو کی گئی تھی۔ اطلاعات کے مطابق یہ میعاد منگل کی رات 19 مئی کوختم ہو گئی۔اور اب تاریخ گزرنے کے بعد سوچ بچار کیلئے پاکستان جیسے لولے لنگڑے جمہوری ملک کو چھوڑ کر ایک بادشاہ کے انڈر کنٹرول ملک یعنی دبئی میں اجلاس بلایاگیاہے جہاں یہ فیصلہ ہوگا کہ رینجرز کو اختیارات دیئے جائیں یا نہیں؟ اور دیئے جائیں تو کتنے؟
خورشید شاہ پہلے ہی یہ اعلان کرچکے ہیں کہ ریاست کے اندر کسی کو ریاست بنانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ کیا ان الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ رینجرز کو سندھ پولیس کی ماتحتی میں دے دیا جائے ؟ پیپلز پارٹی کے مخالفین بھی یہ الزام لگاتے ہیں کہ سندھ حکومت رینجرز کو خود مختار دیکھنا نہیں چاہتی اور نہ ہی تعظیم کے ساتھ آزاد نہ کام کرنے کی اجازت دینا چاہتی ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ رینجرزکے ہاتھ پائوں باندھ دیئے جائیں اور انہیں صرف کراچی تک محدود رکھا جائے،اندرون سندھ جو کہ ان جاگیرداروں کا حلقہ انتخاب ہے وہاں طاقت کا سرچشمہ یہ جاگیردار ہی رہیں اور وہی ایم پی اے اور ایم این اے بھی۔اسد کھرل کا معاملہ سندھ کے شہر لاڑکانہ سے چلا ان پر کئی سنگین الزامات تھے انہیں ایک ارب روپے کے ٹھیکے گفٹ میں دیئے گئے۔ رینجرز نے انہیں پکڑنے کیلئے گھیرائو کیا لیکن سندھ پولیس اسے بچانے میں کامیاب ہوگئی۔اور اب ایک''پسندیدہ‘‘ مقدمے میں گرفتار کرواکر ریمانڈ پر جیل بھجوادیا گیا اوراب وہ''قانون اور عدالت‘‘ کی حفاظت میں ہے۔ ملزم محمد علی کھرل عرف اسد کھرل کو 13 جولائی کی شب لاڑکانہ میں رینجرز سے چھڑوانے کے بعد اْس کا پولیس انسپکٹر بہنوئی اْسے حیدرآباد لے آیا تھا جہاں کے ایک ایک تھانے میں وہ ایس ایچ او تعینات ہے۔ معاملہ طول پکڑنے کی وجہ سے اسد کھرل کے ''سرپرستوں‘‘ نے اسے رینجرز سے بچانے کے لئے پولیس کے ذریعے اس کی گرفتاری ظاہر کرنے کا ڈرامہ رچایا۔ ذرائع کے مطابق میڈیا پر اْس کی گرفتاری قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں ظاہر کی گئی جبکہ ایسا قطعی طور پر نہیں تھا، اْس کی گرفتاری میڈیا پر ظاہر کرکے اْسے پہلے حیدرآباد پولیس کے ذریعے باقاعدہ گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی مگر وہاں کے ایس ایس پی کے انکار پر خیرپور پولیس سے رجوع کیا گیا، خیرپور پولیس نے بھی انکار کردیا تو اْسے سکھر پولیس کے حوالے کیا گیا جہاں سکھر کے آباد تھانے کی پولیس نے جمعہ کی شب ساڑھے 11 بجے شکارپور روڈ سے اْس کی گرفتاری ظاہر کی۔ ایف آئی آر نمبر 69/16 کے مطابق ملزم کو شکارپور روڈ پر روکنے کی کوشش کی گئی تاہم ملزم نے اپنی گاڑی پولیس کی موبائل سے ٹکرا دی، جس پر اْسے گرفتار کیا گیا۔ تلاشی کے دوران اسد کھرل کے قبضے سے ایک پستول برآمد ہوا جس پر اْس کے خلاف غیرقانونی اسلحہ رکھنے کا ایک اور مقدمہ نمبر 70/2016 درج کرلیا گیا۔کہنے والے کہتے ہیں کہ سندھ پولیس کمالات کی ماہر ہے اور اس میں اتنی عقل ہے کہ کس طرح طاقت کے سامنے سرینڈر کیئے بغیر جان بچائی جائے ۔اسد کھرل کا معاملہ اتنا پیچیدہ ہوگیا تھا کہ صورتحال کے پیش نظر کور کمانڈر اور وزیر اعلیٰ کی ملاقات ہوئی کہا جاتا ہے کہ اس ملاقات میں کور کمانڈر نے وزیر اعلیٰ سے تو ہاتھ ملالیا لیکن ان کے ساتھ کھڑے انور سیال(وزیر داخلہ) سے ہاتھ نہیں ملایا، بعدمیں کراچی میں یہ خبر بھی پھیلی کہ اوپر سے ''فرشتوں‘‘ کا مطالبہ آیا ہے کہ وزیر داخلہ سندھ کو تبدیل کیا جائے۔
کہتے ہیں کہ سندھ گورنمنٹ نے اس کو بھی انا کا مسئلہ بنا لیا ہے اور وزیر داخلہ آصف زرداری کے روبرو وزیر داخلہ کے تمام اختیارات کے ساتھ حاضر ہوئے اور احکامات بھی وصول کیے۔
رینجرز کے اختیارات میں توسیع کے معاملے کو سندھ حکومت یوں گمبھیر بنایا کہ اس طرح آصف علی زرداری کی طاقت کو پاکستان کی سیاست میں ایک بار پھر''مردآہن‘‘ بناکر پیش کرنے کا موقع مل گیا اس معاملے پر کھلم کھلا یہ بھی کہا کہ تاریخ میں توسیع کا فیصلہ حتمی مشاورت کے بعد‘‘بڑے صاحب‘‘ سے ملاقات میں کیا جائے گا اس بار کھیل اس طرح کھیلا جارہا ہے اور ڈرامہ یہ کیا جارہا ہے کہ رینجرز کو اختیارات دے نہیں رہے بلکہ رینجرز اختیارات مانگ رہی ہے یہ سارا مسئلہ ''سرپرغرور‘‘ کو سر بلند رکھنے کا جھگڑا ہے۔
پیپلز پارٹی کے حلقے کہتے ہیں کہ اول تو رینجرز کی سندھ میں ضرورت نہیں کراچی کے حالات خراب تھے،وہاں رینجرزنے اپنا کردار ادا کیا اور اچھا کردار ادا کیا، اس کی تعریف بھی کرنے کیلئے وہ تیار ہیں۔ کراچی میں رینجرز کی موجودگی سے ان کے دیہی علاقہ انتخاب کمزور نہیں ہوتے لیکن سندھ میں رینجرزکے آنے سے بادشاہ سلامت کی خدائی خطرے میں پڑجاتی ہے،سندھ کے سیاستدان اتنے ذہین ہیں کہ ان کی زہانت اور دور اندیشی کو سمجھنے کیلئے پی ایچ ڈی کرنی پڑے گی۔ کراچی کی کل آبادی دو کروڑ35لاکھ ہے اور یہاں قومی اسمبلی کی20اور صوبائی کی42سیٹیں ہیں جبکہ دیہی سندھ کی آبادی دو کروڑ53لاکھ ہے لیکن دیہی سندھ کی قومی اسمبلی کی سیٹوں کی تعداد41اور صوبائی اسمبلی کی کل تعداد55 ہے دیہی سندھ نے پہلے ہی اسمبلی اور سندھ سرکار میں اپنی تعداد دو گنی رکھی ہوئی ہے یہ وہ چالاکی اور ناانصافی ہے کہ جس کی سزا شہری سندھ پہلے ہی بھگت رہاہے ۔اب رینجرز بھی اس کی لپیٹ میں آتی نظر آرہی ہے۔اگر سندھ میں رینجرز کو بلانا ہے دوستانہ انداز میں بلانا ہے اور سندھ حکومت کی شرائط بھی ماننی ہیں تو ان کی سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ ڈاکٹر عاصم جو کہ دراصل وزیراعظم نواز شریف کا قیدی ہے اس کو ملک سے باہر جانے دیا جائے۔کراچی میں یہ کہانیاں بھی گشت کرتی ہیں کہ ایان علی کو بار بار اس لئے روکا جاتا ہے کہ دراصل ڈاکٹر عاصم اور ایان علی کو روک کر دبئی میں بیٹھے''بگ باس‘‘ کو تنگ کیا جائے، اور اسے جھکنے پر مجبور کیا جائے۔