پنجاب کے سابق گورنر، وزیر اعلیٰ، دانشور، خطاط اور مصور حنیف رامے بھٹو حکومت کے خاتمے کے بعد جب رہا ہوئے تو لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں ذوالفقار علی بھٹو کو بھی اُسی کوٹھری میں رکھا گیا‘ جہاں کبھی حنیف رامے قید تھے۔ اتفاق دیکھئے! بھٹو کا مشقتی (ذاتی کام کے لئے مددگار) بھی وہی تھا‘ جو اس سے پہلے حنیف رامے کی خدمت کر چکا تھا۔ حنیف رامے 1967ء سے پیپلز پارٹی کا عاشق نہیں بلکہ دیوانہ تھا۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کا سب سے یادگار اخبار ''مساوات‘‘ نکالا۔ وہ ایک کامیاب سیاسی اخبار تھا (جس کے پبلشر آج بلاول بھٹو زرداری ہیں) انہوں نے بیگم نصرت بھٹو کے نام پر ''ہفت روزہ نصرت‘‘ بھی نکالا جو ایک سیاسی میگزین تھا۔ ایک دن جب موسم سہانا تھا تو بھٹو صاحب نے کیوبن سگار کے کش لگاتے ہوئے اُسی مشقتی سے پوچھا کہ ''قید کے دوران حنیف رامے کیا کہتا تھا؟... وہ تو بڑا دانشور بنا پھرتا تھا... اس کے خیالات کے بارے میں بتائو‘‘۔ مشقتی نے جواب دیا: ''حنیف رامے صبر کرنے والا انسان تھا... اسے پڑھنے کا بہت شوق تھا... وہ کتابیں دیکھ کر ایسے خوش ہوتا تھا جیسے کوئی بچہ کھلونے دیکھ کر ہوتا ہے... اور اُن کا دوسرا شوق گرمی سے بچائو کے لئے نہانا تھا... وہ دن میں دو سے تین بار گرمی سے مقابلہ کرنے کے لئے نہاتے تھے... لیکن جیل انتظامیہ گرمی کے عروج کے وقت پانی بند کر دیتی تھی... اور جب وہ رات کے وقت مطالعہ کرتے تھے تو بجلی بند کرکے روشنی ختم کر دی جاتی تھی۔ کچھ روز تو رامے صاحب کھیل تماشہ دیکھتے رہے لیکن جب ایک دن جیل سپرنٹنڈنٹ ''وزٹ‘‘ پر آئے تو رامے صاحب نے ان سے شکوہ کیا کہ جناب! آپ کو بجلی اور پانی بند کرکے کیا ملتا ہے؟ اس پر جیل سپرنٹنڈنٹ نے جواب دیا کہ اس کے آرڈرز ''اوپر‘‘ سے آتے ہیں۔ رامے صاحب نے پوچھا کتنے اوپر سے؟ جواب ملا: بہت ہی اوپر سے۔ اس پر رامے صاحب نے ایک تاریخی جملہ کہا تھا کہ ''اگر یہ حرکتیں بھٹو کرے گا‘ اور چھوٹے پن کا مظاہرہ کرے گا تو ایک دن وہ بھی اسی کوٹھری میں بند ہو گا‘‘ اور واقعی یہ جملہ الہامی ثابت ہوا۔ بھٹو نے اُس مشقتی سے کہا: ''تم چند دن میں رہا ہونے والے ہو... حنیف رامے صاحب سے ضرور ملنا‘ اور انہیں ازراہ مذاق یہ بھی کہنا کہ رامے صاحب! آپ کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی ہے‘‘۔ اس تاریخی حوالے کا مقصد صرف یہ ہے کہ جو بچ سکے وہ بچنے کی کوشش کرے‘ اور حضرت علیؓ کا یہ جملہ یاد رکھے کہ ''سب سے بڑا انتقام معاف کر دینا ہے‘‘۔
کراچی کی تاریخ میں پہلی بار جیل سے میئر بننے والے وسیم اختر کے بارے میں جب یہ خبر شائع ہوئی کہ ''میئر وسیم اختر کے لئے بجلی اور ٹی وی کی سہولت شام 6 بجے بند کر دی جاتی ہے‘‘ تو تاریخی حوالوں کا یاد آ جانا فطری عمل ہے۔ کراچی کے ''پابندِ سلال میئر‘‘ کا انتخاب ابھی موضوع بحث بنا ہوا تھا اور یہ سوال کہ میئر کراچی کیا رول ادا کرے گا کہ وزیر اعلیٰ سندھ کا بیان آ گیا کہ ''میئر کراچی کو بھی وہی رعایتیں ملیں گی جو جیل مینوئیل میں ہیں‘‘۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ طریقہ کار غلط ہے کیونکہ وسیم اختر کو کسی عدالت نے سزا نہیں دی‘ وہ ''انڈر ٹرائل‘‘ ہیں لیکن سزا یافتہ نہی تو جیل حکام انہیں اس قسم کی سزا کیسے دے سکتے ہیں؟
ہم وسیم اختر کے حامی نہیں اور نہ ہی اُن کے مخالف ہیں۔ جمہوریت تو ٹالرینس (برداشت) کا دوسرا نام ہے... اور جمہوریت کے سینے میں دل بھی بڑا ہوتا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ کراچی سے اسلام آباد تک بیٹھے ہمارے حکمرانوں نے بہت سے معاملات میں تو نرم دلی کا مظاہرہ کیا ہے... درگزر کی پالیسی بھی اپنائی ہے... لیکن کراچی کے معاملے میں ایسی کوئی پالیسی اب تک نظر نہیں آئی۔
پاکستان اپنی تاریخ کے نازک ترین موڑ پر آ گیا ہے۔ 25 مارچ 1971ء کو کیا ہوا تھا... غلطیاں یا طاقت کا بھرپور مظاہرہ؟ بی بی سی کے ایک انٹرویو میں یہ کہہ دینا کہ ''ہمیں کالا کالا بنگالی نہیں صرف لینڈ (زمین) چاہیے‘‘ کیا تھا؟ سیاست میں جب تک دانائی اور تحمل مزاجی نہیں ہو گی جمہوریت سسکتی‘ سلگتی اور تڑپتی رہے گی۔ جمہوریت کا حسن یہ ہے کہ ہم غیروں کو اپنا بنائیں لیکن ہم غلطی سے اپنوں کو غیر بنانے میں ''اوورٹائم ڈیوٹی‘‘ کرنے میں مصروف ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو: ع
اندھیرے میں بھٹک نہ جائے کاررواں اپنا
کراچی میں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ فاروق ستار کا ہے۔ لندن والوں کو گمان ہے کہ یہ ہمارا ہے۔ کراچی والے سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارا ہو گیا ہے‘ جبکہ پنڈی والوں کی سوچ ہے کہ یہ ہمارے ساتھ ہی چلے گا۔ ڈبل ایجنٹ اور کراس ایجنٹ کی اصطلاح تو جاسوسی ناولوں میں بہت پڑھی ہے لیکن انہیں کیا لکھیں یہ کہیں نہیں پڑھا؟... فاروق ستار تنے ہوئے رسے پر چلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فاروق ستار کی سیاست سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس کوشش میں مصروف ہیں کہ انہیں اپنا کردار ادا کرنے کا ایک موقع ضرور دیا جائے... اگر فاروق ستار نے زیادہ دبائو برداشت نہ کرتے ہوئے کوئی غلط فیصلہ کر لیا تو اس کے اثرات صرف کراچی کے لئے ہی نہیں بلکہ پورے ملک کے لئے منفی نکلیں گے۔ پہلے یہ طے کیا جائے کہ فاروق ستار سے کیا کام لینا ہے۔ غیر مسلح‘ چھوٹے قد‘ صلح جو‘ ٹھنڈے مزاج کا سہما ہوا فاروق ستار اگر معمولی غلطی بھی کر گیا تو اس کا نقصان فاروق ستار کو بھی ہو گا‘ اور اُن کی پارٹی بھی اس غلطی کی لپیٹ میں آئے گی۔ وہ اس وقت ''سیاسی پل صراط‘‘ پر چل رہے ہیں۔ پہلے یہ ٹارگٹ بنایا جائے کہ فاروق ستار کس کام آ سکتے ہیں۔ کیا ایم کیو ایم کی ڈوبتی کشتی کو یہ شخص بچا سکتا ہے؟ یا پھر کراچی کو مذہبی جماعتوں‘ فرقہ وارانہ گروپوں اور جہادیوں کے حوالے کر دیا جائے۔ اگر یہ قوتیں یہاں طاقتور بن گئیں تو کراچی میں بھی ''فاٹا‘‘ کی طرز پر آرٹیکل نمبر247 کی طرح آئین میں ترمیم کرکے یہ لکھنا پڑے گا کہ ناظم آباد‘ عزیز آباد‘ فیڈرل بی ایریا‘ گلشن اقبال‘ لیاقت آباد‘ برنس روڈ‘ ٹاور‘ ماڈل کالونی‘ ملیر‘ شاہ فیصل کالونی‘ اورنگی ٹائون‘ قائد آباد‘ بفر زون‘ محمود آباد وغیرہ وغیرہ پاکستان کا حصہ ہیں‘ لیکن آئینِ پاکستان کی شق 247 کی رو سے پاکستان کی عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ کو ان علاقوں میں اختیارِ سماعت حاصل نہیں ہے۔
اس امر کی ضرورت ہے کہ ہم بہت کچھ سوچ سمجھ کر کریں... ایسا نہ کیا جائے کہ کوئی پھر یہاں پر یہ کتاب لکھ دے کہ ''میں نے کراچی ڈوبتے دیکھا‘‘۔