کراچی میں خواجہ اظہار کی گرفتاری اور رہائی کے بعد یہ قانونی بحث چھڑ گئی کہ کیا کسی رکن اسمبلی کو گرفتارکرنے سے قبل اسپیکر کی اجازت ضروری ہے؟ یا پھر گرفتاری کے بعد اسپیکرکو آگاہ کردینا ہی کافی ہے ۔جمعتہ المبارک کے روز کراچی میںجو ڈرامہ ہوا وہ حکومت اور ایم کیو ایم دونوں کیلئے نقصان دہ بھی تھا اور سنسنی خیز بھی!!اس کھینچا تانی میں ایم کیو ایم نے زیادہ فائدہ حاصل کیا ‘اس کی بڑی وجوہات میں ایس ایس پی ملیررائو انوار کی''پبلسٹی ‘‘کی بھوک تھی ‘یا پھر اُنہیں کہیں اورسے یہ سب کچھ کرنے کو کہاگیا ۔جب ایس ایس پی ملیر رائو انوارخواجہ اظہار کو گرفتار کرنے کیلئے ان کی رہائش گاہ پہنچے توانہیں معلوم تھا کہ ایک چھاپے کے بعد میڈیا کا لائو لشکر جائے وقوعہ پر موجودہے اور ایسی صورتحال میں ''کمانڈوایکشن‘‘ان کی ریٹنگ بڑھائے گا ایسا ہوا بھی !!سوشل میڈیا پر ''رائو انوار‘‘ ٹاپ ٹرینڈ بن گیا‘یہ بالکل دہشت گردوں کا طریقہ واردات تھا کہ ایک چھوٹا دھماکہ کرکے میڈیا اور لوگ جمع کئے جائیں اور پھر بڑا بم دھماکہ کردیا جائے۔
جس تیزی ‘ عجلت اور جذبات میں وزیراعلیٰ سندھ نے ردعمل ظاہر کیا اُس کا فائدہ ایم کیو ایم اور رائو انوار کوہوا۔ایک طرف ایم کیو ایم کی جانب سے دیوار سے لگانے کی باتیں سچ لگنے لگیں تو دوسری جانب ایک معطل ایس ایس پی وردی پہن کرٹی وی اسکرین پر آگیا اور پریس کانفرنس بھی کردی۔ جیسے وہ خود اپوزیشن لیڈر ہو‘رائوانوار نے قانونی بات وزیراعلیٰ کو ''باغیانہ لہجے‘‘میں سمجھانے کی کوشش اور پولیس کی نوکری چھوڑنے کی دھمکی ایک ساتھ دی۔ایک رائے یہ ہے کہ اس طرح رائوانوارثابت کرنا چاہتے تھے کہ وہ پاکستان کی سب سے بڑی قوت کے پے رول پر ہیںاور آئندہ بھی پیتل کو سونا بنانے کے کام میںمزید تیز ی لائیں گے‘ بعض حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک بڑی سیاسی شخصیت نے اُن سے یہ کام کروایا( رائو انوار اُس سیاسی شخصیت کے ساتھ دبئی میں ایک عید بھی مناچکے ہیں) تاکہ سندھ کے نئے وزیراعلیٰ کے اختیارات پر سوالیہ نشان لگ جائیں‘ انہیںایک چیلنج کا سامنا کرنا پڑے اوراُن کی سبکی بھی ہو‘کیونکہ موجودہ وزیراعلیٰ اُس اہم شخصیت کی ''چوائس ‘‘ نہیں ہیں۔ وزیراعلیٰ کو وزیرادنیٰ بنانے کی کوشش بھی کی گئی‘ گرفتاری کی اس کارروائی کو اب تک کے کراچی آپریشن پر بھی سب سے بڑا ڈینٹ قرار دیا جارہا ہے ۔ اِس ایک کارروائی سے کئی ایسے فوائد بھی اٹھائے گئے جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ایک غیر سندھی ڈی آئی جی کو صوبہ سندھ سے ہی نکال باہر کیا گیا ‘یہ پیغام بھی دیا گیا کہ وزیراعلیٰ سندھ سب کچھ نہیں۔ان کے پاس پولیس کا مکمل کنٹرول نہیں ‘وہ ایک ایس ایس پی سے بھی مقابلہ نہیں کرسکتے ۔رائو انوار ماضی میں بھی ایا م ِ معطلی کے دوران تمام دفتری اموراپنے ہی دفتر سے انجام دیتے رہے ہیں ۔ان کے ''دیگر ‘‘امور بھی ایسے ہی جار ی رہے جیسے بطور''آن ڈیوٹی‘‘ رہتے ہیں ۔اِس بار بھی ایسا ہی ہوتا نظر آرہا ہے ۔
کراچی میں پولیس کی اتنی بڑی کارروائی پر ایک مزاحیہ اداکار نے تبصرہ کیا کہ ''فوج تو حکومت کا کنٹرول سنبھالنے آتی رہتی ہے اب پولیس کو بھی آنا چاہئیے‘جب ایک پولیس افسر پریس کانفرنس کرسکتا ہے تو ایک صوبے کی قوم سے خطاب بھی کرسکتا ہے رائو انوار کی پریس کانفرنس کے دوران نعرے بھی لگتے رہے اور یہ گماں بھی ہو رہا تھا کہ کوئی سیاسی لیڈر خطاب کررہا ہے ''ٹی وی ٹاک شوز کوچند
دن کا ''چارا‘‘بھی مل گیا ہے اوراب اس ''کمانڈو ایکشن‘‘کے پیچھے چھپے ہاتھ کو تلاش کیا جاتا رہے گا۔اینکرحضرات بھی سڑ دھڑ کی بازی لگادیں گے‘اس وقت کراچی میں سب سے بڑا سوال کیا جارہا ہے کہ کسی کو بھی اس گرفتاری کا علم کیوں نہیں تھا؟ـجب خواجہ اظہار کے گھر پرپہلا چھاپہ مارا گیا تو وہ اُس وقت وزیراعلیٰ سندھ مرادعلی شاہ کے ساتھ اجلاس میں شریک تھے۔اسپیکر سندھ اسمبلی بھی لاعلم تھے جب پوچھا گیا توانہوں نے کہا کہ ''یہ کوئی مذاق نہیں کہ اپوزیشن لیڈر کومیری اجازت کے بغیر گرفتار کیا جائے‘‘۔آئی جی سندھ کوبھی اس گرفتاری پر اعتماد میں نہیں لیا گیا ۔سندھ کے سب ''بڑے ‘‘حیران تھے کہ اتنی بڑی کارروائی کس کے کہنے پر ہوگئی ؟
عام شہریوں میں اِس گرفتاری سے یہ تاثر ابھراکہ شاید یہ کارروائی بھی ایم کیو ایم کے ساتھ زیادتیوں کی ایک کڑی ہے اور ریاستی قوتیں ایم کیو ایم کو واقعی کچلنا چاہتی ہیں۔اس گرفتاری میں ایک غیر معمولی بات یہ تھی کہ وزیراعلیٰ کو یاد دلایا گیا کہ رکن اسمبلی کی گرفتاری کے لئے اسپیکر کی اجازت ضروری ہوتی ہے ‘لیکن سوال یہ ہے کہ اُس وقت جب لانڈھی سے ایم کیو ایم کے رکن قومی اسمبلی آصف حسنین کو گرفتار کیا گیاتب اس کی اجازت کس سے لی گئی؟ اُس وقت توایسا کوئی بیان نہیں دیا گیاجب رینجرز نے کراچی پریس کلب کے سامنے ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈرڈاکٹر فاروق ستار اور انہی خواجہ اظہار الحسن کو گرفتار کیا تو اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق اوراسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی سے کوئی اجازت نہیں لی گئی۔ یہ قانون اِن گرفتاریوں پر کیوں یاد نہیں آیا؟لگتا ہے حکمران آنے والے ''موسم‘‘سے گھبرائے ہوئے ہیںاور اپنے بچائو کیلئے اسپیکر کو ڈھال کے طور پر آگے کررہے ہیں‘جو نہ صرف ان کے ''یس سر مین‘‘ہیں بلکہ اُن کوریفرنس سے بچانے کا ماہر سمجھا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکمرانوں نے اپنی ''حدود‘‘ طے کرلی ہیں کہ وہ صرف پولیس کی کارروائی کے خلاف ہی بولیںگے ۔اِس سے آگے اُن کے ''پر‘‘جل جائیں گے اور ویسے بھی اپنے فائدے کے موقع پر بولنا ہمارے ملک میں عام چلن ہے۔
ایک ایس ایس پی نے وزیراعلیٰ کی طاقت کو چیلنج کیاہے ‘دیکھنا ہے کہ وزیراعلیٰ اپنے'' مسلز‘‘دکھاتے ہیں یاوہ بھی سابق بزرگ وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کی طرح بعض پولیس افسران ‘سیکریٹریز اور دیگر بیوروکریٹس کے معاملات میں خاموش رہنے کو ہی عافیت جانیں گے۔