"ISC" (space) message & send to 7575

اسلام آباد‘راولپنڈی اورایم کیو ایم!!

ایم کیو ایم پاکستان کی مشکلات جاری و ساری ہیں۔فاروق ستار نے استعفوں کی دھمکی دے دی ہے جو ایم کیو ایم لندن کا مطالبہ بھی ہے ‘لیکن فاروق ستار نے شکووں سے پُردھمکی اسٹیبلشمنٹ اورحکومت کو دی ہے‘کیونکہ ابھی تک ایم کیو ایم پاکستان کو زندہ باد کے نعرے کے بعد بھی کو ئی ''ریلیف‘‘نہیں ملا ۔لندن اور کراچی کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی بھی کراچی اور راولپنڈی کے درمیان فاصلے کم نہ کرسکی‘ فاروق ستار نے وزیراعظم نواز شریف اور وزیرداخلہ چوہدری نثار سے شکوہ بھی کیا کہ گرمجوشی سے ملنا کافی نہیں‘ عملی اقدامات کی ضرورت سب سے زیادہ ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کو اس وقت حکومت کی سپورٹ کی ضرورت ہے ۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ایم کیو ایم لندن کی حمایت آہستہ آہستہ بڑھ سکتی ہے اور اس کی ذمہ داری وزیراعظم اور اسٹیبلشمنٹ پر ہوگی ۔عالم اسلام کا سب سے بڑا شہر کراچی اس وقت غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے۔کچھ نہیں پتہ کب کس کو کہاں سے کیسے گرفتار کرلیا جائے ۔ کراچی کے ووٹرزبھی ''کنفیوزڈ‘‘ ہیں۔ راتوں رات وال چاکنگ ہوجاتی ہے اور مینڈیٹ کی امانت واپس کرنے کے نعرے لکھے جاتے ہیں ۔ایسی صورتحال میں فاروق ستار کی ہمت کو داد نہ دینا زیادتی ہوگی۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ساکت پانی میں پہلا پتھر پھینک کر ارتعاش کا عمل شروع کردیا ہے۔ ان کا یہ بیان کہ ''انکل الطاف کو غدار نہیں سمجھتا‘‘کئی حلقوں کو حیران کرگیا 
ہے۔ بیان کے ماسٹر مائنڈ کی تلاش جاری ہے ۔اِسے بلاول کا بیان نہیں سمجھا جارہا۔ اسلام آباد کے حلقے تو اس بیان کو اینٹ سے اینٹ بجانے کا پارٹ ٹو قرار دے رہے ہیں ‘یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اس بیان کا اصل مقصد کچھ اور ہے ۔پرائم ٹائم کے ٹی وی اینکرز ابھی اسلام آباد بند کرنے یا نہ کرنے کے معاملے میں الجھے ہوئے ہیں اس لئے بلاول کے بیان کوتاحال اپنے شوز کی زینت نہیں بنایا گیا۔ لیکن یہ بیان کچھ حلقوں کو بہت ناگوارگزرا ہے ۔ آنے والا وقت کئی اہم فیصلے اپنی گرفت میں لئے ہوئے ہے۔ پاکستان کوایک ہی وقت میں کئی محاذوں کا سامنا ہے۔بھارتی جنگی جنون ابھی کم نہیں ہوا۔اسلام آباد اور راولپنڈی میں دوریاں بھی برقرار ہیں ۔وفاقی دارالحکومت بند کرنے کے منصوبے بن رہے ہیں‘ٹیمیں تیار کرلی گئی ہیں۔آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ بھی قریب آرہی ہے ۔
کراچی کے علاقے عزیز آبادکے ایک سو بیس گز کے مکان سے اتنا اسلحہ مل گیا کہ کراچی والے بھی حیران اور پریشان ہیں۔کراچی پولیس نے پہلے پانی کا ٹینک بتایا پھر بنکربتایا‘غرض کہ سوشل میڈیا پر بھی اسلحہ کی بھاری مقدار پر مزاحیہ تبصرے کئے جارہے ہیں ۔کسی نے لکھا ''جتنا اسلحہ ایم کیو ایم کی بدولت ہم کو ملا ہے اتنا تو شاید 70 سالوں میں امریکہ سے بھی نہ ملا ہو‘کسی نے پوسٹ کیا''کراچی میں ٹنکیوں سے اسلحہ تو برآمد ہو سکتا ہے لیکن پانی نہیں‘‘۔کسی نے یہ بھی ٹویٹ کردیا کہ ''عزیزآباد کو تھوڑا سا اور کھو دیں تو شاید یہاں سے روس کے چوری شدہ ایٹم بم اور ایئر کرافٹ بھی مل جائیں گے‘‘۔کوئی دل جلا یہ تبصرہ بھی ٹویٹ کرگیا کہ''معجزے اب بھی ہوتے ہیں، تقریباً چار بٹالین کا اسلحہ عزیزآباد کے ایک چھوٹے سے گھر کی چھوٹی سی ٹنکی سے برآمد ہو جانا کیا کسی معجزے سے کم ہے؟‘‘ ۔ساڑھے چارسو مربع میل پر پھیلے شہر قائد میں ایسے کتنے مکان اسلحے سے بھرے ہوئے ہیں‘ یہ ایک سنجیدہ سوال ہے ؟
یہ سمجھ نہیں آرہا کہ اسلام آباد اور راولپنڈی ایم کیو ایم کو ختم کرنا چاہتے ہیں ‘یا رکھنا چاہتے ہیں ۔ایم کیو ایم بڑی طاقت بن چکی ہے اور اگر یہ طاقت کسی غلط اقدام کے نتیجے میں بکھر گئی اور اس کا مرکز ختم ہوگیا تو سندھ میں طاقت کا توازن ٹوٹ جائے گا ۔ پاکستان کا جمہوری نظام ہر دس سے پندرہ سال بعد ناکام ہوجاتا ہے ۔مارشل لا ء ایسے آتا ہے جیسے بارات آرہی ہو ۔آئین روز بروز غیر موثر ہوتا جارہا ہے ۔جب تک درست مردم شماری نہیں ہو گی منصفانہ حلقہ بندیاں نہیں کی جائیں گی صوبوں کی ازسر نو تقسیم نہیں ہو گی پاکستان اسی طرح مسائل کی آماجگاہ بنا رہے گا۔ ہم کنویں میں سے پانی کی بالٹیاںتو بھر بھر کرنکال رہے ہیں لیکن مردہ کتا کنویں میں ہی موجود ہے ۔
ایم کیو ایم کو شکست دینا کوئی بڑا مسئلہ نہیں لیکن ایم کیو ایم کو صرف سیاسی عمل کے ذریعے ہی ہرایا جاسکتا ہے۔ تان سین نے کہا تھا کہ'' مجھے مارنا ہے تومیرے مقابلے کا کوئی اچھا فن کار لے آئوجب وہ آجائے گا توتان سین خودہی مرجائے گا‘‘۔
بلوچستان میں خصوصی معاشی پیکج دیئے گئے لیکن کراچی کے بلدیاتی بجٹ بھی روک لئے گئے۔ کراچی میں تو کچرا اٹھانے والی گاڑیاں خود کچرا بن گئی ہیں ۔گوادر پورٹ ٹرسٹ کا سربراہ وزیراعلیٰ بلوچستان ہو اور کراچی پورٹ ٹرسٹ کا سربراہ کوئی ریٹائرڈ ایڈمرل تو سوالات کاجنم لینا فطری عمل ہے ۔یوں تو ملک میں ہرمعاملے پر'' ڈنڈی ‘‘ماری جاتی ہے لیکن کراچی کانام آجائے تو ''ڈنڈا‘‘مارا جاتا ہے ۔آج اگر حبیب جالب زندہ ہوتے تو کراچی کا ایسا نوحہ لکھتے کہ زمین غم میں سسکتی اور آسمان خون کے آنسو روتا۔سمندر بھی شکوہ کرتا کہ میرے کنارے پر یہ 
کون سا شہر ہے جس کے ساتھ سوتیلے سے بدترسلوک کیا جارہا ہے ۔کراچی وہ شہر ہے جس نے پاکستان کو معاشی طور پرچلنا پھرنا سکھایا'' باپ‘‘ جیسا کردار ادا کرنے والے شہر کے ساتھ ''بیٹے‘‘وہی کررہے ہیں جو آج کل کے بیٹے باپ کے ساتھ کرتے ہیں۔کراچی کے احسانات کا بدلہ اس طرح چکایا گیا کہ اس کے تما م محکمے اور دفاتر چھین کر اسلام آباد منتقل کردیئے گئے اور اب مرے کو مارے شاہ ِ مدار کے مصداق سٹیٹ بینک کے چار اہم محکموں کی لاہور نقل مکانی کرائی جارہی ہے ۔دراصل کراچی کے باشندوں کو یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ ہم اس شہر سے نوکری اور آمدنی کے تمام ذرائع چھین لیں گے ۔اور''منی پاکستان‘‘کو ''منی کراچی ‘‘بنادیاجائے گا۔ایم کیو ایم بھی اسی طرز عمل کا شکار ہے صرف منصفانہ تقسیم اور ''چاروں بھائیوں‘‘میں مساویانہ سلوک ہی ملک کو مضبوط کرسکتا ہے ۔اور ہم ایک طاقتورقوم کی حیثیت سے ابھر سکتے ہیں ۔مشرقی پاکستان کے معاملات میں ہمارے بعض حکام نے بہت اکڑدکھائی تھی ۔مجیب الرحمن کو ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس نہیں بلانے دیا گیا ۔ہمارے ایک لیڈر نے پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سینہ پھلاکر کہا تھا کہ ''ڈھاکہ جانے والوں کی ٹانگیں توڑدیں گے جو ڈھاکہ جائے ون وے ٹکٹ لے کرجائے ‘‘۔یہ وہ سوچ ہے جس سے ملک کمزور ہوکر ٹوٹ جاتے ہیں اور قومیں بکھر کر تباہ ہوجاتی ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی سوچ رکھنے والوں سے محفوظ فرمائے (آمین)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں