متحدہ قومی موومنٹ پاکستان ‘ مہاجر قومی موومنٹ‘ پاک سرزمین پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ لندن ایک ہی پارٹی کے چار نام ہیں۔ بیشتر لاتعلقی والے ہیں۔ بعض ضمیر والے ہیں۔ چند قائد والے ہیں اور کچھ اصولوں والے ہیں۔ ان سب کا دعویٰ ہے کہ مہاجر قوم ان کے ساتھ ہے، جس کی حقیقت جانچنے کا ایک ہی پیمانہ انتخابات ہیں جو ابھی کم از کم ایک سال دور ہیں۔ ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا ہے کہ ''سندھ کی تقسیم کی کوشش ناکام بنائیں گے‘‘ لیکن وہ ایم کیو ایم کو تقسیم کرنے کی کوشش ناکام کیوں نہیں بنا رہے۔ مہاجر ووٹر کو ایک سمت اور راستہ فراہم کرنے کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش کیوں نہیں کر رہے؟ ان کا مصطفی کمال اور آفاق احمد سے کیا اختلاف ہے؟ آفاق احمد اور مصطفی کمال ''مائنس ون‘‘ کی بات کرتے رہے ہیں اور حالات بتاتے ہیں کہ اس وقت ''مائنس ون‘‘ ہوگیا ہے، یہ اور بات ہے کہ اعتماد کا فقدان ہونے کے باعث کوئی موثر ''گارنٹی‘‘ موجود نہیں ہے۔ فاروق ستار اینڈ کمپنی نے بعض ایسے اقدامات ضرور کیے ہیں جن سے ''مائنس‘‘ کا عمل ثابت ہو رہا ہے لیکن مصطفی کمال صاحب کو ایسے اقدامات بآسانی نظر نہیں آ رہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار صاحب بڑے ہیں، ان کو پہل کرتے ہوئے ''مہاجر لیڈرز‘‘ کو قریب لانا چاہیے،جس کے لئے ابتدائی طور پر ایسے بیانات دیے جائیں کہ بات چیت کی فضاپیدا ہو۔ میئر کراچی وسیم اخترکے رویے میں نرمی قابل ستائش ہے؛ حالانکہ جو لوگ وسیم اختر صاحب کو جانتے ہیں وہ حیران ہیں کہ اتنے سخت مزاج شخص میں اتنی بڑی تبدیلی کیسے آئی ہے۔کیا یہ جیل کی ''تربیت‘‘ ہے یا پھر ان کے ارد گرد موجود لوگ ان کی زبان کو ''پھسلنے‘‘ نہیں دے رہے۔
میئر کراچی کے 100روزہ صفائی پلان کوبھی سراہا جارہا ہے لیکن سوا تین مہینے کا عرصہ گزرنے میں وقت نہیں لگتا۔ صوبائی وزیر بلدیات جام خان شورو سے جب فنڈز کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو وہ پچاس کروڑ روپے کا تذکرہ کرکے ''گھوسٹ ملازمین‘‘ کے خلاف آپریشن کا مشورہ دے دیتے ہیں، یعنی نہ نومن تیل ہوگا اور نہ رادھا کو ناچنے کا موقع ملے گا۔
پاک سر زمین پارٹی حیدرآباد میں جلسے کی بھر پور تیاریوں میں مصروف ہے لیکن مصطفی کمال صاحب بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے فاروق ستار سے ہاتھ ملانے کو تیار نہیں؛ حالانکہ مستقبل میں ایسا ہی ہوگا۔ لیکن جتنا وقت ضائع ہوگا نقصان مہاجر قوم کا ہی ہوگا۔ مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کو بھی دل بڑا کرتے ہوئے مہاجر قوم کو تقسیم در تقسیم کے عمل سے روکنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ اس وقت ہرگروپ اپنی طاقت دکھانے میں پوری قوت صر ف کر رہا ہے۔
جلسوں کا مقابلہ ہو رہا ہے۔ شرکاء کی گنتی کی جا رہی ہے۔ ریلیوں میں شریک گاڑیوں کے اندازے لگائے جا رہے ہیں، لیکن کوئی بھی ''عوامی طاقت‘‘ کو متحد کرنے کے لئے کام نہیں کر رہا جو کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں کے مستقبل کو تاریک بنا سکتا ہے۔ شہری علاقوں کے ووٹ تقسیم ہونے کا فائدہ بالواسطہ یا بلا واسطہ مذہبی گروپوں کو ہوگا۔ جھنگ کے ایک صوبائی حلقے کے نتائج سب کے سامنے ہیں، جہاں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ یہی صورتحال اب آہستہ آہستہ شہروں کی طرف آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ پاکستان کے عوام کی مدارس سے جذباتی وابستگی ضرورہے ۔ ہر گھر سے کئی بچے دینی تعلیم مدارس میں ہی حاصل کرتے ہیں۔ معلم کے لئے گھر کا کھانا اور مٹھائی وغیرہ بھی بھیجی جاتی ہے۔ انہیں انتہائی معتبر سمجھا جاتا ہے اور آنے والے کل کو ووٹ بھی ''مدارس‘‘ کو مل سکتا ہے، جس کی ذمہ داری سیاسی جماعتوں کی ناکام پالیسیوں اور مختلف سیاسی گروپوں کے اختلافات پر ہی عائدہوگی۔ اس وقت کراچی میں سب سے بڑی بحث یہی چل رہی ہے کہ اردو بولنے والوں کی طاقت بکھر گئی اور یہ بند مٹھی کھل گئی تو پھر کیا ہوگا؟ کیا اردو بولنے والے اسی قوت و شدت کے ساتھ اپنے مطالبات کی بات کرسکیں گے یا انہیں خاموش رہنا پڑے گا اور بے بسی کی زندگی گزارنی پڑے گی۔ کراچی میں مہاجر قوت اِس شدت کے ساتھ اُبھری تھی کہ ملک بھر کے عوام حیران رہ گئے تھے اور ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی آتش فشاں پھٹ پڑا ہے، لیکن اس آتش فشاں کے بڑھتے ہوئے شعلے اردو بولنے والوں کو کچھ بھی نہ دے سکے اور وہ خاموش رہے اور اب ان کے لیڈر بھی خاموش ہیں، یعنی جن پہ تکیہ تھا وہی پتے اب سردیوں میں بھی ہوا دے رہے ہیں۔ اردو بولنے والوں کی طاقت سندھ میں ایک سیاسی توازن کو برقرار رکھتی تھی لیکن اب جس طرح آہستہ آہستہ مہاجر قوم ٹوٹ رہی ہے اور سیاست سے لاتعلق ہو رہی ہے اسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ آئندہ الیکشن کا نتیجہ وہ نہیں آئے گا جس کی توقع کی جارہی ہے، لیکن ہو سکتا ہے کہ اس ٹوٹ پھوٹ کا نتیجہ یہ بھی نکلے کہ اردو بولنے والے تمام ووٹ غصے میں کوئی ایسا فیصلہ کرلیں کہ اس سے اگلے پچھلے ریکارڈ بھی ٹوٹ جائیں کیونکہ مہاجروں کی فطرت یہی ہے کہ وہ ہمیشہ غیر متوقع فیصلے کرتے اورحیران کن نتائج دیتے ہیں۔ مہاجر طاقت کو منظم ہونے میں تیس سال لگے ہیں، اب اسے بکھرنے میں کتنے سال لگیں گے، اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے ۔ لیکن یہ بھی لگتا ہے کہ کراچی میں نئی سیاسی صف بندی ہونے کو ہے۔کراچی کے ایک ریٹائرڈ اور علیل سیاستدان سے پوچھا گیا کہ ''مہاجروں کی قوت میں جو ٹوٹ پھوٹ ہوئی اس سے کتنا نقصان ہوگا؟‘‘ تو انہوں نے جواب میں سوال کیا کہ ''پہلے تو یہ بتلائیے کہ فائدہ کتنا ہو رہا تھا ؟‘‘ انہیں جب یہ بتایا گیا فائدہ تو کوئی بھی نہیں ہو رہا تھا توانہوں نے جواب دیاکہ ''پھر نقصان بھی نہیں ہوگا کیونکہ نقصان اس وقت ہوتا ہے جب کوئی فائدہ بند ہوجائے، اسی کو نقصان کہتے ہیں‘‘۔
کراچی کی سیاسی صورتحال کا جائزہ لیا جائے کہ اس تقسیم سے کراچی کو کتنا نقصان ہوا ہے توصاف نظر آتا ہے کہ ایم کیو ایم ٹوٹی ضرورہے، تقسیم بھی ہوئی ہے، عوام ان سے ناراض بھی ہیں، ووٹر دور بھی ہوئے ہیں، لیکن کسی اور سیاسی جماعت نے جڑ نہیں پکڑی۔ جس پارٹی میں جتنے بوڑھے اور جوان تھے ان کی تعداد نہ گھٹی ہے اور نہ بڑھی ہے ۔کراچی کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے تمام مسائل سیاسی ہیں اور اسے مذہبی نعروں کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ کسی بھوکے کوروٹی‘ قورمہ‘ بریانی‘ برگر اور پیزا کی تصاویر دکھائی جائیں اور کہا جائے ''یہ لو ! اپنا پیٹ بھرلو‘‘۔ کراچی کے بڑھتے ہوئے مسائل پاکستان کے معاشی مسائل کو جنم دے رہے ہیں۔ طاہر القادری صاحب کینیڈا سے ایسی کونسی دور بین لے کر آئے تھے کہ انہیں کراچی اجڑتا ہوا نظر آ گیا اور انہوں نے کراچی آمد کے چند گھنٹے بعد ہی نشتر پارک کے جلسہ عام میں ببانگ دہل کہا کہ ''کراچی اُجڑا تو پورا پاکستان اُجڑ جائے گا۔ پاکستان کو پالنے والے شہر کو عرصہ دراز سے کاٹا جا رہا ہے اورظلم یہ ہے کہ ذمہ داران کا تعین تک نہیں کیا جاسکا‘‘۔ کیا ہمارے ملک کے قومی سیاستدانوں میں طاہر القادری کے ہم پلہ شعور و دانش ہے یا پھر اس کی کمی ہے۔کراچی کے مسئلے کو فوری حل کرنے کی ضرورت ہے۔کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ مردم شمادی میں ماری جانے والی ''ڈنڈی‘‘ نہیں بلکہ ''ڈنڈا‘‘ ہے۔ کراچی ڈھائی کروڑ کی آبادی کا شہر ہے لیکن بدقسمتی سے اسے سوا کروڑ کی آبادی کے مساوی اسمبلیوں کی نمائندگی دی جا رہی ہے۔ قومی وسائل کی تقسیم میں بھی آبادی کے تناسب سے حصہ نہیں مل رہا۔ یہ ایسی ہی بات ہے کہ ٹی بی کے مریض کو دوا اور علاج کے بجائے ایک گھونسا مار کر کہا جائے کہ اب اگر بیماری کا نام لیا تو بتیسی نکال دی جائے گی۔ تین سو سال پرانا شہرکراچی اپنی بتیسی بچانے کے لئے خاموش ہے ‘ چپ ہے اور اس بات کا انتظار کر رہا ہے کہ اہل ِوطن اس کے دکھ اور کرب کو کب محسوس کرتے ہیں۔ یا پھر ہمیشہ کے لئے نظر انداز کرنے کا ''فارمولہ‘‘ اپناتے ہوئے مشرقی پاکستان بنا دیتے ہیں۔ سولہ دسمبر بھی دور نہیں، ڈیڑھ ہفتے کی بات ہے۔ ہمیں سبق سیکھنا ہے یا سبق بھولنا ہے۔ تاریخ کا پہیہ تیزی سے گھوم رہا ہے، ہمیں حادثات سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔