"ISC" (space) message & send to 7575

ایم کیو ایم لندن کی ’’انٹری‘‘

ایم کیو ایم لند ن نے کراچی میں ''فل پاور شو‘‘کرکے متحدہ پاکستان سمیت سب کو حیران کردیا 22اگست اور9دسمبر کے درمیان کے عرصے میںکیا کچھ ہوا ؟یہ بھی سب کے سامنے ہے لیکن جو کچھ جمعتہ المبارک کو ہوا اس نے کراچی کی سیاست میں پھر ہلچل مچادی کسی قیادت اور لیڈر کے بغیر نائن زیرو(کراچی )اور پکا قلعہ (حیدرآباد)میں کارکنوں کی جتنی بڑی تعداد نکل آئی اس نے انتظامیہ ‘ رینجرز‘پولیس اور ایم کیو ایم پاکستان سمیت پورے ملک کو انگشت بدنداں کردیا ۔معاملہ اس وقت شروع ہوا جب نماز جمعہ کے بعدایم کیو ایم لندن کے کارکن یوم شہداء منانے لیاقت علی خان چوک(مکا چوک) پہنچے تو رینجرز نے انہیں یادگارِ شہداء جانے سے روک دیا اورمکا چوک پرکشیدگی شروع ہوگئی‘ایسی ہی صورتحال حیدرآباد پکا قلعہ میں پیش آئی جہاں فائرنگ اور شیلنگ بھی کرنا پڑی ۔
کراچی اور حیدرآباد میں ایم کیو ایم لندن کی یہ ''انٹری ‘‘ایک ''خاموش پیغام‘‘ہے جس کا سب سے زیادہ نقصان ایم کیو ایم پاکستان کو ہوسکتاہے۔دوہفتے قبل جب ڈاکٹر فاروق ستار نو منتخب میئر وسیم اختر کو جلوس کی شکل میں یادگار ِشہداء کی جانب لے جارہے تھے تو انہیں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور سب سے زیادہ حیران کن بات یہ تھی کہ فاروق ستار کے ساتھ جانے والے کارکن جب نائن زیرو پر پہنچے تو انہوں نے ''لندن والے‘‘نعرے لگانا شروع کردیئے جس پر ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت بھی پریشان ضرور ہوگئی تھی ۔انہیں یادگارِ شہداء جانے نہیں دیا گیا اور وہ ''خالی ہاتھ ‘‘واپس آنے پر مجبور ہوگئے تھے ۔ 
یہ سب کچھ کیوں اور کیسے ہوا؟اس کے کئی اسباب سامنے آرہے ہیں ۔کراچی آپریشن کی کمان کی تبدیلی بھی ایک وجہ بتائی جاتی ہے ۔ کورکمانڈر کراچی نوید مختار پروموٹ ہوکرچلے گئے ۔اب ڈی جی رینجرز بلال اکبر بھی لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی پاکر تھری سٹار ہوچکے ہیں ۔ قائم علی شاہ اور عشرت العباد بھی پہلے ہی جاچکے ہیں۔کراچی آپریشن کے تمام پرانے چہرے تبدیل ہوچکے ہیں ۔ شاید اس لئے رینجرز بھی کسی نئی پالیسی کی منتظر ہے اور اس صورتحال کا فائدہ ایم کیو ایم لندن نے اٹھانے کی کوشش کی ۔
کراچی کا ایک طبقہ اس کا ایک سبب یہ بھی بتاتا ہے کہ ایم کیوایم پاکستان کے کنوینر فارو ق ستار اس وقت کراچی کے سب سے طاقتور لیڈر تو بن گئے ہیں لیکن ان کی رائے عامہ کے مختلف حلقوں تک رسائی نہیں ہے ‘نامعلوم کیوںاُن میں اتنا اعتماد ہی نہیں جو ان کے پائے کے لیڈروں میں ہونا چاہیے ۔انہوں نے اب تک اخباری ایڈیٹرز سے اجتماعی اور انفرادی ملاقاتیں تک نہیں کیں۔اس ملک کی روایتی سیاست میں پرواز کرنے کیلئے جو پنکھ لگائے جاتے ہیں اور جس طرح کی بلند پرواز کرنی ہوتی ہے وہ انہوں نے ابھی تک ''سٹارٹ‘‘ہی نہیں کی ۔کراچی کے ادیب اور شعراء فاروق ستار کو قریب سے بلکہ بہت قریب سے دیکھنا چاہتے ہیں لیکن وہ اپنے گھر کے ''قید خانے‘‘میں بند ہیں اور جس آنگن میں وہ بچپن میں کھیلتے تھے آج بھی وہیں ''دستیاب ‘‘ہیں۔
ایم کیو ایم کی بدقسمتی دیکھئے جو بولتا ہے اس پر پابندی ہے اور جونہیں بولتا وہ لیڈر بن جاتاہے۔دوسری جماعت کے لیڈران کو بہت کچھ کرنا پڑتا ہے کہیں وہ تعزیت کررہا ہوتا ہے تو کہیں عیادت کبھی وہ دوسروں کی خوشی میں خوش ہوتا ہے تو کبھی دوسروں کے غم میں دکھی ‘کبھی وہ جلسے میں دھاڑ تے ہوئے خطاب کرتا ہے تو کبھی برابر میں بیٹھے دوسرے لیڈر سے سرگوشی لیکن فاروق ستار کا اندازِ سیاست بانی ایم کیو ایم کے دور کا ہے ۔ملنے جلنے اورسوچ بچار پر پابندی ہے ‘نمبر ون اور نمبر ٹولیڈرشپ کے بیانات پر پابندی ہے ‘ لیڈروں اور ارکان اسمبلی کی تنہا پرواز پر پابندی ہے ۔تقریر کرنے اور چند اشعار پڑھنے کا نام لیڈر شپ نہیں ہوتا لیڈر تو علم ودانش کی آبشار ہوتا ہے ‘قوموں میں زندگی کی رمق پیدا کرتا ہے اور اپنے چاہنے والوں کو یا تو منز ل تک پہنچاتا ہے یا پھر راستہ ضرور دکھاتا ہے ۔فاروق ستار مولانا فضل الرحمن سے تین ‘چار گنا بڑے لیڈر ہیں لیکن خود اعتمادی میں ان سے آدھے بھی نہیںہیں ‘ وہ بلندگدی پر تو بیٹھ گئے ہیں لیکن وہاں بیٹھ کر جو کام کرنا ہوتا ہے وہ ایک بھی نہیں کررہے ...ان کے پاس کوئی تھنک ٹینک نہیں جو انہیں رہنمائی اور گائیڈ لائن دے سکے ۔انہیں یہ معلوم ہی نہیں کہ اہلیان ِ کراچی کے مسائل کی بنیاد کیا ہے؟وہ ببانگ ِدہل کہتے ہیں کہ میں سندھ کو تقسیم نہیں ہونے دونگا ۔یہ مثبت سوچ ہے لیکن اس سے اردو بولنے والے طبقے کو کیا فائدہ ہوگایہ نہیں بتاتے۔ایم کیو ایم کا مردم شماری کے بارے میں کیا نقطہ نظر ہے مردم شماری کے ذریعے کراچی کی کس طرح حق تلفی کی گئی ‘کراچی کی ''گردن‘‘کس نے اور کیوں کاٹی؟کیا فاروق ستار صاحب اپنے ووٹرز اور عقیدت مندوں کو یہ بتانا گوارا کریں گے کہ دوکروڑ 35لاکھ کی آبادی والے شہر کراچی کی صوبائی اسمبلی میں 42نشستیں ہیں اور خیبر پختونخواکی دوکروڑ 20لاکھ آبادی کیلئے 124نشستیں کیوں ہیں؟کہہ دیا جائے گا کہ یہ تو صوبائی اسمبلی کا معاملہ ہے تو پھر یہ بتادیں کہ دوکروڑ 35لاکھ کی آبادی والے کراچی کیلئے قومی اسمبلی کی 20اور اس سے کم آبادی والے خیبر پختونخواکو قومی اسمبلی میں43نشستیں کیوں دی گئی ہیںاگر کوئی انصاف کرنے والا نہیں تو کیاانصاف مانگنے والا بھی سورہا ہے؟یہ صرف ایک مثال ہے اس قسم کے سیکڑوں مسائل کراچی کو دبوچے ہوئے ہیں‘ہم یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ٹی وی اینکرز کراچی کے مسائل پیش نہیں کررہے لیکن فاروق ستار صاحب پر بھی کوئی ذمہ داری ہے یا نہیں؟
فاروق ستار جس حال میں ہیں ‘جس پوزیشن میں ہیں اورجتنے مسائل کا سامنا کررہے ہیں ایسی صورتحال میں ہم اُن پر کوئی تنقید نہیں کررہے لیکن یہ سوال تو کرسکتے ہیں کہ اگر آپ توجہ نہیں دیں گے تو مسائل کون حل کرے گا ؟کیا آپ کے خیال میں یہ مسئلہ ''آٹومیٹک سسٹم ‘‘کے تحت حل ہوجائے گا ؟۔ مسائل کے حل کیلئے کراچی میں اقتدار کا تاج پہننے والی آپ کی پیش رو سیاسی جماعتوں نے بھی توجہ نہیں دی تھی ان کا حشر بھی دیکھ لیجئے۔ضمانتیں اسی لئے تو ضبط ہوتی ہیں کہ پہلے لیڈر منہ موڑتا ہے اور پھر ووٹر منہ موڑلیتا ہے ۔کراچی کے لوگ بہت دکھی اور زخمی ہیں یہ ''آخری چانس‘‘ہے کہ وہ آپ کی طرف محبت بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں ان کے مسائل کو اپنی پارٹی کامنشور بنالیجئے ورنہ ہرگلی سے بغیر لیڈر کے ہجوم نکل کر آپ کی صفوں کو تتر بتر کرتے رہیں گے۔اور آپ کے حامی آپ کی تقریریں سن کر تالیاں بجاتے رہیں گے ۔وقت گزر جائے گا آپ کی اتنی بڑی طاقت بکھر جائے گی اور آپ کے'' نامہ اعمال ‘‘میں گرفتاریوں اور شہداء کے ناموں کے سواکچھ نہیں ہوگا۔سیاست میں تو لوگ مسائل کے حل کیلئے آتے ہیں اور ووٹر بہت بے وفا ہوتا ہے جب مایوس ہوتا ہے تو پارٹی بدل لیتا ہے اور منہ بھی پھیر لیتا ہے اورلیڈر بے چارہ اکیلا رہ جاتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں