''آپ ہر معاملے میں مداخلت کر رہے ہیں... ہمیں تنگ کرنے کی کوشش کی گئی تو اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے... پیپلز پارٹی کھڑی ہو گئی تو فاٹا سے کراچی تک ملک بند ہو گا... یہ مت سمجھنا ہمیں جنگ کرنا نہیں آتی... ہم جنگ کرنا جانتے ہیں... آپ کو صرف تین سال رہنا ہے ہم ہمیشہ رہیں گے‘‘۔ یہ دھمکیاں شریک چیئرمین پیپلز پارٹی آصف زرداری نے آج سے تقریباً ڈیڑھ سال قبل 6 جون 2015ء کو فاٹا میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دی تھیں‘ جس کے بعد سے وہ بیرونِ ملک مقیم ہیں۔ اینٹیں انتظار کرتی رہیں کہ انہیں بجانے والا خود کہاں چلا گیا؟ پھر جب عسکری قیادت تبدیل ہوگئی‘ آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل رضوان اختر چلے گئے تو آصف زرداری کو ہمت ملی‘ حوصلہ بڑھا اور انہوں نے بلاول کے ذریعے 23 دسمبر کو وطن واپسی کا اعلان کرا دیا۔ سندھ بھر میں پوسٹرز اور بینرز لگ رہے ہیں اور آصف زرداری کے شاندار استقبال کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔
پیپلز پارٹی میں موجود ایک طبقہ آصف زرداری کی وطن واپسی کے خلاف ہے۔ ان کا موقف ہے کہ آصف زرداری کے آنے سے بلاول کا کیریئر خطرے میں پڑ سکتا ہے کیونکہ بلاول کی ''لانچنگ‘‘ اور ''ری لانچنگ‘‘ انتہائی بھونڈے انداز میںکی گئی۔ رہی سہی کسر آصف زرداری کی سیاست میں ''ری انٹری‘‘ سے پوری ہو جائے گی۔ اس حلقے کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک ''نیام‘‘ میں دو ''تلواریں‘‘ کیسے ر ہ سکتی ہیں؟ آصف زرداری کے دور کی ''تلخ یادیں‘‘ ابھی عوام کے ذہنوں میں موجود ہیں‘ گو کہ پاناما لیکس سکینڈل کے بعد ماضی کے سکینڈل چھوٹے لگتے ہیں‘ لیکن احتیاط ضروری ہے جبکہ پیپلز پارٹی کا دوسرا طبقہ آصف زرداری کے بغیر پیپلز پارٹی کو ادھورا سمجھتا ہے۔ وہ آصف زرداری کو زیرک سیاستدان مانتے ہیں‘ اور ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سیاست میں آصف زرداری ''فِٹ‘‘ بیٹھتے ہیں‘ بلاول کو ابھی دس سال کا وقت لگے گا‘ اُس وقت تک آصف زرداری پیپلز پارٹی کو ''لیڈ‘‘ کریں۔
آصف زرداری کی واپسی سے سندھ کی سیاست میں مزید ہلچل مچے گی۔ کچھ اور لوگ بھی اپنی اپنی پارٹیوں کو چھوڑ کر ''یاروں کے یار‘‘ آصف زرداری سے آن ملیں گے۔ منفی شہرت ہونے کے باوجود زرداری کئی اچھے اوصاف کے مالک بھی ہیں۔ دوستوں کو نوازنے کا فن اُن سے شروع ہو کر اُنہی پر ختم ہوتا ہے۔ زرداری صاحب کا حافظہ بھی کمال کا ہے۔ انہیں برے وقت میں چھوڑ کر چھپ جانے والے اور ساتھ دینے والے‘ دونوں گروپوں کے لوگوں کے نام یاد ہیں۔ آصف زرداری کا ''سلوگن‘‘ ہے کہ سیاست دوستوں سے بنتی ہے اور دوستوں ہی سے چلتی ہے۔ سندھ میں ان کے پائے کے کئی لیڈر موجود ہیں لیکن ان کا المیہ یہ ہے کہ وہ چھوٹی پارٹیوں میں ہیں۔ آصف زرداری گو کہ پنجاب میں تحریکِ انصاف کی پیش قدمی کے بعد اتنے طاقتور نہیں رہے کہ وہاں ان کی آمد سے عوام کی سوچ تبدیل ہو جائے لیکن اگر پیپلز پارٹی نے نئے نعرے اور نئے پروگرام دیے تو یقینا عوام کو اپنی جانب متوجہ کر سکتے ہیں۔ روٹی‘ کپڑا اور مکان کا نعرہ اب ''ایکسپائر میڈیسن‘‘ جیسا ہو چکا ہے‘ جو استعمال ہوئے بغیر ہی اپنی میعاد پوری کر چکا‘ اور اب اس کا ذکر سوشل میڈیا پر لطیفے اور طنزیہ باتوں میں ہی کیا جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی کو نواز حکومت سے ''نورا کشتی‘‘ نہیں ''اصلی کشتی‘‘ لڑنا پڑے گی‘ اور باریوں کے تاثر کو زائل کرنا پڑے گا‘ اس لئے کہ پاکستان کے طاقتور حلقوں نے ابھی تک اپنی پالیسی تبدیل نہیں کی۔ یہ تو لڑائی کے درمیان کا وقفہ ہے جس میں لڑنے والوں کو پانی پلایا جاتا ہے۔ اس کا کہیں بھی یہ مطلب نہیں نکلتا کہ لڑائی ختم ہو گئی ہے‘ لڑائی تو جاری ہے۔ ایک ٹیم تبدیل ہوئی ہے ''میچ پالیسی‘‘ نہیں۔ اب یہ سیاست دانوں کی ذہانت پر منحصر ہے کہ وہ اس لڑائی کو بھائی چارے میں تبدیل کر لیں‘ اور ایسا سیاسی ماحول بنائیں یا پیدا کریں کہ 2018ء کا چاند ''رویت ہلال کمیٹی‘‘ کے بغیر ہی نظر آجائے۔
پیپلز پارٹی کی ماضی کی حکومت پر کئی الزامات لگائے گئے۔ یہ بھی کہا گیا کہ اس نے عوام کیلئے کچھ نہیں کیا... مہنگائی بڑھ گئی... قرضے بڑھ گئے... کرپشن عروج پر پہنچ گئی... معیشت بیٹھنے لگی... ڈالر تو ایسا جوش میں آیا کہ لوگوں کی جیبوں پر حملے کرکے پاکستانی کرنسی لوٹ رہا تھا۔ پیپلز پارٹی سے عوام کو یہ بھی شکایت ہے کہ اُس کے دورِِ حکومت میں عازمین حج کو بھی نہ بخشا گیا۔ حاجیوں کو جتنی تکالیف اور اذیت دی گئی‘ وہ پاکستان کا ایک تاریخی دکھ ہے‘ جس کو نواز شریف نے نہیں دہرایا۔ نواز شریف کے دور میں حجاج کرام کا مسئلہ نہیں اُٹھا‘ لیکن موجودہ حکومت نے ایسے ایسے مسائل پیدا کیے کہ پاکستانی عوام جمہوریت سے ہی دلبرداشتہ ہونے لگے ہیں۔ جناب آصف زرداری کو اس صورتحال میں اپنی ''سیاسی گاڑی‘‘ کو دوبارہ سٹارٹ کرنا ہے۔ سیاست دانوں سے عوام بہت ناراض ہیں۔ ان کی کرپشن کی داستانیں سن سن کر عوام تنگ آ چکے ہیں۔ نہ انہیں کوئی روکنے والا ہے نہ کوئی ٹوکنے والا۔ پاکستانی عوام کے لیے کوئی ترقیاتی منصوبے نہیں ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ملک اور صوبوں کو آہستہ آہستہ تباہ ہونے کیلئے چھوڑ دیا گیا ہے۔ اُن کی مرمت (ریپئرنگ) کا کام بند کر دیا گیا ہے۔ بڑے بڑے نمائشی پروجیکٹ شروع کر دیے گئے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ پچیس سال قبل ہمارے حکمران مرغی کی ٹانگ کھا کر گزارہ کر رہے تھے‘ اب ہاتھی اور اونٹ کی ران سے بھی پیٹ نہیں بھرتا۔
ان حالات میں زرداری صاحب کو اپنے لئے راستہ بنانا ہے‘ اور بلاول کی شخصیت اور سیاست کے نکلتے ہوئے قد کی بھی حفاظت کرنی ہے۔ ایک سوال یہ ہے کہ آیا آصف زرداری پاکستان سیاست کرنے آرہے ہیں یا کوئی امتحان دینے آرہے ہیں؟ ان کی پاکستان آمد کسی کو ''ٹیسٹ‘‘ کرنا تو نہیں۔ کہیں وہ پالیسیوں میں تبدیلی کو محسوس کرنے تو نہیں آرہے؟ سندھ بھر میں ان کے استقبال کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ طاقت کا مظاہرہ بھی ہوگا۔ ابھی تک ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا کہ اسٹیبلشمنٹ آصف زرداری کو تنگ کرنا چاہتی ہے۔ نہ ہی کوئی ایسی تصدیق ہوئی ہے کہ ان سے کوئی معاملات طے ہوئے ہیں۔ وہ دونوں جانب سے آزاد نظر آرہے ہیں۔ بلوچستان میں کامیاب آپریشن کے بعد کراچی میں بڑی حد تک اپنے ہدف پر نشانے لگانے کے نتیجے میں اسٹیبلشمنٹ کسی کارنر سے تشویش میں مبتلا نہیں ہے‘ اور اگر سیاست کے کلیے کے تحت اسٹیبلشمنٹ پیچھے ہٹ گئی تو سیاسی قوتیں جو ان کے خوف کی وجہ سے متحد ہیں‘ آپس میں لڑ پڑیں گی اور لگتا ہے اورنگزیب عالمگیر کے آخری دنوں کی رسہ کشی کا دور واپس آجائے گا‘ جس کے بارے میں ابنِ انشا مرحوم نے لکھا تھا کہ ''اورنگزیب نے ایک بھی نماز اور ایک بھی بھائی نہ چھوڑا‘‘۔