کوٹہ سسٹم اس ملک کا وہ ناسور ہے جس کی وجہ سے ایک جماعت وجود میں آگئی۔ سندھ کے شہری علاقوں کی سیاست بدل گئی۔ پنجاب سے تو کوٹہ سسٹم ختم ہوگیا لیکن سندھ پر یہ عذاب کسی نہ کسی شکل میں اب بھی مسلط ہے۔ مہاجروں کو دیوار سے لگایا جاتا اور انہیں ایک ''اسپرنگ‘‘کی طرح دبایا جاتا رہا اور پھر اس کا ردعمل بھی ایسا ہی تھا کہ جب ''اسپرنگ‘‘ پر سے ہاتھ ہٹایا جاتا ہے تو وہ اچھل کر کہیں بھی جا سکتا ہے۔ یہ فطرت ہے جس پر ابراہام لنکن کا مشہور محاورہ یاد آتا ہے کہ ''فطرت تبدیل ہو نہیں سکتی‘‘۔
ابتدائی دور میں ایم کیو ایم سے مراد ''مہاجر قومی موومنٹ‘‘ تھا۔1997ء میں اس جماعت نے خود کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے اپنا نام سرکاری طور پر مہاجر قومی موومنٹ سے بدل کر متحدہ قومی موومنٹ رکھ لیا اور اپنے دروازے دوسری زبانیں بولنے والوں کے لیے بھی کھول دیے۔ سیاسی دھارے میں آنے کے بعد بھی ایم کیو ایم نے اپنی توجہ کا مرکز سندھ میں اردو بولنے والے طبقوں کو بنایا چونکہ کراچی اور سندھ کے کئی دوسرے بڑے شہروں میں اردو بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے، اس لیے ایم کیو ایم نے وہاں کی بلدیاتی، صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں پر نمایاں کامیابی حاصل کرنا شروع کردی۔ گزشتہ کئی برسوں سے کراچی، حیدر آباد، میر پور خاص، شکار پور اور سکھر کو ایم کیو ایم کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے لیکن جب جب اس جماعت نے پنجاب اور دیگر صوبوں میں جانے کی کوشش کی، کوئی بڑا واقعہ ہوگیا یا کروادیا گیا۔ سب کا ایک ہی اعتراض تھا کہ ''ایم کیو ایم اپنا عسکری ونگ ختم کردے‘‘۔ اور اگر ایم کیو ایم ایسا کرلیتی ہے تو اسے قومی دھارے میں شامل کرلیاجائے گا۔ ایم کیو ایم ''عسکری ونگ‘‘ کے وجود سے انکاری رہی لیکن پھر مصطفی کمال اور انیس قائم خانی خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے پاکستان آئے اور بانی ایم کیو ایم پرالزامات کی بارش کردی۔ عسکری ونگ کی بھی تصدیق کی اور پھر22 اگست 2016ء بھی آگیا جس نے واقعی ایم کیو ایم کے چار واضح دھڑے بنا دیے۔
1992ئکے آپریشن میں مہاجر قومی موومنٹ (حقیقی)کے نام سے وجود میں آنے والا دھڑا آج بھی آفاق احمد کی قیادت میں کام کر رہا ہے۔ پرویز مشرف کے دور حکومت میں حقیقی کو سب سے زیادہ نقصان ہوا۔ اسے سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں تھی۔ نائن زیرو تو سیل ہے لیکن حقیقی کا ہیڈ کوارٹر بیت الحمزہ مسمار کردیا گیا تھا۔ اس دھڑے کے دو ارکان اسمبلی منتخب بھی ہوئے جو انتہائی دبائو میں کام کرتے رہے۔ آ ج بھی آفاق احمد مہاجروں کی سیاست کے بڑے دعوے دار ہیں۔
پاک سرزمین پارٹی مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کی جماعت ہے جس کا ابتدائی مقصد ''مائنس الطاف‘‘ تھا۔ اس پارٹی نے خود کو مہاجروں کے علاوہ تمام قومیتوں کے لئے ایک پلیٹ فارم قرار دیا۔ 23 دسمبر کو پی ایس پی نے حیدرآباد کے پکا قلعہ میں ''پاور شو‘‘ کیا، عوام کی بڑی تعداد شریک تھی، حیدرآباد چونکہ انیس قائم خانی کا علاقہ ہے، اُنہوں نے وہاں بہت زیادہ تنظیمی کام بھی کیا تھا، اسی لئے پی ایس پی نے پہلے جلسے کے لئے حیدرآباد کا انتخاب کیا۔ لیکن نقاد کہتے ہیں کہ انہیں ابھی اور محنت کرنا پڑے گی۔ اب کراچی میں ہونے والاجلسہ پی ایس پی کے لئے ایک چیلنج ضرور ہوگا۔
ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار کو ایک کامیاب جلسے کی اشد ضرورت تھی اور انہوں نے احتیاط سے کام لیتے ہوئے نشتر پارک کا انتخاب کیا تاکہ مہاجروں کا ''مائنڈ ٹیسٹ‘‘ بھی کیا جائے اور مخالفین کو جواب بھی دیا جائے۔ 30 دسمبر کو نشتر پارک تقریباً بھر گیا اور عوام کی بڑی تعداد اس جلسے میں شریک ہوئی۔ فاروق ستار نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ ''ہم نے کم وسائل میں بڑا جلسہ کیا ہے‘‘۔ ان کی اس بات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس سے پہلے ایم کیو ایم کے جتنے بھی جلسے ہوئے ہیں وہ ''بڑے بجٹ‘‘کے تھے اور اب چونکہ فطرہ ‘ قربانی کی کھالیں اور چندہ نہ ہونے کے برابر ہے اس لئے اب جتنی بڑی ''جیب‘‘ ہوگی اتنا ہی بڑا جلسہ ہوگا۔ یہ الگ بات ہے کہ فاروق ستار لندن سیکرٹریٹ سمیت منی لانڈرنگ کیس میں وکلاء کا خرچہ اٹھانے سے بھی انکار کرچکے ہیں، جس سے ان کے اخراجات یقیناً کم ہوئے ہونگے۔ اس جلسے میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ آئندہ انتخابات میں 18سے 20 نشستیں جیتیں گے۔ ایم کیو ایم پاکستان کا دوسرا جلسہ حیدرآباد میں منعقد کرنے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ وقت بتائے گا کہ یہ جلسہ ماضی کی طرح کامیاب ہوگا یا ''گزارا‘‘ کرنا پڑے گا۔
ایم کیو ایم لندن میڈیا کی جانب سے دیا گیا نام ہے جبکہ اس نام سے کوئی جماعت الیکشن کمیشن آف پاکستان میں رجسٹرڈ نہیں۔ موجودہ صورتحال میں ایم کیو ایم لندن کا منشور اگر ایک جملے میں پوچھا جائے تو وہ ''بانی ایم کیو ایم کا وفادار‘‘ہے۔ چونکہ اس جماعت کی پاکستان میں موجود لیڈر شپ کراچی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کی قیمت پر گرفتار ہوگئی اور نو دسمبر کو یوم شہداء کے موقع لیاقت علی خان چوک پر لیڈرشپ کے بغیر کارکنوں کا ایک بڑا ''پاور شو‘‘ بھی نظر آیا جس کے شرکاء بانی ایم کیو ایم کے حق میں نعرے بھی لگارہے تھے۔ لیکن ابھی تک اس جماعت کی کوئی ایسی بڑی سیاسی سرگرمی نظر نہیں آئی۔
اب ایک اور جماعت بھی سامنے آگئی ہے جس کا نام پاکستان قومی موومنٹ ہے۔ اس جماعت کے چیئرمین تو اقبال کاظمی ہیں لیکن اس جماعت کی تمام تقریبات ایم کیو ایم لندن کے ساتھ مشترکہ طور پر منعقد کی جا رہی ہیں۔ 3 جنوری کو بھی اسلام آباد پریس کلب میں پریس کانفرنس منعقد کی گئی تھی جس سے لندن سے ندیم نصرت نے ٹیلی فونک خطاب کرنا تھا لیکن حکومت کی جانب سے اس کی اجازت نہیں دی گئی۔ ایم کیو ایم لندن کے لئے حکومتی ادارے ہر موقع پر رکاوٹ بنتے ہیں۔ انہیں وہ آزادانہ ماحول نہیں مل پا رہا جس کی ایک سیاسی قوت کو ضرورت ہوتی ہے۔ ایم کیو ایم لندن کے لئے جو مشکلات کھڑی کی گئی ہیں ان میں سے سب سے اہم سیاست کے لئے آزادانہ ماحول پر قدغن ہے۔ نئی تبدیلیوں کے بعد ملک کی مختلف جماعتیں''سیاسی تھرمامیٹر‘‘ ہاتھ میں پکڑے یہ چیک کر رہی ہیں کہ حالات بدلے ہیں یا اب بھی پرانا معاملہ ہے۔ حالات اور واقعات بتاتے ہیںکہ ابھی ''پت جھڑ‘‘ جاری ہے اور ''موسم ‘‘ نہیں بدلا جس کی وجہ سے سیاسی راستہ بنانے میں وقت لگے گا۔
ایم کیو ایم کی تقسیم کا نتیجہ یہ نکلا کہ کراچی سمیت سندھ بھر میں مایوسی پھیل رہی ہے۔ مہاجر سیاست کرنے اور اردو بولنے والے ایک انجانے خوف میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ مذہبی جماعتیں انہیں بلاوا دے رہی ہیں۔ سیاسی جماعتیں انہیں ''پچکار‘‘ کراپنی طرف کھینچ رہی ہیں۔ لیکن مسلم لیگ خاموش ہے اور انہیں مہاجروں کو اپنی جانب مائل کرنے کی بجائے کرسی کی فکر زیادہ ہے۔ جو جماعت سندھ میں ''کام ‘‘ کا گورنر نہ ڈھونڈ سکی وہ کروڑوں مہاجروں کو کیسے مطمئن کرسکے گی۔ دوسری طر ف کہا اور سمجھا یہی جارہا ہے کہ اگر مہاجر قوت اور ووٹ بینک بکھر گیا تو نہ جانے اِس''مالِ غنیمت‘‘ کوکون سمیٹے گا؟کس کے ہاتھ کی ''ریکھا‘‘ انہیں اقتدار کے قریب لے جائے گی۔ سندھ میں سیاست کی کشتی ہچکولے کھا رہی ہے۔ سندھ میں سندھی بھی بے چین ہیں اور مہاجر بھی کیونکہ طاقت کا توازن ٹوٹ رہا ہے اور کئی شخصیات کو جان و مال کا خطرہ لاحق ہے۔ جب ایسا مرحلہ آتا ہے تو اقتدار کی بجائے زندگی کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ رزلٹ نہیں آتا جس کی توقع ہوتی ہے۔