کراچی میںتھوڑی سی بارش کیا ہوئی حکومت''دھل‘‘کر سامنے آگئی اوراس کی ''کارکردگی‘‘ پورے شہر میں رقص کرنے لگی ‘شہر کی ہر گلی ‘سڑک‘چورنگی اور شاہراہ کیچڑ سے محفوظ نہیں رہ سکی۔اہلیان ِکراچی کا خیال تھا کہ ''نوجوان ‘‘وزیراعلیٰ آیا ہے کراچی کیلئے کچھ کرے گا۔بزرگ حاکم قائم علی شاہ توعوام کو بھول گئے لیکن عوام انہیں نہیں بھولے وہ آج بھی سوشل میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں۔ وزارت اعلیٰ کے '' ہنی مون پیریڈ‘‘میں مرادعلی شاہ نے کراچی کے خوب دورے کئے ‘ گلیوں اور بازاروں میں پیدل سفرکیا۔لیکن ان کی کراچی سے محبت 24گھنٹے کی بارش میں کھل کرسامنے آگئی۔سڑکیں اور اہم شاہراہیں تو تالاب کا منظر پیش کرتی رہیں لیکن کراچی کے تجارتی مراکز بھی تھائی لینڈ کے ''آبی بازار‘‘بن گئے ۔فرق صرف اتنا تھا کہ تھائی لینڈ میں خریدار اور گاہک لانچوں میں سوار رہتے ہیں لیکن کراچی میں لانچ کا تکلف بھی نہ رہا۔حیرت کی بات تو یہ ہے مرادعلی شاہ نے اپنی نگرانی میں دوماہ قبل اپنے گھر(وزیراعلیٰ ہائوس)اور گورنر ہائوس کے اطراف کی جو سڑکیں بنوائی تھیں وہ بھی اپنی اصل ''شکل‘‘میں واپس آگئیں ۔بے چارہ کراچی!! خود توسب کو پال پوس رہا ہے لیکن اس کے بیٹے تو سوتیلوں سے بھی بدتر نکلے‘اسے اُجاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور بالآخر عالم اسلام کے سب سے بڑے شہر کو پانی میں''ڈبو‘‘کر ہی رکھ دیا۔ایسا پہلی بار نہیں ہوا‘ بارش سرما کی ہویا گرماکی قتھوڑی ہو یا زیادہ ‘صبح ہو یا شام‘ڈوبنا کراچی کے مقدر میں ہے بقول ساحر لدھیا نوی ؎
ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ
زندگی میّتوں پہ روتی ہے
یورپ اورامریکہ کو توچھوڑیں ‘ایشیا کے بھی اب چند ہی شہر ایسے رہ گئے ہیں جو بارش سے ہی ڈوب جاتے ہیں انہیں سیلاب کا بھی انتظار نہیں کرنا پڑتا اور ان میں کراچی سرفہرست ہے ۔غریب پرور شہر خو د کتنا غریب ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے پاس نہ تو تنخواہیں ادا کرنے کیلئے رقم ہے اور نہ ہی گاڑیوں کا پیٹ بھرنے کیلئے ڈیزل کے پیسے ۔کراچی کو لاوارث اور یتیم بنادیا گیا ہے‘اس کو سینے سے لگا کر تسلی دینے والاکوئی نہیں ہے ۔اس کے زخموں پر مرہم رکھنے والا کوئی نہیں ہے ‘کراچی کی سڑکیں تارکول اور مضبوط پتھر کی بجائے ''گلو‘‘GLUEسے بنائی جاتی ہیں ۔جن کی پائیداری کی گارنٹی چند ہفتوں سے زیادہ کوئی مائی کا لعل نہیں دے سکتا۔
حالیہ بارش نے کراچی کی صنعت اور تجارت کا پہیہ تین دن کیلئے بند کردیا ۔ایسا لگتا تھا کہ یہ شہر نہیں کوئی گائوں ہے ۔ سڑکیں اور تجارتی مراکز ''کرفیو‘‘کا سماں پیدا کررہے تھے ۔ اس قدر سردہوائیں چل رہی تھیں کہ مونگ پھلی اور اخباری اسٹال والے بھی غائب تھے ‘ایسا لگ رہا تھا کہ یہ کوئی چھانگا مانگا کا جنگل ہے۔چند سال قبل جب کراچی میں ہڑتالوں کا سیزن اپنے''جوبن‘‘پر تھا تو دانشورانِ اسلام آباد نے کہا تھا کہ کراچی میں ایک دن کے پہیہ جام سے ٹیکس کی مد میں 12ارب روپے کانقصان ہوتاہے ۔صوبائی حکومت اور شہری حکومت کے ٹیکس نقصانات اس کے علاوہ ہیں ۔جو سب ملا کر تقریباً 20ارب روپے روزانہ بنتا ہے ۔اس حساب سے تین دن کے اندر 60ارب روپے کا نقصان ہوگیا ۔لیکن کسی نے کوئی فکر اور کوئی ذکر نہیں کیا ۔چھوٹے ‘بڑے ہرسائز کے حاکم نے قوم کے اس خطیر نقصان پر نہ کوئی بیان دیا اور نہ ہی علاج کی کوئی تجویز پیش کی ‘نزلے ‘زکام اور ڈینگی پر بیان دینے والے لیڈروں کی اس پراسرار خاموشی پر سب کو حیرت ہوئی ۔اگر اس 60ارب روپے کے نقصان میں سے صرف آدھے 30ارب روپے کراچی پر خرچ کردیئے جائیں تو آئندہ پانچ سال تک ایسا نقصان نہیں ہوگا لیکن اس معاملے پر سوچنے والا بھی کوئی نہیں تھا۔اخبارات نے بھی بارش اور کراچی کی ڈوبی ہوئی تصاویر شائع کرکے سمجھ لیا کہ ''کام پورا ہوگیا‘‘نہ کسی نے مضمون لکھا اور نہ ہی کسی نے وزیراعظم ‘ وزیراعلیٰ ‘وزیر بلدیات اور وزیر پلاننگ سے کوئی سوال کیا؟کہ کراچی کیسے ڈوبا؟یہ ہے پاکستان کی جمہوریت !! اس سے بہتر کام تو ہماری مسلح افواج نے شمالی علاقہ جات کے کئی علاقوں سے برف میں پھنسے لوگوں کو نکال کر کیا۔
کراچی میں جب سے اورنج لائن بس منصوبے کا افتتاح ہوا ہے سندھ حکومت نے بھی ''ایڈوانس انتخابی مہم ‘‘شروع کردی ہے۔بیک وقت کئی سڑکیں ایسے کھود دی گئیں جیسے جنگی طیاروں نے ''بمباری ‘‘کردی ہو۔کراچی کی اہم شاہراہیں ایسے کھود دی گئی ہیں جیسے کراچی کی ''اوپن ہارٹ سرجری‘‘کی جارہی ہے ۔آپریشن کا بھی ایک وقت ہوتا ہے لیکن کراچی کے معاملے میں ایسا نہیں ہے۔لگتا ہے کراچی کا ''سینہ ‘‘آئندہ انتخابات سے قبل بند کرکے اعلان کیا جائے گا کہ ''کراچی والو‘دیکھو!!ہم نے اس شہر کو کیا سے کیا بنادیا‘اب ووٹ تو ہمارا حق بنتا ہے ‘‘ ایسی ہی مہم وفاقی حکومت کی جانب سے جاری ہے جس میں اورنج لائن منصوبہ بھی انتخابات سے قبل ہی تیار کرکے نواز شریف یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ انہیں کراچی کی سب سے زیادہ فکر ہے اس لئے ووٹ کی مہر شیر کے منہ پر لگائیں۔اہلیانِ کراچی کا یہ سوال بھی ہے کہ ''کیا ہی اچھا ہوتا کہ وفاقی اورصوبائی حکمران ترقیاتی کام جلد ازجلد مکمل کرکے عوام کی سہولت کے بارے میں بھی سوچ لیتے ۔ووٹ کے چکر میں عوام کو ڈھائی سال رسوا کرنا کہاں کا انصاف ہے؟
میئر کراچی وسیم اختر نے 100روزہ صفائی مہم کا اعلان کیا۔لیکن اختیارات اور وسائل کی محرومی نے اُن کے ہاتھ ‘پائوں باندھ کررکھے ہیں ۔وزیراعلیٰ سندھ کہتے ہیں ''بارش اورسیوریج کاپانی نکالنے کا اختیارمیئرکراچی کے پاس ہے لیکن یہ نہیں بتاتے کہ کراچی کے موٹر وہیکل ٹیکس اورپراپرٹی ٹیکس پر حکومت نے کیوں قبضہ کررکھا ہے ؟کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا نام تبدیل کرکے کراچی والوں کا پیسہ حکومت کے کھاتے میں کیوں ڈالاجارہا ہے ؟سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو اندرون ِصوبہ سے کتنا ٹیکس مل رہا ہے؟ملیر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی اورلیاری ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کی آمدنی کہاں جارہی ہے اس کا بھی کوئی حساب کتاب نہیں‘کتنی حیرت کی بات ہے کہ کراچی کی 67فیصد زمین تودیگر اداروں کے پاس ہے لیکن تمام تر ذمہ داری صرف اور صرف بے اختیارشہری حکومت پر ڈال دی جاتی ہے‘کیا کریں؟ کراچی کا کوئی والی وارث ہی نہیں تو شکوہ کس سے کیا جائے؟