"ISC" (space) message & send to 7575

سرد کراچی میں ’’گرم سیاست‘‘…!

کراچی میں ابھی سردی ٹھیک سے گئی ہی نہیں کہ ''سیاسی موسم‘‘ گرم ہوگیا ہے ۔گرم کپڑے ابھی الماریوں میں رکھے ہی نہیں گئے کہ گرم نعرے باہر آگئے ہیں ۔ کراچی میں گرماگرم سیاست نے پارہ ہائی کرنا شروع کردیا ہے ۔کراچی میں ایک لطیفہ ہمیشہ مشہور رہتا ہے کہ ''جب کسی پارٹی پر پیار آتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ ایسا لگ رہا ہے کہ نیاپاکستان بن رہا ہے‘‘۔اس قسم کی گفتگو سے اردوبولنے والوں کے کلیجوں کو ٹھنڈک ملتی ہے اوراس کا مقصد تحریک سے پیار کا اظہار کرنا ہوتا ہے ۔ لیکن آج کا سچ یہ ہے کہ اردو بولنے والے لیڈروںکو حقائق اور مسائل کی سیاست کرنا پڑے گی۔کراچی میں ایسی لیڈر شپ کی ضرورت ہے جس میں خود اعتمادی ہو اوروہ کسی انجانے خوف میں مبتلا نہ ہو۔
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے نشتر پارک میں جلسہ کیا۔ مبارکبادیں وصول کیں کہ کراچی فتح ہوگیا۔اتوار کے روز پاک سرزمین پارٹی نے تبت سنٹر پر ایک جلسہ کیا اور اعلان کیا گیا کہ کراچی فتح ہوگیا۔ساتھ ہی یہ تاثر بھی دیا گیا کہ کراچی ہمارا ہے۔ جلسوں کی یہ مقابلے بازی اچھی ہے لیکن کوئی بھی پارٹی بغیر تنظیم ‘بغیر نعرے ‘بغیر منشور اور بغیر پروگرام مقبول کیسے ہوسکتی ہے؟ ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی نے ابھی تک کوئی ایسا نعرہ نہیں دیا جس کے پیچھے اردوبولنے والے دیوانے ہوجائیں ۔
کراچی میں ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی کی میدان مارنے کی کوششوں کا بہت اچھا نتیجہ نہیں نکل رہا ۔فاروق ستار نے جس نشتر پارک میں جلسہ کیا اسی مقام پر بانی ایم کیو ایم (الطاف حسین)نے 8اگست 1986ء کو کنونشن سے خطاب کیا تھا جس سے سندھ کی سیاست میں بھونچال آگیا تھا ۔اس کے مقابلے میںفاروق ستارکے حالیہ جلسے نے ذہنوں میں ایسے نقوش چھوڑے جو چند ہفتوں میں ہی مٹ گئے ۔فاروق ستارصاحب نے تقریر ضرور کی لیکن پروگرام پیش نہیں کیا ۔نعرے لگوائے لیکن لائحہ عمل نہیں بتایا ۔لوگ جمع کئے لیکن منزل تو دور‘ راستہ بھی نہیں بتایا۔
مصطفی کمال نے اپنے جلسے میں تیس دن کی مہلت دے کر سب کوحیران کردیا ۔کیونکہ جلسے اور اخباری بیانات سے یہ واضح ہی نہیں ہوا کہ مہلت کس سے مانگی گئی ہے یا کس کو دی گئی ہے؟ یہ بھی معلوم نہ ہوسکا کہ مہلت کے بعد کس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا؟کراچی کی حالیہ تاریخ کے ان دو جلسوں سے محسوس ہورہا ہے کہ کراچی ابھی تک سیاسی طور پرسورہا ہے ۔اس میں کوئی امنگ اور ترنگ نظر نہیں آرہی۔ ایسا لگتا ہے کہ کراچی مایوس ہوگیا ہے ۔جلسہ کامیاب تھا یا ناکام یہ اتنی بڑی بحث نہیں ہے‘ لیکن یہ بات بہر حال دکھ بھری ہے کہ فاروق ستار صاحب نے اسے ''جلسی ‘‘قرار دیدیا۔فاروق ستار کا یہ منصب نہیں ہے کہ وہ اس قسم کے تبصرے کریں ۔وہ درجہ اول کے لیڈر ہیں ‘اس قسم کے بیانات درجہ دوئم اور سوئم کے لیڈروںسے دلوائے جاتے ہیں ۔وزیراعظم نوا ز شریف کو جب عمران خان کے ساہیوال کے جلسے پر تنقید کرنی تھی تو ایک وزیر مملکت سے کہلوایاگیا کہ ''یہ جلسہ عام نہیں ایک کارنر میٹنگ تھی ‘‘جسے پڑھ کر مزہ بھی آیا۔بڑے لیڈر بڑی باتیں کرتے ہیں ۔ وہ آپس میں ملتے بھی ہیں ۔کل کو انہیں سیاسی حالات کے باعث اتحاد بھی کرنے پڑسکتے ہیں ۔لیکن بڑے لیڈروں کے اس قسم کے بیانات سے دوریاں بڑھتی ہیں جس کا نقصان مستقبل میں نظر آئے گا ۔کراچی میں اگر یہی ہوتا رہا تو عالم اسلام کے سب سے بڑے شہر پر پھر اجنبی اور مذہبی لوگوں کا غلبہ ہو جائے گا ۔
دبئی میں مقیم ایک درد مند کراچی کے باشندے نے ہم سے کہا کہ'' جب ڈاکٹر عشر ت العباد خان گورنر ہائوس چھوڑ کرچلے گئے تو فاروق ستار نے اردو بولنے والے گورنر سندھ کی تعیناتی کا مطالبہ اگلے روز ہی کیوں نہیں کیا اوراس کیلئے باقاعدہ مہم کیوں نہیں چلائی ؟وہ اس موضوع پر گلی گلی جلوس نکال سکتے تھے‘‘۔ 1972ء میں لسانی فسادات کے بعد مولانا شاہ احمد نورانی، پروفیسر غفور احمد ، محمود الحق عثمانی، آزادبن حیدر، ظہور الحسن بھوپالی ‘شاہ فرید الحق اور اس پائے کے دیگر لیڈروں نے ذوالفقار علی بھٹو سے یہ بات منوائی تھی کہ اگر سندھی وزیراعلیٰ ہوگا تو گورنر اردو بولنے والا ہوگا۔ بھٹو نے یہ بات مانی اورکہا کہ ''آپ کا مطالبہ جائز ہے اور مجھے پیپلزپارٹی سندھ کے صدر میر رسول بخش تالپور کو ہٹاکرآپ کی برادری کے کسی شخص کو گورنرشپ سونپنا پڑے گی‘‘ ۔فاروق ستار نے اس معاملے پر سیاست کرنے میں بہت دیر لگادی۔پانچ ‘چھ ہفتے بعد انہیں یہ یاد آیاکہ سندھ کا گورنر اردو بولے والا ہونا چاہیے‘لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی۔
اگر کبھی فرصت ملی اور کراچی کی سیاست میں تھوڑی سی نرمی آئی تو مصطفی کمال سے پوچھیں گے کہ گورنر عشرت العباد کے خلاف پریس کانفرنس کرکے آپ کو کیا ملا؟چاہے وہ نمائشی گورنر تھے لیکن وہ بھی چلے گئے۔اردو بولنے والوں میں ایک محاورہ بہت مشہور ہے کہ''اپنا مارے گا تو کم از کم لاش سائے میں پھینکے گا دھوپ میں نہیں چھوڑے گا‘‘۔ سوال یہ ہے کہ جو مارے گا وہ اپنا کیسے ہوگا؟۔یہ محاورے اورجملے قوموں کا ذہن اورسوچ ظاہرکرتے ہیں۔پاکستان میں اس وقت اردو بولنے والی قوم شدید اضطراب کا شکار ہے۔ذہنی تنائو‘ ایم کیو ایم کی ٹوٹ پھوٹ اور بانی متحدہ (الطاف حسین) کے بارے میں نت نئے انکشافات نے اردوبولنے والوں کو ایک مخمصے میں ڈال رکھا ہے ۔
دو اہم ترین شخصیات‘ فاروق ستار اور مصطفی کمال کے کاندھوں پر ایسی ذمہ دار ی آگئی ہے جس کا انہوں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچاہوگا۔کراچی کو اس بھنور سے کون نکالے گا؟ اور کراچی کا کیا مستقبل ہے ؟ان دونوں رہنمائوں نے پاکستان کو 80فیصد ریونیو دینے والے انڈسٹریل ایریا کی حالت زار پر ایک بیان بھی نہیں دیا۔سڑکوں پر گٹر ابل رہے ہیں ‘پانی نایاب ہورہا ہے ۔اہم شاہراہوں کو ہرطرف سے کھود دیا گیا ہے ۔ٹریفک جام بھی لوڈ شیڈنگ کی طرح کراچی پر مستقل عذاب کی صورت میں مسلط ہوچکا ہے ۔کارخانے دار کماکماکرڈالر کی شکل میں وفاقی خزانہ بھررہے ہیںاور ہمارے حکمران کراچی کے انڈسٹریل ایریاکی سڑکوں پر کوڑا اور گندگی ہٹانے کیلئے کچھ بھی نہیںکرتے اور ناہی کچھ سوچتے ہیں۔ کراچی کے ساتھ اتنا ظلم تو انگریزوں نے بھی نہیں کیاجتنا اب ہور ہا ہے ۔کراچی اپنا دکھ کس کو جاکر سنائے ؟کہاں جاکر فریاد کرے ؟کس کا دامن پکڑے ؟کس کے سامنے جھولی پھیلائے ؟ایک علاقائی سیاستدا ن نے کہا کہ'' کراچی کو خوف اور پریشانی سے تو وہ شخص نکال سکتا ہے جو خود خوف و پریشانی میںمبتلا نہ ہو‘‘۔جس کو شہادت کی تمنا ہو وہی کراچی کا پرچم لے کرنکلے ۔'' فوٹو اسٹیٹ لیڈر شپ‘‘ کراچی کے لوگوں کو نہ جگا سکتی ہے اور نہ ہی ان کی قیادت کرسکتی ہے ۔چاہے وہ کوئی بھی ہو‘ اردو بولنے والے بزرگوںنے 50کروڑ ہندوئوں اور آدھی دنیاپر حکومت کرنے والے انگریزوں کو للکا را اور مصلحت اختیار نہیں کی اور متحد ہوکر پاکستان لے لیالیکن کیاآج کئی دھڑوں میں تقسیم اردوبولنے والے صوبائی اوروفاقی حکومت کو للکار کر ایک شہر کے مسائل حل کراسکتے ہیں؟

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں