"ISC" (space) message & send to 7575

زرداری‘ گبول ’’این آر او‘‘...!!

کراچی سے سردی ابھی ٹھیک طرح سے گئی بھی نہیں ہے کہ سیاسی موسم گرم ہوگیا ہے ۔طویل عرصے سے'' سیاسی مسافر‘‘ بننے والے نبیل گبول کواچانک اپنی منزل نظر آگئی اور وہ بال بچوں سمیت وقت ضائع کئے بغیرزرداری سے جا ملے۔پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ باپ کے ساتھ ساتھ بیٹے نے بھی کسی پارٹی میں شمولیت کاباضابطہ اعلان کیا اور زرداری کی کامیاب سیاست پر ایمان لے آئے۔آصف زرداری سندھ میں دن بدن نواز شریف اور شیخ مجیب الرحمن کی طرح تیزی سے طاقتور ہورہے ہیں۔اور لوگ مختلف جماعتوں سے پکے ہوئے پھلوںکی طرح ٹوٹ ٹوٹ کر آصف زرداری کی جھولی میں گررہے ہیں۔ یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ سندھ میں طاقت کا توازن ٹوٹ گیا ہے۔ایم کیو ایم پر برا وقت کیا آیا آصف زرداری کی لاٹری نکل آئی۔سیاسی تجزیہ کاروں نے پہلے بھی کہا تھا کہ ایم کیوا یم کواس طرح ختم نہ کرو کہ سندھ کی سیاست غیر متوازن ہوجائے لیکن چونکہ ہمارے حکمرانوں نے اپنی جلدبازی کو تبدیل نہ کرنے کا''حلف ‘‘اٹھا رکھا ہے۔اس لئے ایسے مشوروں کیلئے ان کے کانوں پر ''کلوزڈ‘‘کا بورڈ آویزاں نظر آتا ہے۔
ایم کیو ایم کے ختم ہونے کا پہلا نقصان یہ ہوا کہ بلدیہ کراچی کو غیر مؤثر اور بے بس کردیا گیا۔کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، واٹر بورڈ، بلدیاتی فنڈز، اہم سڑکوں کے ٹھیکے اور آخرمیں میئر کراچی سے اُن کے ''اوریجنل پاورز‘‘ بھی چھین لیے گئے۔یہ ایسی ہی بات ہے کہ کوئی کسی کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اسے دنگل میں پھینک دے‘سینہ پھلا کر مقابلے کا چیلنج کر ے اورخود کو رستمِ زمان کہلوانے پر بضد ہو۔سیاسی طور پر حالات آج اگست 1986ء سے بھی زیادہ خراب ہیں، مہاجروں کی بے بسی اور انہیں کچلنے کی تیاریاں پہلے سے بھی بڑھ کر ہیں جن مسائل نے الطاف حسین کو کراچی کی سیاست میں ''سپرمین‘‘بنایاتھا آج وہ ماضی سے بھی بڑھ کر ہیں۔ 
سندھ دولسانی صوبہ ہے اور بھٹو صاحب نے لسانی ہنگاموں کے بعد مذاکرات کی میز پر اسے تسلیم کیالیکن اب صرف فردِ واحد کی سیاست کے گرد نہ صرف پورا سندھ گھوم رہا ہے بلکہ انتہا یہ ہے کہ اِس کا وارثِ تخت بھی اسی صورتحال کا شکار ہے ۔
لعل شہباز قلندر کی درگاہ پر خود کش حملے کے بعد نہ عملی اقدامات کیے گئے۔نہ صفائی اورطبّی سہولیات کے کام کا آغازہوا۔کراچی کی میمن برادری اور کئی این جی اوز سیہون میں ہسپتال قائم کرنے کیلئے تیار ہیں لیکن حکومت نہ رابطہ کررہی ہے اور نہ ہی انہیں مطلوبہ زمین فراہم کررہی ہے۔اس سلسلے میں کوئی پلاننگ نہیں کی گئی۔صرف یہ خبر آئی ہے کہ حکومتِ سندھ نے ہدایت کی ہے کہ 86 درگاہوں کے عطیات و نذرانوں کا آڈٹ کرایا جائے۔جس پر کسی دل جلے نے کہا ہے کہ اتنے بڑے سانحے کے بعد بھی نظر ہے تو مال و منال پر۔ 
نبیل گبول کی سیاست میں تیسری انگڑائی نے پھریہ ثابت کردیا کہ دنیا گول ہے اور گھومتا پھرتا انسان اپنے اصل کی طرف لوٹ کرواپس آتا ہے۔نبیل گبول نے علیحدہ ہونے کے بعدبھی پیپلزپارٹی کیخلاف زبان بہت نرم رکھی تھی۔وہ جاتے جاتے بھی کھڑکی اور دروازہ کھلا رکھ آئے تھے۔جس میں سے پہلے ''سیاسی ہوا‘‘ کے جھونکے آتے رہے اور پھرنبیل گبول خوداُسی راستے سے نکل کربلاول ہائوس واپس پہنچ گئے۔اُن کا یہ بھی کمال ہے کہ وہ ایم کیوایم سے بھی خاصے بچ بچا کر نکلے ورنہ کبھی کبھی ایم کیو ایم سے نکلا ہوا شخص بہت آگے تک نکل جاتا ہے۔نبیل گبول کراچی کی سیاست کی ایک طاقتور ترین شخصیت ہیں۔اُن کی خوبی یہ ہے کہ وہ بزدل نہیں۔ابتداء میں لگ رہا تھا کہ زرداری صاحب انہیں قبول نہیں کریں گے اور وہ ایم کیو ایم کے پرانے کپڑے بلاول چورنگی پر ڈرائی کلین نہیں کرپائیں گے لیکن ایم کیو ایم کو غیر سیاسی انداز میں جس طرح کاٹا گیا اور ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے ایسا تو سالگرہ کے کیک کے ساتھ بھی نہیں ہوتا۔اور پھراس کاتمام تر فائدہ زرداری صاحب نے سیاسی انداز میں اٹھایا۔انہوں نے اپنے ہر مخالف کیلئے پارٹی کا دروازہ بلکہ ''مین گیٹ‘‘ ہی کھول دیا۔زرداری صاحب ایک فراخ دل سیاستدان کے طور پر ابھرے ہیں۔انہوں نے سب سے پہلے فنکشنل لیگ کے اہم ممبروں کو آغوش میں لے کر'' غیر فنکشنل‘‘ کیا۔امتیاز شیخ فنکشنل لیگ کا بڑا نام تھا۔ا نہیں مستقبل کا وزیراعلیٰ بھی کہا جاتا تھا۔لیکن آصف زرداری نے فنکشنل لیگ کے سب سے بڑے بت کو گرادیا۔جام مدد علی جو جام صادق علی خاندان کے اہم ترین فرد ہیں وہ بھی پی پی کوپیارے ہوگئے۔کراچی کے فنکشنل کارکنوں کی بڑی ٹیم پیپلزپارٹی سے جاملی۔یہاں تک کہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما نادر اکمل لغاری بھی ''نیا پاکستان ‘‘چھوڑ کر ''پرانے پاکستان ‘‘میں چلے گئے اور پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کردیا۔زرداری صاحب نے نبیل گبول کو بھی اپنی آغوشِ محبت میں لے لیاہے۔نبیل گبول کو پیپلزپارٹی میں ایسے وقت لیا گیا جب اُن کے مخالفین پولیس مقابلوں میں مارے جاچکے ہیں۔بیشترفرار ہیں جبکہ باقی منتشر ہوچکے ہیں۔نبیل گبول کو اس پورے منظر نامے کا فائدہ شایدآئندہ الیکشن میں ہو لیکن زرداری صاحب نے پہلے دن ہی فائدہ اٹھا لیا۔آصف زرداری ذوالفقار علی بھٹو تو نہیں ہیں لیکن ان کی سیاست ''بھٹو اسٹائل‘‘ کی ضرور ہے۔ایم کیو ایم (پردیس) کے حلقوں کا یہ کہنا ہے کہ نبیل گبول کو ایم کیو ایم میں پلاننگ کے تحت بھیجا گیا تھا۔اُن کے پشت پناہوں میں پی آئی بی کالونی کے کچھ لوگ بھی تھے۔کیونکہ اب اُن کا اسائنمنٹ ختم ہوگیا اس لئے وہ ایم کیو ایم سے اُڑ کر کچھ ماہ آرام کرنے کے بعددوبارہ اپنی پرانی شاخ پر جا بیٹھے ہیںجبکہ حبیب جان نے لندن سے جاری بیان میں الزام لگایا ہے کہ'' لیاری کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ گبول نے لیاری میں گینگ وار کی بنیاد رکھتے ہوئے کراچی تا تھانہ بولا خان تک نہ صرف زمینیں قبضہ کیں اور کئی معصوم نوجوانوں کو ذاتی مفادات کے حصول کیلئے موت کی آغوش میں دھکیل دیا‘‘۔تجزیہ کار کہتے ہیں کہ لیاری گینگ وار کا داغ نبیل گبول کا پیچھا کبھی نہیں چھوڑے گا ۔
آصف زرداری جس طرح سندھ میں ''خاموش طوفانی سیاست‘‘کررہے ہیں اس سے پنجاب میں بھی بے چینی پھیل رہی ہے ۔زرداری کے طرز سیاست سے تحریک انصاف کا شاید زیادہ نقصان نہ ہو لیکن مسلم لیگ ن کو دھچکا ضرور لگے گا۔زرداری جس دن بلاول ہائوس لاہور کا رخ کریں گے مسلم لیگ ن کے اہم رہنمائوں کی وفاداری کو خطرہ ضرور ہوسکتا ہے۔آئندہ الیکشن کی تیاری میں پاناما لیکس کے گندے کپڑوں کی جو گٹھڑی مسلم لیگ ن نے سر پر اٹھارکھی ہے اس بوجھ کے ساتھ اسے ووٹوں کی وہ تعداد شاید نہ مل سکے جو ماضی میں ملتی رہی ہے ایسی صورتحال میں تحریک انصاف کے ساتھ ووٹ شیئر کرنے کیلئے پیپلز پارٹی ہی بچتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں