"ISC" (space) message & send to 7575

’’فاروق ستار حاضر ہو....!!‘‘

کراچی ایک بڑے ''اپ سیٹ‘‘سے بچ گیا۔سندھ پولیس کے ڈی آئی جی لیول کے افسر نے آئی جی سندھ سے پوچھ کر فاروق ستار کو ایک شادی کی تقریب سے واپس آتے ہوئے فلم کے''پنجابی ولن ‘‘کی طرح راستہ روک کر گرفتار کیا تھا۔یہ ایک انوکھی اور ڈرامائی گرفتاری تھی ۔ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی بہت بڑا مجرم پکڑلیا گیا ہے۔کوئی دھاڑیل(ڈاکو)اچانک پولیس کے ''قبضے‘‘ میں آگیا ہے۔فوری طور پرٹی وی پر ٹکر چلادیاگیا کہ ''یہ اتنی بڑی گرفتاری تھی کہ وزیراعلیٰ سندھ سے پوچھا گیا ہے ‘‘۔پولیس کے ایک طبقے نے پتہ نہیں کیوںوزیراعلیٰ سندھ کو اس معاملے میں شامل کرلیا ۔اور فاروق ستار کو گرفتار کرکے متعلقہ تھانے آرٹلری میدان میں رکھنے کی بجائے گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ کے ''محلے دار تھانے‘‘چاکیواڑہ میں رکھا گیا ۔اور کراچی کے مہاجروں کو یہ ڈرائونا پیغام دیا گیا کہ ''تمہارا لیڈرہمارے قبضے میں آگیا ہے‘‘۔یہ عجیب وغریب اسٹائل تھا ۔ایک چینل کے بقول اِس گرفتاری نے کراچی میں کھلبلی مچاد ی۔ پورے سندھ سے ٹیلی فون کالز آنے لگیں کہ ہفتے کے روز سندھ بھر میں پہیہ جام ہڑتال کی کال دی جائے ۔لوگ تیار ہورہے تھے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے عارضی کیمپ میں رابطہ کمیٹی کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا اور توقع تھی کہ ایم کیو ایم کوئی'' بڑی کال‘‘ دینے والی ہے ۔ہر علاقے سے ایم کیو ایم کے حامی نکل نکل کر پی آئی بی کالونی کی جانب جارہے تھے۔ ایم کیو ایم پاکستان کو اپنی طاقت کے مظاہرے کا بہت بڑا موقع ہاتھ آگیا تھا۔ لیکن اُس وقت ایم کیو ایم کے سامنے دوبڑے مسائل تھے ایک طرف مردم شماری کی زیادتیوںکا مقابلہ کرنے کیلئے لڑائی جاری ہے۔گرما گرم بیانات دیئے جارہے ہیں۔ تو دوسری جانب فاروق ستار کی گرفتاری کا معاملہ بھی سامنے آگیا۔ فاروق ستار کی گرفتاری کی اصل وجہ اب تک یہ سامنے آرہی ہے کہ مردم شماری کے حوالے سے کیوں آواز اٹھائی؟ جبکہ یہاں یہ رسم چلی ہے کہ کوئی نہ سر اٹھاکے چلے ۔ 
ایم کیو ایم کے رہنما یہ سوچ رہے تھے کہ ایجی ٹیشن کی طرف گئے تومردم شماری کامیدان ہاتھ سے نکل جائے گا اور احتجاج نہ کیاتو فاروق ستار جیل چلے جائیں گے ۔ لیکن پھر ایسا ہوا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کے ایک اعلیٰ ترین افسرکی ''کال ‘‘نے فاروق ستار کو چاکیواڑہ تھانے سے باہر نکال کرایم کیو ایم کے عارضی مرکز پہنچا دیا ۔ فاروق ستار نے اس مرحلے پر کیا کرنے کا پلان بنایا تھا وہ باتیںتو دو‘چارروز میں منظر عام پر آجائیں گی لیکن ذراسی غلطی ہوجاتی اور ایک بار لاک ڈائون( پہیہ جام ہڑتال )کی کال آجاتی تو مہاجر اتنی بڑی قوت کے ساتھ باہر نکل آتے کہ سارا بکھرا ہوا شیرازہ ایک جان ہوجاتا اوراتنے بڑے آپریشن کے مقاصد منزل کے قریب پہنچ کرختم ہوجاتے۔اورکراچی کی سیاست پھر''ایک شخص‘‘ کے ہاتھ میں آجاتی۔جمعہ کی شب جس نے بھی اس مسئلے پرذہانت سے سوچا اس نے کراچی اور سندھ کو ایک بگڑتی ہوئی صورتحال سے بچالیا ۔ کراچی اور سندھ کے حالات رات ہونے کی وجہ سے خراب ہو نے سے بچ گئے تھے ۔بات یہیں ختم نہیں ہوئی صوبائی حکومت کے ایک ترجمان نے عجیب وغریب بیان دیا کہ فاروق ستار کو گرفتار نہیں کیا گیااُن کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہیں پولیس انہیں گرفتار کرنے گئی لیکن وہ فرار ہوگئے ۔ترجمان وزیر اعلیٰ نے یہ بھی کہا کہ اگر فاروق ستار نے ضمانت نہ کروائی تو گرفتاری کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ بیان کے پہلے حصے میں ناقابل ضمانت وارنٹ کا ذکر کیا گیا لیکن آخر میں ضمانت ہی کی بات کی گئی ۔ ترجمان وزیراعلیٰ سندھ نے تفتیشی افسر کی زبان استعمال کی کہ فاروق ستارفرار ہوگئے لیکن جس وقت یہ بیان ٹِکرز کی صورت میں چل رہا تھا اسی
وقت انہی لمحات کی فوٹیج الیکٹرانک میڈیا پر دکھائی گئی کہ فاروق ستارکو پولیس افسران نے روک رکھا ہے اور بات چیت کا عمل جاری ہے۔ اسی دوران مولابخش چانڈیو نے بیان داغا کہ ''فاروق ستار کی گرفتاری سے سندھ حکومت کا کوئی تعلق نہیںیہ عدالتی حکم پر ہوئی ‘‘ ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ وارنٹ کب جاری کئے گئے؟ دوپہر میں یا شام میں کسی بھی وقت فاروق ستار کوگرفتار کیا جاسکتا تھالیکن ایسا کیوں ہوا کہ رات کی تاریکی میں انہیں گرفتار کیا گیا؟۔اس سے ایک پیغام ضرور ملا کہ گرفتار کرنے والے سے رہا کرانے والا زیادہ طاقتور تھا۔
یہ کیسی مردم شماری ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں مطمئن نہیں ۔مردم شماری کے بارے میں نثار کھوڑوکو شبہات ہیںتو وزیر اعلیٰ کو بھی خدشات ہیں۔اردو بولنے والوں کو شکایت یہ ہے کہ 600 فلیٹس کی ایک ملٹی اسٹوری بلڈنگ اوراندرون ِ سندھ کی ایک جھگی کا''ش‘‘ نمبر ایک ہی ہے۔سندھ کے قوم پرستوں کو یہ شکوہ ہے کہ حالیہ مردم شماری میں کراچی میں آباد پٹھانوں اور پنجابیوں کو بھی گنا جارہا ہے ۔ دوسری طرف پٹھانوں کا کہنا ہے کہ پشاور سے زیادہ پٹھان کراچی میں آباد ہیں۔ پنجابیوں کا کہنا ہے کہ لاہور کے بعدکراچی پنجابیوں کا سب سے بڑا شہر ہے۔ سرائیکی بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ کراچی میں سرائیکی کی بڑی تعدا د مقیم ہے۔کوئی مانے یا نہ مانے اس مردم شماری سے سندھ کی پوری سیاسی صورتحال اور طاقت کا توازن تبدیل ہوجائے گا۔ اسحاق ڈار سے بھی کہا گیا کہ مردم شماری کو خفیہ نہ رکھیں ہم بھی دیکھیں کہ نتائج کیا ہیں؟۔اس لئے ہمیں روزانہ کی رپورٹ دی جائے ۔دوسری طرف سندھ میں مستقل آباد پنجابیوں‘پٹھانوں‘اور سرائیکیوں کا کہنا ہے کہ میڈیاکے دور میں کوئی بھی ہماری آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتا۔
مردم شماری متنازعہ ہوتی جارہی ہے اور ''ردالفساد‘‘کے دور میں فاروق ستار کی گرفتاری ایک ''سیاسی فساد‘‘ کو جنم دے سکتی تھی لیکن سب کی سمجھداری نے معاملہ بہتر بنادیا۔فاروق ستار نے رہائی کے بعد پریس کانفرنس میں بتایا کہ ''پولیس نے ایک گھنٹہ کی ''مہمان داری ‘‘ کے دوران پوچھا کہ آپ پرکتنے مقدمات ہیں ؟ آپ کن کن مقدمات میں پیش ہورہے ہیں وغیرہ وغیرہ ؟؟‘‘لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو پولیس فاروق ستار کو قابو کررہی ہے اس پولیس کو یہی معلوم نہیںکہ مقدمات کیا ہیں اگر انہیں 22 اگست کے مقدمہ میں گرفتار کیا تھا تو انہیں 23 اگست کورہا بھی رینجرز نے ہی کیا تھا۔یہ فاروق ستار کی 22اگست کے مقدمے میں دوسری گرفتاری تھی لیکن رینجرز نے انہیں گھر بھیج دیا تھا اگر وہ گرفتار ہوتے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جاتا لیکن ایسا نہ ہوا۔اور پھر ہفتہ کے روز انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے فاروق ستار کی عدم گرفتاری پربرہمی کا اظہارکیا اور تفتیشی افسر کو حکم دیا کہ ''فاروق ستار کو ہرصورت گرفتار کیا جائے ‘‘۔لیکن تفتیشی افسر نے عدالت میں انتہائی دلچسپ بیان دیا کہ '' ایم کیوایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارے جارہے ہیں فاروق ستار اور دیگر کی گرفتاری کیلئے ضلعی سطح پرٹیمیں تشکیل دیدی گئی ہیں جب کہ ملیرمیں درج مقدمات کی تفتیشی رپورٹ ایس ایس پی ملیررائوانواردیں گے‘‘۔فاروق ستار کی گرفتاری ہوئی ‘رہائی بھی ہوگئی لیکن عدالت کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی ۔فاروق ستار کی گرفتاری کیلئے ٹیمیں بھی تشکیل دی گئی ہیں اور وہ پی آئی بی کالونی میں رہائش پذیر ہیں۔فاروق ستار ٹی وی انٹریوز بھی دے رہے ہیں ۔اورتقریبات میں شرکت بھی کررہے ہیں ۔بس پولیس کو نہیں مل رہے اور وہ اُن کو تلاش کررہی ہے جبکہ عدالت میں آوازیں لگ رہی ہیں کہ ''فاروق ستار حاضر ہو!!‘‘۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں