ذوالفقارعلی بھٹو نے 1970میں نعرہ لگایا تھا کہ سندھ کے ایک بڑے جاگیردار وسان کو میں کسان بنادوں گا۔ لوگ بہت خوش تھے اور وسان الیکشن ہار گیا۔ پیر پگاراکو دو ‘چار نشستیں ہی مل سکیں۔ کراچی میں ہارون فیملی کو بھی شکست ہوئی اور بھٹو نے ایک ''انقلابی نقارہ‘‘ بجادیا لیکن 1977 کے الیکشن سے پہلے پنجاب میں ٹمن کو لیا گیا۔ دولتانے آگئے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق سربراہ ذکااشرف کے والد چوہدری اشرف‘ جو سندھ میں سب سے بڑے ٹھیکیدار تھے‘ پیپلز پارٹی سے مل گئے۔۔۔۔ اور اس قسم کے کئی لوگوں کے آنے سے پیپلز پارٹی کی کشتی ''اوور لوڈ‘‘ ہو گئی۔ لوگوں کی دیوانہ وارمحبت کم ہو گئی۔۔۔۔ اور عقیدت کے مینارے گر گئے۔۔۔ ترقی پسندوں کو بھی یہ بات پسند نہیں آئی ۔ انہوں نے بھی1977میں کھل کر مخالفت کی ۔
بھٹو کی سمجھ میں آخر تک یہ بات نہ آئی کہ عوام اِس قدر کیوں ناراض ہیں۔ 1970کی انتخابی مہم میں لوگوں نے بھٹو کی قیادت میں جن جاگیرداروں سے جنگ کی تھی وہ 1971میں بھٹو کے شانہ بشانہ تھے اور معراج محمد خان ‘شیخ رشید احمد‘ افتخاررانا، ڈاکٹر مبشر حسن، میر رسول بخش تالپور ‘جے رحیم‘میر علی احمد تالپور اور اس پائے کے وہ لیڈر ان جن کی تقریروں کی گھن گرج سے بادل بھی کانپتے تھے‘ بھٹو کی انتخابی مہم میں شامل نہیں تھے ۔ اور بھٹو صاحب بیورو کریسی اور ایف ایس ایف کی مدد سے پاکستان میں عام انتخابات کا میلہ سجا رہے تھے۔ پتہ نہیں کیوں کہا جاتا ہے کہ تاریخ خود کودہراتی ہے لیکن و اقعی اب تاریخ اپنے آپ کو دہرارہی ہے۔ آصف زرداری بھی سندھ میں بھٹو کے اُسی فارمولے پر عمل پیرا ہیں۔ تحریک انصاف سندھ کے صدرنادر اکمل لغاری ''نئے پاکستان‘‘ کی سیاست چھوڑ کر پیپلز پارٹی کی صوبائی سیاست میں شامل ہو چکے ہیں ۔ مسلم لیگ (ن) کے اسماعیل راہو نے پیپلز پارٹی سے ہاتھ ملا لیاہے۔ انہیں اس بات کا شائد دکھ ہوگا کہ وزیر اعظم نے شیرازیوں کو زیادہ لفٹ کرائی۔ اُن سے نہ صرف ہاتھ ملا یا بلکہ گلے بھی ملے۔۔۔۔ فنڈزدیئے۔۔۔۔ اسکیموںکا اعلان کیا۔ سندھ ایک عجیب و غریب صوبہ ہے۔ اس کی مثال ایک ہاتھ میں خربوزے پکڑنے جیسی ہے۔ جہاں ایک کو راضی کرو تودوسرا ناراض ہو جاتا ہے۔ ایک کو منائو تو دوسرا قابو سے نکل جاتا ہے ۔ موقع کا فائدہ اٹھا کر سردار نبیل گبول پہلے ہی پیپلز پارٹی میں اپنے لئے آرام دہ جگہ ڈھونڈ چکے ہیں ۔ ان کا خیال تھا کہ وہ لیاری کے بے تاج بادشاہ بن جائیں گے لیکن بھٹو کی حالیہ برسی پر پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں اچانک صنم بھٹو کا ذکر آگیا۔ بینظیر بھٹو کی بہن ہونے کی وجہ سے پیپلز پارٹی میں اُن کا بہت بڑا مقام ہے اور یہ کہا گیا کہ وہ لیاری سے الیکشن لڑیں گی۔ یہ خبر واقعی سچ ہے یا پھرنبیل گبول کا ''سیاسی سائز‘‘ چھوٹا کرنے کیلئے کوئی نیافارمولا لایا گیا ہے ۔ سندھ میں یہ بھگدڑجاری تھی کہ مسلم لیگ ن کے لیاقت جتوئی تحریک انصاف کو ''پیارے ‘‘ ہوگئے ۔ وہ کافی عرصے سے اِدھر اُدھر جانے کی سوچ رہے تھے اور بالا ٓخر طویل سوچ بچارکا نتیجہ بھی بنی گالہ پہنچ کر سامنے آگیا ۔ لیاقت جتوئی کو اِس فیصلے کا اُس وقت تو بہت فائدہ ہو سکتا ہے جب ملک میں وہ کچھ ہو چکا ہوگا جس کا کسی کو یقین بھی نہیں ہوگا‘ کیونکہ ملک سیاسی افراتفری کی شاہراہ پر چلتے چلتے معاشی طور پر نڈھال ہو گیا ہے۔اورسندھ میںآہستہ آہستہ ''سیاسی خانہ جنگی‘‘شروع ہورہی ہے۔
اسحاق ڈار صاحب نے کہا ہے'' ملکی معیشت میں زراعت کا حصہ صرف 21فیصد رہ گیا ہے ‘‘۔ صنعتوں کو ہم نے ٹیکس اور لوڈ شیڈنگ کے اتنے انجکشن لگائے ہیں کہ وہ بے ہوشی کے عالم سے باہر نہیں آرہیں۔ ایوب خان کے مارشل لا کے وقت معیشت جس مقام پر تھی آج اس کی نصف بھی نہیں ہے۔ ایوب خان کے دور میں وہ لمحات بھی آئے تھے جب پی آئی ڈی سی اور پرائیوٹ سیٹھ صاحبان کی طرف سے روزانہ ایک ‘دونئے کارخانے لگائے جاتے تھے ۔ ایک ‘دو کا ہندسہ تو اب بھی برقرار ہے لیکن یہ کارخانے ایک یادو کی تعداد میں قائم ہونے کے بجائے بند ہورہے ہیں یا پھر خسارے کا بوجھ اٹھانے پر مجبور ہیں۔یہ کیسی جمہوریت ہے کہ ہم نے نوجوانوں کی خوشیاں چھین لی ہیں۔ ہزاروں اسکول بند پڑے ہیں۔ اساتذہ'' سلیمانی ٹوپی‘‘ پہن کر وڈیرے کی اوطاق میںکام کررہے ہیں یا پھرکھیتی باڑی کو ''اوور ٹائم انکم ‘‘کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ سندھ کے اسکولوں کے دروازے اور کھڑکیاں بھی چوری ہوچکی ہیں ۔ اب توکوئی ماہر لسانیات ہی بتا سکتا ہے کہ یہ اسکول بند اسکول کہلائیں گے یا پھر انہیں تباہ وبربادکا ''درجہ‘‘دیا جائے گا۔
سندھ میں آئی جی کی لڑائی ایک بار پھر عوام کو جمہوریت کا مزا چکھارہی ہے۔ اصل کہانی یہ ہے کہ آئی جی ایسا چاہیے جو فرمانبردار ہو ، حکم کی بجا آوری کرتا ہو اوراتنا شریف ہو کہ ذاتی سکیورٹی گارڈ بننے پر بھی راضی ہو ۔اس قسم کے آئی جی کی تلاش میں کئی قابل آئی جیز'' قربان ‘‘ہو گئے اور 2002سے آج تک 12آئی جی ہر حکم کی بجاآوری کے باوجود اپنے گھر وںپر آرام فرما ہیں یا پھر ان کی خدمات وفاق کے حوالے کردی گئی ہیں۔بعض تو ملک چھوڑ کر دبئی جابیٹھے ہیں۔
قہوہ خانوں میں چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے کے عادی دانشوران کا کہنا ہے کہ فوج کی شرافت پر بھی رشک آتا ہے‘ نہ خود فائدہ اٹھاتی ہے نہ کسی کو اٹھانے دیتی ہے ۔جس ملک میں سیاست ''اے ٹی ایم‘‘مشین میں تبدیل ہو جائے وہاں جیسا بھی انقلاب آئے کسی کو حیرت نہیں ہوگی۔ 4دن میں مرغی کی قیمت 100روپے کلو کا اضافہ ہو جائے ۔۔۔۔کمشنر اور ڈپٹی کمشنر گوالے بن جائیں اور دودھ کے ریٹ طے کرنے کو ''سرکاری ڈیوٹی‘‘ سمجھیں۔۔۔۔ کپاس کی عالمی منڈیاں ہم سے چھننے لگ جائیں۔۔۔۔ ایسے معاشرے میں ہم کیسا انقلاب لاسکتے ہیں۔ نہ ہم وقت پر جہاز اڑا سکتے ہیں۔۔۔۔ نہ ٹرین چلا سکتے ہیں۔۔۔۔ بسوں کی حالت تو پہلے ہی بے بس ہے ۔۔۔۔ چنگ چی رکشہ کی کیسی ہونی چاہیے اس کا فیصلہ تو سپریم کورٹ کررہی ہے۔ وزارت ٹرانسپورٹ کے اہلکاروں کو تو صرف حاضری رجسٹر کی ''باڈی‘‘کا پتہ ہے ۔ ہم نے تو اپنے معصوم بچوں اور شادی کی محفلوںمیں خوشیاں منانے والی لڑکیوں کی آنکھوںسے ستارے چھین لئے ہیں ۔ مہنگائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ ہماری بہنیں ‘بیٹیاں مہندی کی رسم کا ہلہ گلہ بھی نہیں کرسکتیں۔۔۔ مہنگائی نے تو جوتا چھپائی کی رسم تک ختم کردی ہے۔ 1977 میںذوالفقار علی بھٹو نے اپنے مخالفین کو سہالہ ریسٹ ہائوس میں شاہانہ نظر بندی کی سزادی تھی جبکہ وہ بھٹو کے سرپر ہل چلانا بھی چاہتے تھے اور ان کا یہ بھی نعرہ تھا کہ ہم بھٹو کو کوہالہ کے پل پر اُلٹا یا سیدھا لٹکائیں گے ۔۔۔ لیکن اب بھٹو کی قبر پر فاتحہ خوانی کرنے والے اتنے شیر دل ہو گئے ہیں کہ وہ سندھ میں اپنے سب سے بڑے معصوم سے مخالف فاروق ستار کو چاکیواڑہ تھانے میں بند کرتے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری سیاست کہاں کھڑی ہے۔ ہم اختلاف کو دشمنی تک لے جارہے ہیں۔ سیاست میں اس کے اثرات اچھے نہیں نکلیں گے۔ ایم کیو ایم کے وائٹ پیپرکے بعد ایک پرانے سیاسی کارکن نے بڑا تلخ جملہ کہا کہ'' جب ایم کیوایم بپھرتی ہے تواس کا ایک ہی مطلب ہوتا ہے کہ بڑی تبدیلی آنے والی ہے یا بڑی تبدیلی نا گزیر ہے کیونکہ اسلام آباد اور راولپنڈی کی کئی اہم خبریں کراچی سے ''لیک ‘‘ہوتی ہیںاورکراچی ایک بارپھر گرم ہورہا ہے۔