"ISC" (space) message & send to 7575

گُم سُم کراچی… !!

مشتاق احمد یوسفی نے لکھا ہے کہ ''جب تک انسان کسی شہر سے خوب رج کر پیار نہ کرے تب تک اس کی خوبیوں سے واقف نہیں ہوسکتا‘‘۔آج کراچی کو معاشی طور پرگُم سُم دیکھ کر یوسفی صاحب کو خراج تحسین پیش کرنے کو دل چاہ رہا ہے کہ واقعی ان کے تحریر لکھنے سے آج تک کراچی سے خوب رج کر پیار کرنیوالا نہیں ملا،جو پیار کرتا ہے اس کے پاس کرنے کو کچھ نہیں اور دیگر کی محبت مجبوری کی مرہون منت ہے ۔کراچی پر ایک کے بعد ایک'' معاشی حملے ‘‘ہورہے ہیں ۔کبھی بارش نے کاروبار تباہ کیا تو کبھی ٹریفک جام نے مارکیٹوں کو ''جام‘‘ کر کے رکھ دیا۔کبھی ٹرین ڈرائیوروں کی ہڑتال نے نقل و حرکت میں خلل ڈالا تو کبھی آئل ٹینکرز نے کھٹارا گاڑیاں کھڑی کرکے شہریوں کو پیٹرول کی بوند بوند کیلئے ترسادیا۔پاناما کیس نے پہلے ہی اسٹاک ایکسچینج کا تیاپانچہ کررکھا ہے ۔
بارشوں کے بعد جہاں کراچی ''وینس ‘‘بنا وہیں ہول سیل مارکیٹیں تھائی لینڈ کے ''آبی بازاروں ‘‘میں تبدیل ہوگئیں،ہردکان میں پانی اورسامان کی مقدار تقریباً برابر ہوچکی تھی۔تاجروں کا دعویٰ ہے کہ مارکیٹیں بندر رہنے کے باعث انہیں پانچ ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا،خریداربھی پانی میں ہی کہیں غائب ہوگئے۔ کراچی کو دوسرا جھٹکا ٹرین ڈرائیوروں کی ہڑتال کے بعد لگا ،جب پنجاب اور دیگرصوبوں کے تاجروں نے ''زنجیر‘‘کھینچ کر سرمایہ کاری کی ٹرین بھی روک دی۔پہلے ہی کاروبار نہیں تھا رہی سہی کسر اس ہڑتال نے پوری کردی ۔کراچی ابھی اس ہڑتال کے زخموں کا لہو چاٹ رہا تھاکہ آئل ٹینکرز ایسوسی ایشن نے سانحہ احمد پور شرقیہ کے متاثرین کے ساتھ کراچی کے تاجروں کی ''قبر‘‘بھی کھود دی۔اس ہڑتال سے کراچی سے ملک بھر کو ایکسپورٹ اور امپورٹ بند ہونے سے تاجروں کو ایک دن میں 8ارب روپے کا خسارہ بادلِ نخواستہ برداشت کرنا پڑاجو تین روز میں 12ارب روپے سے تجاوز کرگیا ۔کراچی میں پیٹرول نایاب ہوگیا،کہیں سوروپے اور کہیں ڈیڑھ سو روپے لِٹر بلیک میں فروخت ہونے لگا۔کراچی کے شہری کبھی ڈوبتے اور کبھی ترستے ہیں ،پانی میں ڈوبنے والوں کو پیٹرول کی ''بو ‘‘بھی نصیب نہیں ہورہی تھی ۔
ہمارے ملک میں'' ہڑتالی کلچر‘‘نے سب کچھ تباہ کردیا ۔جدید چین کے بانی مائوزے تنگ اگر پاکستان میں ہوتے تو صدمے سے دوبارہ مر جاتے۔ مائوزے تنگ اپنی زندگی میں قوم کو وصیت کرگئے تھے کہ'' میری برسی پر دو گھنٹے زیادہ کام کرکے سوگ منانا‘‘۔آج بھی چینی باشندے مائوزے تنگ کی برسی پر دوگھنٹے اضافی کام مفت کرتے ہیں۔عظیم قوموں کی روایت اسی کو کہتے ہیں۔
پاناما کا ہنگامہ اسٹاک ایکسچینج پر بہت بھاری ثابت ہوا۔53ہزار پوائنٹس سے زیادہ پر پہنچنے والاحصص بازار 45ہزار تک آگیا ۔پاناما کیس کا فیصلہ محفوظ ہوتے ہی اسٹاک مارکیٹ بھی کچھ عرصے کیلئے ''محفوظ ‘‘ہوگئی ۔جب تک مقدمے کی سماعت جاری رہی مارکیٹ میں اتارچڑھائو رہا۔ایک تجزیہ نگار نے کہا کہ پاناما میں جج صاحبان کے ریمارکس سننے ہوں تو اسٹاک ایکسچینج کودیکھ لیں،سمجھ آجائے گا کہ ریمارکس کا ''پلڑا‘‘کس جانب جھکا رہا۔دو ماہ سے 100انڈیکس میں9ہزار پوائنٹس کی کمی نے سرمایہ کاروں کے اربوں روپے ڈبودیئے۔گزشتہ دوماہ سے جاری مندی کے باعث اہم کمپنیوں کے حصص کی مالیت میں بھی واضح کمی ہوئی ہے ۔
امریکی ڈالر کے نرخ 105روپے سے بڑھ کراچانک 109روپے تک پہنچنے سے بھی جہاں ایک جانب قرضہ بڑھ گیا وہیں سرمایہ کاروں کو بھی بھاری نقصان ہوا۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ وفاقی وزیرخزانہ اسحق ڈار نے فوری انکوائری کا حکم صادر فرمایا لیکن اب تک کسی ''گناہ گار‘‘کا سراغ نہیں لگایا جاسکا ۔
پورا کراچی شہر اس وقت ''مندی ‘‘کے جھٹکے برداشت کررہا ہے ۔حکومت کی جانب سے ود ہولڈنگ ٹیکس کے بعد بینکوں کی صورتحال بھی کافی خراب ہے۔ نقد لین دین ''راکٹ‘‘ کی طرح اوپر جارہا ہے ۔شہر کے اہم تجارتی مراکز میں بھی مندی کسی آسیب کی طرح چھائی ہوئی ہے۔تاجر روز بروز دیوالیہ ہورہے ہیں ۔تادم تحریر پچاس فیصد سے زیادہ تاجر اپنا کاروباربچانے کے ''مشن‘‘میں مصروف ہیں ۔کئی ہول سیل تاجروں نے تویہ تک کہا ہے کہ'' نقد تو دور ادھار کا گاہک بھی دستیاب نہیں‘‘ ۔
کراچی کے تاجروں کو اس بات کی زیادہ تشویش ہے کہ وہ اس ماہ کی تنخواہیں‘بجلی کے بل‘کرایہ اور دیگر اخراجات کس طرح اداکریں گے؟بڑے کاروباری ادارے بڑے جہازوں کی طرح ہچکولے کھارہے ہیں ،کاروباری افراد یہ سمجھ نہیں پارہے کہ مارکیٹ سے سرمایہ کہاں چلا گیا؟مارکیٹ میں چھوٹے گاہکوں کی چہل پہل تو ہے لیکن بڑے گاہک نے مارکیٹ کا رخ کرنا ہی چھوڑ دیا ہے اور مارکیٹ کے اندر سرمائے کی گردش نہ صرف بتدریج رکتی جارہی ہے بلکہ ''غائب‘‘بھی ہورہی ہے ۔اگر ملکی معیشت کا یہی حال رہا تو کاروباری دنیا کی اقتصادی بحالی میں بھی مہینوں لگ جائیں گے اور ملکی معیشت مزید نیچے چلی جائے گی ۔
کراچی کے بازاروں میں آج کل بہت سناٹا ہے ،جہاں کبھی پیدل چلنا مشکل تھا وہاں چھوٹی کار بھی باآسانی گزرسکتی ہے ۔ہول سیل مارکیٹ صرف ''سیل‘‘کے بل بوتے پر کھڑی ہے،یہ ختم ہوگئی تو مارکیٹ ہی ختم ہوجائے گی ۔کلاتھ مارکیٹ میں بھی وہ گہما گہمی نہیں رہی کہ آدمی بیٹھے بٹھائے دہلی کے چاندنی چوک کو یاد کرلے ۔معیشت پر سکوت ِ مرگ طاری ہے ۔ہر طرف شکوہِ وفا کا بازار گرم ہے ۔ کہیں ہمیں دوبارہ پتھر کے زمانے میں تو نہیں دھکیلا جارہا ؟بجھی بجھی سی پیلی پیلی عمارتیں ‘بلب کی مدھم ہوتی روشنی اور بدتمیزی کے چیختے چنگھاڑتے ہارن یہی کہہ رہے ہیں کہ ہم آہستہ آہستہ معاشی طور پر مررہے ہیں،نئے کارخانے لگ ہی نہیں رہے،پرانوں کا دم نکل رہا ہے۔سائٹ ایسوسی ایشن کے ''مردہ خانوں‘‘سے پرانے کارخانوں کی میتیں بھی یکے بعد دیگرے نکل رہی ہیں ۔افسوس تو یہ ہے کہ ہمیں اپنے دکھوں کا احساس ہی نہیں ہے۔موت نے ہمیں ہر طرف سے گھیر رکھا ہے اور ہم ہیں کہ قطار در قطار بیٹھے اپنی ہی بربادیوں کا نوحہ پڑھنے کیلئے صرف اشارے کے منتظر ہیں۔
اگر کراچی لی کوان یویامہاتیرمحمدکے پاس ہوتا تو اس کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔ٹاور سے قائدآباد اور ٹاور سے سرجانی تک اسکائی ٹرینیں چل رہی ہوتیں۔شہری صدر سے ایئرپورٹ تک ''ٹیوب‘‘سے سفر کرتے۔ساحل سمندر رات بھرجگمگاتارہتا۔سمندر کا پانی اتنا شفاف ہوتاکہ ریت کے ذرے بھی نظر آتے۔پچاس سے ساٹھ کلومیٹر طویل فلائی اوور زکا جال بچھا ہوتا۔ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کا سوچ کر بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے۔سڑکوں پر ایک بھی گڑھا نہ ہوتا۔یہ تصور بھی نہ کیا جاسکتاکہ بجلی ایک لمحے کیلئے جاسکتی ہے،لوگ پوچھتے کہ لوڈ شیڈنگ کیا ہوتی ہے؟سرمایہ کار ی تھوک کے حساب سے آتی،بے روزگاری ختم ہوچکی ہوتی،سنگاپوراور ملائیشیا کراچی کے سامنے حیدرآباد اور سکھرجیسے شہر نظر آتے لیکن کراچی میں یہ سب کچھ اسی لئے ممکن نہ ہواکہ اسے کوئی ٹوٹ کر چاہنے والا حکمران ہی نہیں ملا۔یہاں تو سندھ اسمبلی میں ''بھنگ ‘‘پینے اور پلانے کے مشورے دئیے جاتے ہیں۔جہاں ٹریفک جام میں صوبائی وزراء خود پھنسے رہتے ہوں، وہ اس مسئلے کے حل کہاں سے تلاش کرسکتے ہیں۔یہ سب کچھ ''وژن‘‘ سے ہوتا ہے۔بلند سوچ کے حامل لیڈر قوموں کیلئے سوچتے ہیں۔یہ سب کچھ اسی صورت ممکن ہے کہ یوسفی صاحب کے جملے پر ہی عمل کرلیا جائے کہ ''جب تک انسان کسی شہر سے خوب رج کر پیار نہ کرے تب تک اس کی خوبیوں سے واقف نہیں ہوسکتا‘‘۔

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں