مجھے کیوں نکالا؟... یہ سوال صرف سابق وزیر اعظم نواز شریف ہی نہیں کراچی کے ڈیڑھ کروڑ شہری بھی پوچھ رہے ہیں‘ جنہیں مردم شماری کے مکھن میں سے بال کی طرح نکال دیا گیا ہے۔ کراچی کے ساتھ ظلم و زیادتی کا سلسلہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ ابھی بلدیاتی اداروں کی آہیں‘ مہنگی بجلی کی صدائیں‘ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی سسکیاں اور ٹریفک جام کی ہچکیاں بھی نہیں رکی تھیں کہ مردم شماری کے حیرت انگیز اور ناقابل یقین نتائج نے کراچی کو ''نفسیاتی مریض‘‘ بنا دیا ہے۔
مردم شماری کے غیر حتمی نتائج میں کراچی کی آبادی ایک کروڑ 70 لاکھ ظاہر کی گئی‘ لیکن محکمہ شماریات کے ابتدائی نتائج میں کراچی کی آبادی مزید کم کرکے ایک کروڑ 49 لاکھ کر دی گئی ہے۔ ان نتائج کے مطابق لاہور کی آبادی ایک کروڑ گیارہ لاکھ بتائی گئی ہے۔ فیصل آباد بھی راتوں رات پاکستان کا تیسرا بڑا شہر بن گیا‘ اور اس کی آبادی 32 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے... جبکہ حیدر آباد جیسا شہر بھی گرتے پڑتے آٹھویں نمبر پر پہنچ گیا ہے۔ 17 ارب روپے خرچ کرنے کے بعد بھی مردم شماری نے نہ گنتی پوری کی اور نہ ہی مسئلہ حل کیا‘ بلکہ لگتا ہے کہ مردم شماری خود آنے والے دنوں میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ بننے والی ہے۔
پاکستان میں مردم شماری کے متنازعہ نتائج کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ مردوں کی تعداد خواتین سے زیادہ ہے اور اسلام آباد میں صرف 133 خواجہ سرا رہائش پذیر ہیں۔ مردم شماری کی حتمی رپورٹ تو اپریل 2018ء میں جاری کی
جائے گی لیکن ابھی عبوری نتائج پر ہی ہنگامہ ہو رہا ہے تو اپریل تک یہ معاملہ سنگین رخ اختیار کر سکتا ہے۔ ایک قابل توجہ بات یہ بھی ہے کہ پورے لاہور کو شہری (اربن) علاقہ ڈکلیئر کیا گیا لیکن کراچی کے دو اضلاع کو تاحال دیہات قرار دیتے ہوئے کھیتی باڑی کے لئے چھوڑ دیا گیا ہے۔ ضلع ملیر کو بھی کراچی میں شامل نہیں کیا گیا۔ ملیر اور گڈاپ کی ایک بڑی آبادی کو بیٹھے بٹھائے شہر سے دیہات میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ کراچی کی آبادی میں سب سے زیادہ اضافہ ملیر میں ہوا‘ جس کی شرح 105 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ 1998ء میں کراچی کی آبادی 90 لاکھ 33 ہزار تھی یعنی شہرِ قائد کی آبادی میں گزشتہ مردم شماری سے اب تک 60 فیصد اضافہ ہوا ہے... جبکہ لاہور کی آبادی 51 لاکھ 43 ہزار افراد پر مشتمل تھی‘ جس میں 116 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ لاہور کی آبادی تو ''ڈبل‘‘ سے بھی زیادہ ہو گئی‘ لیکن کراچی کی آبادی کیوں نہ بڑھ سکی؟ اس سوال کا جواب صرف ادارہ شماریات کے پاس ہے۔ منی پاکستان کہلائے جانے والے شہر کراچی کو آبادی کی دوڑ میں پیچھے چھوڑ دیا گیا۔ اعداد و شمار چیخ چیخ کر یہ کہہ رہے ہیں کہ آئندہ مردم شماری میں لاہور کو ملک کا سب سے زیادہ آبادی والا شہر بنا کر سب کو حیران کر دیا جائے گا۔ حالیہ نتائج میں تو لاہور کو پاکستان کا سب سے بڑا ڈویژن بنا دیا گیا ہے‘ جس کی آبادی ایک کروڑ 93 لاکھ جبکہ کراچی ڈویژن کی آبادی ایک کروڑ 60 لاکھ بتائی گئی ہے۔ ماہرین کے مطابق کراچی میں ہزاروں کی تعداد میں کثیر منزلہ عمارتیں موجود ہیں جبکہ لاہور میں عام طور پر چار منزلہ عمارتیں ہیں۔ اس کے علاوہ پورے ایشیا میں سب سے زیادہ کچی آبادیاں کراچی میں ہیں۔ رقبے کے لحاظ سے بھی کراچی اور لاہور میں بہت بڑا فرق ہے... اس لیے آبادی میں فرق قریب کا نہیں بلکہ آدھے آدھے کا ہونا چاہیے۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی اور لاہور‘ دونوں شہروں کی طرف نقل مکانی ہوئی ہے۔ کراچی میں جو نقل مکانی ہوتی رہی ہے وہ آبادی پنجاب‘ خیبر پختونخوا، باجوڑ، سوات‘ کوئٹہ اور دیگر علاقوں سے آئی ہے‘ جہاں روزگار کے مواقع نہیں ہیں... یا پھر گزشتہ کچھ برسوں سے وہاں جنگ کی صورتحال رہی ہے۔ ایک معاشی ماہر نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ مردم شماری کی جب لسانی تفصیلات آئیں گی تو اس میں بھی تبدیلی کے امکانات موجود ہیں... اس میں اردو سپیکنگ کا شیئر کم دکھایا جائے گا جبکہ سندھی اور پشتون بولنے والوں کا شیئر بڑھایا جا سکتا ہے... سرائیکیوں کو پنجابی شمار کیا جاتا ہے یا وہ خود پنجابی بتاتے ہیں اس کا بھی وقت آنے پر معلوم ہو گا۔
کراچی کے ساتھ ایک اور ہاتھ یہ بھی ہوا ہے کہ عارضی رہائشی افراد کو ان کے آبائی علاقے میں گنا گیا ہے۔ اس عمل سے مردم شماری پر تحفظات اور خدشات کو مزید تقویت مل رہی ہے۔ معترضین یہ بھی کہتے ہیں کہ کراچی میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو رہتے کراچی میں ہیں... سڑکیں کراچی کی استعمال کرتے ہیں... سیوریج سسٹم کراچی کا استعمال کرتے ہیں... پانی کراچی کا استعمال کرتے ہیں... گیس کراچی کی استعمال کرتے ہیں... بجلی کراچی کی استعمال کرتے ہیں... تو ان کے حصے کا مالیاتی فنڈ ان کے آبائی علاقوں کو کیسے دیا جا سکتا ہے؟ ایک رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ عارضی رہائشی افراد کے حوالے سے خدشات کو دور کرنے کے لئے مصدقہ اعتراضات معلوم کئے جانے کے بعد تیسری پارٹی کے ذریعے ''رینڈم سروے‘‘ بھی کرایا جا سکتا ہے اور قانون میں اس کی گنجائش موجود ہے۔
کراچی کے ایک ٹاؤن پلانر ڈاکٹر عارف حسن کا کہنا ہے کہ کراچی کی آبادی ڈیڑھ کروڑ نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ کراچی کی آبادی کم ظاہر کرنے کی سیاسی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ کراچی کی آبادی بڑھا دیں تو ''سٹیٹس کو‘‘ متاثر ہو سکتا ہے... انہوں نے بھی اس نکتے کو اٹھایا کہ ملیر اورگڈاپ کو دیہی علاقہ غلط شمار کیا گیا کیونکہ ملیر ٹاؤن دیہی علاقہ نہیں ہے اور گڈاپ کا ایک تہائی حصہ دیہی نہیں ہے۔
ایک طرف کراچی کی آبادی کم کی گئی تو دوسری جانب سندھ کی آبادی میں بھی ''ڈنڈی‘‘ ماری گئی ہے... اسی لئے ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے احتجاج کے اعلان کے بعد پیپلز پارٹی بھی میدان میں آ گئی ہے۔ کراچی کی آبادی کم دکھانے کا معاملہ چنگاری سے شعلہ بن سکتا ہے۔ شاید اسی لئے ڈاکٹر فاروق ستار نے آرمی چیف سے انصاف کی اپیل کر دی ہے۔
مردم شماری کے نتائج پر پاکستان کا ہر طبقہ مختلف پلیٹ فارمز پر اظہار خیال کر رہا ہے۔ اس میں سب سے دلچسپ اور چٹکلوں اور طنز بھرے تبصرے سوشل میڈیا پر کئے جا رہے ہیں‘ کیونکہ مردم شماری کے بعد لوگوں کی توقعات کچھ اور تھیں‘ لیکن نتائج کچھ اور آئے، مردم شماری کا عبوری نتیجہ آتے ہی سوشل میڈیا پر بھی شور مچ گیا... جتنے منہ اتنی باتیں شروع ہو گئیں۔ کراچی کی آبادی پر لوگوں نے دل کھول کر فیس بک، ٹوئٹر اور دیگر ویب سائٹس پر اظہار کیا۔ کسی نے کہا‘ آدھا کراچی پوچھ رہا ہے، مردم شماری سے ہمیں کیوں نکالا؟ ... کسی نے تبصرہ کیا‘ بِک گئی ہے مردم شماری۔ یہ بھی لکھا گیا کہ یہ کراچی کی نہیں نیو کراچی کی آبادی ہے۔ ملک کی خواتین کی تعداد مردوں سے کم سامنے آنے پر بھی لطیفے بنائے جا رہے ہیں۔ ایک دل جلے نے یہ پیغام بھی دیا کہ ''جس تناسب سے لاہور کی آبادی بڑھ رہی ہے ایک وقت آئے گا کہ صرف لاہور شہر سے ہی دو تہائی اکثریت لے کر کوئی بھی اپنی حکومت بنا لے گا‘‘۔ مزاحیہ پوسٹس اپنی جگہ مگر سوشل میڈیا پر کراچی والوں نے مردم شماری کے نتائج پر شکوک و شبہات کا دل کھول کر اظہار کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ میسیج بھی گردش کر رہا ہے کہ ''اب تو یہ شک پختہ ہو گیا ہے کہ لاہور کے پانی میں کسی نے ''ویاگرا‘‘ملا دیا ہے جبکہ کراچی کے پانی میں ''پودینہ‘‘ شامل کر دیا گیا ہے‘‘... کسی نے یہاں تک کہہ دیا کہ ''سینسس‘‘ کے لئے ''سینس‘‘ سے کام نہیں لیا گیا۔