لیاری کی کراچی میں وہی حیثیت ہے جو کراچی کی پاکستان میں ہے۔ لیاری کبھی سپورٹس اور رت جگوں کی وجہ سے لکھا اور یاد کیا جاتا تھا... یہاں بلوچ‘ کچھی‘ گھانچی اور میمن برادریاں شیروشکر کی طرح رہتی تھیں... آپس میں رشتے بھی ہوتے تھے اور بلوچوں کی سب سے زیادہ خدمت بھی میمنوں نے کی... خیراتی ہسپتال‘ جماعت خانے اور نادار بچوں کے لئے ٹیوشن سینٹر میمن برادری کے مرہون منت تھے... ایم کیو ایم کے ''ہڑتالی دور‘‘ میں جب پورا کراچی بند ہوتا تھا‘ اس وقت لیاری کی بند دکانیں بھی کھل جاتی تھیں... لوگ لیاری کا رخ کرتے تھے... خریداری اور کھانے پینے کی اشیا لیاری میں وافر مقدار میں دستیاب ہوتی تھیں۔ پھر لیاری نے وہ وقت بھی دیکھا جب پستول اور کلاشنکوف کھلونے بن گئے۔ دستی بموں اور راکٹ لانچر سے کم تو کوئی اسلحہ قبول ہی نہ کیا جاتا تھا۔ گینگ وار کا نام خوف کی علامت بن گیا۔ یہاں مختلف گینگز کا قبضہ ہو چکا تھا۔ نوجوانوں کو ڈرگز کی لت لگا کر گینگ میں شامل کر لیا جاتا تھا۔ ہزاروں نوجوان خونخوار درندے بن گئے۔ گینگز کی آپسی لڑائی میں ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ قانون نافذ کرنے والے خاموش تماشائی بنے رہے۔ بھتہ خوری عروج پر پہنچ چکی تھی... کاروباری زندگی دم توڑ چکی تھی... ہر طرف دہشت‘ خوف کا عالم تھا... گینگسٹرز نے ہر جگہ قبضہ کر رکھا تھا... ماں باپ اپنے بچوں کو موت کے منہ میں جاتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ بالآخر لیاری کے عوام نے بچوں کی جان بچانے کی خاطر ٹھٹھہ، بدین، ملیر، دھابیجی میں خیمے لگا کر زندگی کے مشکل ترین ایام گزارے۔
حساس اداروں کی تحویل میں موجود گینگ وار سربراہ عزیر بلوچ لیاری کے ٹرانسپورٹر فیض محمد عرف فیضو ماما کا بیٹا ہے۔ وہ جرائم کی دنیا میں اس وقت داخل ہوا جب 2003ء میں محمد ارشد عرف ارشد پپو گینگ نے اس کے باپ کو قتل کیا۔ اس نے اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لینے کا فیصلہ کر لیا۔ ارشد پپو، عزیر کے فرسٹ کزن عبدالرحمٰن عرف رحمن ڈکیت کا دشمن تھا۔ رحمن ڈکیت، لیاری میں منشیات اور زمین کے معاملات میں ارشد پپو گینگ کے ساتھ دیرینہ دشمنی رکھتا تھا۔
2001ء میں عزیر نے لیاری کے ناظم کا الیکشن بطور آزاد امیدوار لڑا‘ لیکن پیپلز پارٹی کے ایک جیالے حبیب خان نے اسے شکست دی۔ 2012ء تک پیپلز پارٹی درپردہ عزیر کو تحفظ فراہم کرتی رہی۔ ایک دو بار پولیس نے اسے گرفتار کیا تو پی پی پی کے کارکنون کی مداخلت پر فوراً رہا کر دیا گیا۔ پھر اویس مظفر المعروف ٹپی نے لیاری سے الیکشن لڑنا چاہا مگر عزیر نے انکار کر دیا۔ عزیر کے پیپلز پارٹی کی پیپلز امن کمیٹی سے تعلقات خراب ہونے کے فوراً بعد اپریل 2012ء میں لیاری میں آپریشن کا فیصلہ کر لیا گیا۔ پی پی پی کے اندرونی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس آپریشن کے آغاز کی وجوہات خالصتاً سیاسی تھیں‘ اسی لئے ایک ہفتے بعد آپریشن ختم کر دیا گیا اور نتیجتاً پی پی پی کو 2013ء کے عام انتخابات میں لڑنے کے لئے لیاری سے ''اپنے لوگ‘‘ منتخب کرنے کی اجازت دے دی گئی۔
عزیر بلوچ کا جے آئی ٹی کے سامنے ریکارڈ کیا گیا بیان گزشتہ دنوں عدالت میں پیش کر دیا گیا... اس بیان میں چونکا دینے والے انکشافات کئے گئے ہیں... حیرت ہوئی کہ اتنا اہم بیان ٹی وی چینلز اور اخبارات میں توجہ کیوں نہ حاصل کر سکا... ایک دو ٹی وی چینلز نے چند منٹ صرف کئے... باقی نے یہ بھی گوارا نہیں کیا۔ عزیر بلوچ نے اعترافی بیان میں بڑے بڑے نام لئے ہیں۔ عزیر بلوچ نے اعتراف کیا کہ سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ نے ان کے مقدمات اور سر پر مقرر انعام ختم کرایا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں اتنا با اثر تھا کہ قومی و صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ میرے کہنے پر دیئے گئے... سینٹرل جیل کے حوالدار امین عرف لالہ کو 2011ء میں بدلہ لینے کے لئے قتل کیا‘ جب کہ غازی خان، شیر افضل خان اور شیراز کو بھی میں نے ہی قتل کیا اور پھر ان کی لاشوں کو تیزاب کے ذریعے مسخ کر دیا گیا۔ بیان میں عزیر بلوچ نے یہ الزام بھی لگایا کہ انہوں نے آصف زرداری کے لئے 14 شوگر ملوں پر قبضہ کیا۔
ایسے اعترافی بیانات کتنے اہم ہوتے ہیں... اس کا اندازہ مصطفی کمال‘ انیس قائم خانی اور صولت مرزا کے بعد سے بخوبی ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی کی درجہ اول کی قیادت بھی ان الزامات کی لپیٹ میں ہے۔ ایسے سنگین الزامات ایک سال سے لگ رہے ہیں لیکن اب تک کوئی ایکشن نظر نہیں آیا۔ ڈاکٹر عاصم نے بھی کئی انکشافات کئے تھے۔ ذوالفقار مرزا نے قرآن سر پر رکھ کر وہ کچھ کہا‘ جس کے بعد سے آج تک وہ منظرنامے سے ہی غائب ہیں۔
صولت مرزا کو کے ای ایس سی کے سربراہ کے قتل کے الزام میں سزائے موت ہوئی تھی... لیکن اس کے لیے ایم کیو ایم نے کبھی بھی یہ نہیں کہا کہ ہم اسے نہیں جانتے بلکہ یہ کہا کہ ہم اس کو ایم کیو ایم سے فارغ کر چکے ہیں۔ اس کے برعکس پیپلز پارٹی کے رہنما متعدد ویڈیوز اور تصاویر منظر عام پر آنے کے باوجود عزیر بلوچ کے ساتھ اپنی لاتعلقی کا اظہار کر رہے ہیں جن میں سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ بھی شامل ہیں۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا عزیر بلو چ جھوٹ بول رہا ہے؟ یا اس کے ''سچ‘‘ کی اب وہ اہمیت نہیں جو ماضی میں کبھی ایسے بیانات کی ہوتی تھی... واقفان حال کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی پر ''ہتھ ہولا‘‘ کر دیا گیا ہے... کیونکہ اب شریف برداران کی باری ہے... اور شاید یہ بھی پالیسی کا حصہ ہے کہ ایک وقت میں چومکھی لڑائی نہ لڑی جائے... بلکہ سب سے ایک ایک کرکے نمٹا جائے۔
لیاری گینگ وار کے تمام اہم کردار ایک ایک کرکے مارے جا چکے ہیں... رحمن ڈکیت کو پولیس مقابلوں کے ماہر افسر چوہدری اسلم نے مقابلے میں مارا... بابا لاڈلہ بھی ایک مقابلے میں جان سے گیا... شاید اسی لئے یہ کہا گیا کہ عزیر بلوچ اگر پولیس کی حراست میں ہوتا تو اب تک مارا جا چکا ہوتا۔
عزیر بلوچ کے الزامات انتہائی سنگین نوعیت کے ہیں... لیکن تحقیقات کون کرے گا یہ سوال بھی انتہائی اہم ہے... موجودہ حالات میں کمزور و ناتواں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کوئی ''رسک‘‘ نہیں لیں گے۔ اس وقت وفاقی کابینہ تو اپنے مسائل میں گھری ہوئی ہے۔ پہلے سنتے تھے اسمبلی کا کورم پورا نہیں ہوتا۔ اب تو کابینہ کا کورم بھی پورا نہ ہونے کی اطلاعات آ رہی ہیں... مختلف وزراء مختلف مسائل سے دوچار ہیں۔ چیئرمین نیب کی تقرری بھی اللہ اللہ کرکے ہوئی ہے... پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی ''ڈیل‘‘ کی باتیں بھی زبان زدِ عام ہیں... سندھ حکومت اور پولیس مل کر ایک چاقو والے کو پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں... ایسی صورت میں عزیر بلوچ کی باتیں کسی کیلئے کیا اہمیت رکھتی ہیں... لیکن یہ ضرور ہے کہ آج نہیں تو کل عزیر بلوچ کے ان بیانات کے ''آفٹر شاکس‘‘ ضرور آئیں گے... بقول شاعر
قریب ہے یارو روزِ محشر چھپے گا کشتوں کا خون کیونکر
جو چپ رہے گی زبانِ خنجر لہو پکارے گا آستیں کا
لیاری کبھی سپورٹس اور رت جگوں کی وجہ سے لکھا اور یاد کیا جاتا تھا... یہاں بلوچ‘ کچھی‘ گھانچی اور میمن برادریاں شیروشکر کی طرح رہتی تھیں... آپس میں رشتے بھی ہوتے تھے اور بلوچوں کی سب سے زیادہ خدمت بھی میمنوں نے کی... خیراتی ہسپتال‘ جماعت خانے اور نادار بچوں کے لئے ٹیوشن سینٹر میمن برادری کے مرہون منت تھے... ایم کیو ایم کے ''ہڑتالی دور‘‘ میں جب پورا کراچی بند ہوتا تھا‘ اس وقت لیاری کی بند دکانیں بھی کھل جاتی تھیں... لوگ لیاری کا رخ کرتے تھے... خریداری اور کھانے پینے کی اشیا لیاری میں وافر مقدار میں دستیاب ہوتی تھیں۔ پھر لیاری نے وہ وقت بھی دیکھا جب پستول اور کلاشنکوف کھلونے بن گئے۔