''شریفوں‘‘ کی حکومت ''آخری پارٹ‘‘ میں داخل ہو چکی ہے... چند ماہ بعد الیکشن کی تیاریاں شروع ہونے والی ہیں... لیکن ابھی سے ایسے حالات پیدا کئے جا رہے ہیں کہ کسی طرح ''سیاسی شہادت‘‘ نصیب ہو جائے۔ معیشت کی حالت اتنی ابتر ہو چکی ہے کہ سٹاک ایکسچینج اس سال کی کم ترین شرح 40 ہزار پوائنٹس سے بھی نیچے چلا گیا ہے... گردشی قرضے بڑھتے جا رہے ہیں۔ پاکستان کا یہ المیہ ہے کہ کوئی نہ کوئی اہم وزارت ہر وقت ''خالی‘‘ رہتی ہے۔ چار سال تک وزیر خارجہ نہ ہونے کے سبب پاکستان دنیا بھر میں تنہا ہوتا گیا... بھارت اور ایران کو تو چھوڑیں افغانستان نے بھی آنکھیں دکھانا شروع کر دیں... اس دوران طورخم بارڈر بھی خاصے عرصے کے لئے بند رہا۔ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ 2013ء میں جہاں تھا‘ آج بھی وہیں ہے۔ آج خزانے کا حال بھی اسی لئے برا ہے کہ وزیر خزانہ ہی نہیں ہیں۔ ایسے حالات میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کراچی میں کچھ تلخ مگر حقائق پر مبنی گفتگو کی... جس کو ملک بھر میں سراہا گیا‘ لیکن شاید یہ گفتگو وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کو پسند نہیں آئی... اور انہوں نے اس پر جواب دینا ضروری سمجھا‘ لیکن جواب ایسا دیا گیا‘ جس کی ان سے توقع نہ تھی۔ لگ رہا تھا کہ احسن اقبال بھارتی آرمی چیف کو کہہ رہے ہوں کہ ''آپ ہمارے معاشی معاملات میں دخل نہ دیں‘‘۔ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے جواب الجواب میں کہا کہ انہوں نے ایک نجی ٹی وی چینل سے کی گئی بات چیت میں بولا کہ ''ڈی جی آئی ایس پی آر نے غیر ذمے دارانہ بیان دیا‘‘ وزیر داخلہ کے اس بیان پر انہیں بطور سپاہی اور پاکستانی دکھ ہوا‘ میرا کوئی بیان ذاتی نہیں پوری فوج کا موقف ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا‘ ''میں اپنے الفاظ پر قائم ہوں‘ میں نے کہا تھا کہ معیشت پر مل بیٹھ کر کام کرنا ہے‘ یہ نہیں کہا تھا کہ معیشت غیر مستحکم ہے‘ اگر سکیورٹی اچھی نہیں ہو گی تو معیشت بھی اچھی نہیں ہو گی‘ مضبوط ملک بننے کے لئے سب کو ٹیکس ادا کرنا چاہیے‘‘۔
احتساب عدالت میں ہنگامہ آرائی اور احسن اقبال کے بیان کو تجزیہ کار پاک افواج اور عدلیہ پر حملہ قرار دے رہے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب ڈونلڈ ٹرمپ جیسا پاکستان مخالف امریکی صدر بھی پاک فوج کی تعریف کر رہا ہو... وائٹ ہائوس سے تہنیتی پیغام جاری ہو رہا ہو... امریکی وزیر دفاع پاک فوج کی شان میں قصیدے پڑھ رہے ہوں... یورپی ممالک پاک افواج کی خدمات کو سراہ رہے ہوں... اپنوں کی باتیں غیروں سے زیادہ دکھی کرتی ہیں۔ ہمارے اپنے وزرا شیشے کے گھروں میں بیٹھ کر دوسروں کو پتھر مارنے کا کام کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن اس وقت انتہائی بوکھلاہٹ کا شکار ہے... جس کا ثبوت احتساب عدالت میں ہنگامہ آرائی سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے کی کوششیں کرنے والی جماعت اس سال 12 اکتوبر کو یوم سیاہ منانا ہی بھول گئی... پورے ملک میں کوئی جلسہ‘ ریلی‘ سیمینار تو دور ایک پریس کانفرنس بھی نہیں کی گئی... شاید مسلم لیگ ن کے ''سیاسی کیلنڈر‘‘ سے 12 اکتوبر کی تاریخ غائب ہو رہی ہے... حالانکہ مسلم لیگ ن کے پاس صرف دو ہی دن‘ 28 مئی اور 12 اکتوبر‘ ہیں جسے وہ خود زور و شور سے مناتی رہی ہے... 12 اکتوبر تو ختم کر دیا گیا‘ خدشہ ہے کہ آئندہ سال 28 مئی بھی بھول بھلیوں میں کہیں کھو نہ جائے۔
پیپلز پارٹی کو ''پاناما لیکس‘‘ اور عمران خان کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ کڑے احتساب کی جو شدید لہر سندھ کی جانب آئی تھی... وہ اب چھوٹی چھوٹی لہروں میں تبدیل ہو رہی ہے... نواز شریف کی نااہلی نے سندھ حکومت کو سکھ کا سانس لینے کا موقع دیا... پیپلز پارٹی میں خوبی یہ ہے کہ اس میں بے شمار اختلافات ہونے کے باوجود بعض معاملات پر پی پی رہنما متفق ہیں... ان کے درمیان ایسی لڑائی نہیں ہوتی جیسی پنجاب میں ہو رہی ہے۔ پنجاب کی حکومت اس معاملے میں عجیب ہے کہ عدم اعتماد سب کو ہے لیکن تحریک عدم اعتماد کوئی نہیں لاتا۔ ایک کالم نویس نے لکھا کہ ''نواز شریف کو ووٹ سب دیتے ہیں‘ لیکن ان کے لئے سڑکوں پر نکلنے کو کوئی بھی تیار نہیں‘‘۔
پاکستان کے آئین کو آہستہ آہستہ جتنی ''برائیوں‘‘ سے پاک کیا جا رہا ہے اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ارکان پارلیمنٹ وفاداری تبدیل کرنے سے پہلے سو بار سوچیں گے... انہیں یا تو نیا الیکشن لڑنا ہو گا یا پھر وہ پرانی تنخواہ پر ہی کام کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے۔
بڑے پیر پگاڑا مدظلہ العالی نے کبھی کہا تھا کہ ''پاکستان کی قومی اور صوبائی اسمبلیاں بلدیاتی ادارے ہیں‘ ان کا کام لوگوں کے بلدیاتی مسائل حل کرنا ہے‘‘۔ عام تاثر یہ تھا کہ پیر پگاڑا مدظلہ العالی نے یہ بات طنزیہ کہی تھی‘ لیکن اب تو سب کچھ اظہر من الشمس ہے... جس طرح کی قانون سازی ہو رہی ہے‘ اس میں دانائی دور دور تک نظر نہیں آتی... پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے لیکن آج تک نیب آرڈیننس کے علاوہ کرپشن کے خلاف کوئی قانون تیار نہیں ہوا۔ نیب میں پلی بارگننگ کی شق عدالتوں کے ہاتھوں رسوا ہو چکی ہے۔ افسوس کہ پیر پگاڑا کی بات سندھ اسمبلی پر پوری نہیں اتری۔ یہ اگر بلدیاتی ادارے جتنا کام بھی کر لیتی تو کراچی کی حالت آج ایسی نہ ہوتی جیسی ہے... سمجھ نہیں آتا کہ فنڈز کہاں جاتے ہیں... ارکانِ پارلیمنٹ کے صوابدیدی فنڈز کہاں خرچ ہو رہے ہیں؟ اس کا جواب کسی کو معلوم نہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بات پر بحث ہو کہ پاکستان کو جمہوری سسٹم سے چلایا جا سکتا ہے یا نہیں۔ جمہوریت میں سب بولتے ہیں‘ خاموش صرف وہ رہتا ہے جسے بولنا چاہئے۔ جمہوری نظام کی بڑی خوبیاں ہیں‘ اگر 100 ارکان اسمبلی یہ فیصلہ کر لیں کہ پاکستان کی معاشی پالیسیاں تبدیل ہوں گی تو باقی سب کو چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی تسلیم کرنا ہی پڑے گا۔
ایوب خان نے ابتدا میں یہ کہا تھا کہ یہ ملک جمہوریت کے قابل نہیں ہے اور انہوں نے بنیادی جمہوریت کا نظام متعارف کرایا... اختیارات نچلی سطح پر منتقل کئے... لیکن آج کی جمہوریت کو بھی دیکھ لیں... تمام جماعتوں پر نگاہ ڈالیں تو سب ایک ہی حمام میں کھڑے نظر آئیں گے... مسلم لیگ ن ہو یا تحریک انصاف‘ پیپلز پارٹی ہو یا جے یو آئی (ف) کسی نے اپنے اختیارات میں کوئی ''شیئرنگ‘‘ برداشت نہیں کی۔ ایم کیو ایم واحد جماعت ہے جو اب تک بلدیاتی اداروں کے حقوق کے لئے آواز بلند کر رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس آواز کو اتنی شدت سے ان فورم پر نہیں اٹھایا گیا جتنی ضرورت تھی۔ بلدیاتی اداروں کی سب سے زیادہ خراب صورتحال بھی سندھ میں ہے جہاں سڑکیں‘ سیوریج لائنیں اور دیگر مسائل کے حل کے لئے بھی سائیں کی جانب دیکھنا پڑتا ہے... عالمِ اسلام کے سب سے بڑے شہر کراچی کو ریونیو پیدا کرنے کے کام پر ''متعین‘‘ کر دیا گیا ہے... اور اس کے دکھ‘ درد سے کسی قسم کا تعلق رکھنا بھی جرم سمجھا جاتا ہے۔