شیکسپیئر نے کہا تھا ''نام میں کیا رکھا ہے‘ گلاب کو کسی بھی نام سے پکارو اس کی مہک کم نہیں ہوگی‘‘۔ لیکن سندھ حکومت شیکسپیئرسے متفق نظر نہیں آتی اسی لئے کہتی ہے ''کام میں کیا رکھا ہے نام ہی بدل ڈالو‘‘۔شاید اسی لئے صوبائی وزیر ثقافت نے کراچی کا حلیہ بدلنے کی بجائے نام بدلنے کی تجویز دی۔
دنیا بھر کے تمام بڑے شہروں نے ترقی کی۔ جو کل مٹی تھے آج سونا بن گئے، کل کا ریگستان آج کا نخلستان ہے ۔کل کے پرانے شہر آج کے جدید شہر ہیں،لیکن کراچی دنیا کا واحدشہر ہے جو ترقی یافتہ سے ترقی پذیر ہورہا ہے۔کراچی نے ترقی سے تنزلی کا سفر کیا۔60ء کی دہائی کے کراچی کو دیکھیں ‘پھر 70ء کی دہائی کا کراچی بھی دیکھ لیں۔ پھر80ء کی دہائی پر نگاہ ڈالیں۔ حتیٰ کہ 2005ئتک کراچی اوپر جارہا تھا ،ترقیاتی کام ہو رہے تھے جو آج کل صرف ہوتے نظر آتے ہیں ۔ایوب خان اور پرویز مشرف کے ادوار کراچی کی ترقی کے سنہری ادوار تھے ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ پرویز مشرف کے دور میں ٹارگٹ کلنگ اوربھتہ خوری کے باوجود کراچی نے ترقی کی ۔یہاں سرمایہ کاری بھی ہوئی، فلائی اوورز بھی بنے،شہریوں نے پہلی بارانڈرپاس دیکھے ،ٹریفک جام کا مسئلہ آج جتنا سنگین نہ تھا،80فیصد ٹریفک سگنل بھی کام کرتے تھے اور ٹریفک پولیس اہلکار بھی اپنی ذمہ داری بخوبی نبھاتے تھے۔ لیکن جب سب کی ''فیوریٹ‘‘پیپلز پارٹی آگئی توپھر ''چراغوں میں روشنی نہ رہی ‘‘۔
کراچی کی تاریخ بڑی عجیب ہے ۔کراچی کی بدقسمتی ایسی ہے کہ اسے کوئی اپنا حکمران بھی نہ ملا۔ وزیراعلیٰ جب آیا۔ اندرون سندھ سے آیا۔میئر بنا تو اختیارات مانگتے مانگتے مدت پوری کرنے والا ہے ، پونے تین کروڑکی آبادی میں کوئی ایسا اہل شخص پیدا نہیں ہوا جو کراچی یا سندھ پر حکومت کرسکے، اہم محکمے بھی کراچی کے شہریوں کی پہنچ سے دور رکھے جاتے ہیں تاکہ جو بھی آئے ''مال پانی‘‘بناکرہی جائے جس کی تازہ مثالیں کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور کے ڈی اے ہیں۔سرکاری ملازمت تو کراچی کے شہریوں کیلئے اب ایک خواب بن گیا ہے ،اب تو جن کے پاس نوکریاں ہیں ان کے مقدمات بھی نیب میں چلے گئے ہیں۔یہ پوچھا جارہا ہے کہ نوکریاں کیسے دی گئیں۔کراچی ملک کے نقشے میں ضرور ہے لیکن قومی پالیسیوں میں نہیں،حال ہی میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے وزارت عظمیٰ کے ووٹ کے بدلے میں کراچی کو 25کروڑ روپے دینے کا وعدہ کیا۔جس کاانتظار جاری ہے۔
وفاقی حکومت بجلی سستی کرے، پانی کی فراہمی بڑھائے۔ گیس کا ناغہ ختم کرے یا کوئی اور اعلان کردے۔کراچی اس فائدے سے محروم ہی رہتا ہے ۔ اب تو خبر بھی اسی طرح شائع ہوتی ہے ''ملک بھرکے لئے بجلی سستی کردی گئی جس کا اطلاق کراچی کیلئے نہیں ہوگا‘‘۔ کراچی کے لیے تو اگرغلطی سے کوئی منصوبہ بھی بنالیا جائے تو وہ صرف کاغذپر بنتا ہے اورکاغذ پر ہی ''فوت‘‘ہوجاتا ہے۔سیانے کہتے ہیں کراچی کا کام صرف ''امپورٹ اورایکسپورٹ‘‘ کرنا ہے۔ وہ دیگر ممالک سے سامان امپورٹ کرکے پورے ملک کوایکسپورٹ کرتا ہے۔ چاہے وہ چاول ہوں، فروٹ ہو‘ سبزی ہو یا کینسر کامریض۔
کراچی کی بلدیہ کاآغاز1933ء میں ہوا۔ ابتدا میں شہر کا ایک میئر‘ ایک نائب میئر اور 57کونسلرہوتے تھے۔1976ء میںبلدیہ کراچی کو ترقی دے کر بلدیہ عظمیٰ کراچی بنا دیا گیا۔ لیکن 5فیصد سالانہ کے حساب سے نقل مکانی کے نتیجے میں بڑھتی آبادی رکنے کا نام نہیں لے رہی بلکہ اس میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔ جس میں اہم ترین سبب دیہات سے شہروں کومنتقلی ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق ہر ماہ 45ہزار افراد کراچی پہنچتے ہیں۔لیکن مردم شماری کے اعدادوشمار دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ کراچی سے لوگ ہجرت کرکے چلے گئے ہیں۔ مزید سامان باندھ کر بیٹھے ہیں ۔جبکہ پنجاب‘بلوچستان ‘خیبر پختونخوا اوراندرون سندھ کے شہری رہتے کراچی میں ہیں۔چلتے یہاں کے فٹ پاتھ پر ہیں ۔گاڑیاں یہاں کی سڑکوں پر چلاتے ہیں ۔پینے کاپانی اورسیوریج یہاں کااستعمال کرتے ہیں۔لیکن مردم شماری میں اپنے آبائی علاقے کا نام لکھواتے ہیں ۔یہ کہاں کا انصاف ہے ۔ آباد ی میں ''تیز رفتار‘‘اضافے لیکن وسائل میں ''تیز رفتار‘‘کمی نے کراچی کا حشر نشر کردیا ہے ۔ سندھ کے ہرضلع میںایک سول اسپتال ہے۔لیکن کراچی کی ایسی قسمت کہاں۔؟کراچی کے ''میٹرنٹی ہوم ‘‘میں ایک اور ضلع کورنگی نے ''جنم‘‘لے لیا لیکن اسپتالوں کے معاملے میں کراچی ''بانجھ ‘‘ہے ۔ایک سول اسپتال کے بعد دوسرے سول اسپتال کے درمیان ''وقفہ‘‘اب تک ختم نہیں ہوا۔اسی لئے دوسراسول اسپتال''پیدا‘‘نہ ہوکا۔کراچی توسب کا وارث ہے لیکن خود'' لاوارث‘‘ ہے۔اورپونے تین کروڑ آبادی کے لئے ایک''سول اسپتال ‘‘ اس کامنہ بولتا ثبوت ہے۔
جس طرح دولت سے '' غریبی ‘‘ خریدی نہیںجاسکتی۔ اسی طرح کراچی کے مسائل کا حل بھی دولت کے ساتھ ذہانت میں پوشیدہ ہے۔ماضی میں وفاق کراچی کی سوتیلی ماں بنا ہواتھا لیکن اب سندھ حکومت سوتیلے باپ کا سلوک کررہی ہے ۔کراچی میں ترقیاتی کاموں کی رفتار کا اندازہ لگانا ہو تو ملیر 15کا فلائی اوور دیکھ لیں ۔ گرین لائن بس سروس منصوبے کا کام اس کے بعد شروع ہوا ۔لیکن اس منصوبے کے ایک درجن کے قریب فلائی اوورز مکمل ہوچکے ہیں جبکہ پیپلز پارٹی اپنے حلقے کا ایک فلائی اوور اب تک مکمل نہ کرسکی ۔
کراچی ایک توانا گائے کی طرح ہے۔ ہر ''پہلوان ادارہ ‘‘ اس کا دودھ پینا چاہتا ہے لیکن چارہ اور کھل دینے کے وقت ان کے پاس پیسے ختم ہوجاتے ہیں۔پاکستان کے جو بڑے بڑے محکمے اور ادارے اس شہر سے اربوں روپے کے ٹیکس سمیٹتے ہیں ۔ان کی سنگ دلی کا عالم یہ ہے کہ وہ کراچی کی خوبصورتی میں اضافے اور ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لئے ایک گملے کی شراکت پر آمادہ نہیں ۔چھوٹی سوچ اور تنگ دلی کے اس عمل میں وفاق اور صوبائی حکومت ایک ہی ''پیج ‘‘پر ہیں۔ان کے عمل اور سوچ میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔ اسی لئے کراچی کی ترقی چالیس سال سے جہاں تھی وہیں ''ساکت‘‘ ہے۔ سڑکیں‘ فٹ پاتھ‘ درخت اور دیواریں سب ٹوٹ رہی ہیں۔جو سڑکیں ''ثابت‘‘ہیں انہیں سندھ حکومت خود توڑ رہی ہے۔اس وقت کراچی میں گردوغبار کا راج ہے۔لوگ بیمارہورہے ہیں ۔گاڑیاں تباہ ہورہی ہیں۔لیکن نہ سندھ حکومت کو اس کی پروا ہے اور نہ ہی''مغویہ بلدیہ‘‘ کراچی کو اس کی فکرہے ۔ بلدیہ کراچی تو آج کل خود اپنے مسائل سے دوچارہوگئی ہے۔ اس کے ڈپٹی میئر ارشد وہرہ پاک سرزمین پارٹی کو ''پیارے‘‘ ہوگئے ہیں ۔جبکہ میئر وسیم اختر بھی اب پارٹی مسائل سے دوچار ہیں ۔منگل کے روز سٹی کونسل کا اجلاس بھی بمشکل پانچ منٹ ہی چل پایا ۔
سندھ حکومت کی نظر میں اس وقت کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ آئی جی سندھ ہیں۔اسی لئے اس نے تمام امور پس پشت ڈال کر آئی جی سندھ کو فارغ کرنے کے نت نئے طریقے ڈھونڈنے شروع کردیئے ہیں ۔سندھ حکومت کو اچانک یاد آیا کہ آئی جی بائیس گریڈ کا ہونا چاہیے ۔اس کیلئے کابینہ حرکت میں بھی آگئی اور آناً فاناً فیصلہ بھی کرلیا گیا کہ اب بائیس گریڈ سے کم پر کام نہیں چلے گا لیکن پھر کسی سیانے نے مشورہ دیا کہ لوہا لوہے کو کاٹتا ہے اس لئے سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے۔بس یہ ہے سندھ حکومت کی کارکردگی۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایشوز کو کس طرح ''مخاطب‘‘کیا جارہا ہے ۔
کراچی کی کھدی ہوئی سڑکیں‘ نامکمل فلائی اوورز ‘کچرے کے ڈھیر‘ ابلتے گٹر‘ صحت کی ناپید سہولیات‘ مسلسل ٹریفک جام‘ اسٹریٹ کرائم میں بتدریج اضافہ‘ مہنگی بجلی‘ لوڈشیڈنگ اور بے پناہ مسائل کا حل بھی شاید یہی ہے کہ کراچی کا نام پھر سے کلاچی رکھ دیا جائے تاکہ شہری آج سے پچاس سال قبل کے کراچی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں۔