حیدر آباد کے پریس کلب کے باہر فٹ پاتھ پرایک ہزار پچاس دن سے احتجاجی دھرنا دینے والا منو بھیل انصاف کے حصول کے لئے تڑپتا رہا۔ منو بھیل کے بیوی بچوں اور ماں سمیت خاندان کے نو افراد کو ایک زمیندار نے اغوا کروا کے ''لاپتہ‘‘ کر دیا تھا۔ منو بھیل کو زمیندار کی نجی جیل سے بھاگنے کا موقع ملا‘ جس کے بعد اس نے وہاں مقید اہل خانہ اور باقی 70 ساتھی کسانوں کو رہائی بھی دلوا دی... لیکن یہ آزادی دیرینہ نہیں تھی‘ اور دو سال بعد منو بھیل کے خاندان کے افراد کو زمیندار نے پجارو جیپ میں پھر اغوا کروا لیا... اغوا کے وقت منو بھیل کی بیٹی گیارہ سال کی تھی اور بیٹا پانچ برس کا۔ منو بھیل اپنے اغوا شدہ اہلِ خانہ کی رہائی کے لئے اپنے علاقے ڈگری (میر پور خاص) کے تھانے سے لے کر عدل کے اعلیٰ ایوانوں تک انصاف کے لئے نو سال دیوانہ وار پھرتا رہا... لیکن انصاف ان سے دور دور ہی رہا۔
بھیل صوبہ سندھ میں ہندوؤں کی سب سے نچلی ذات ہے۔ اس ذات کے بیشتر لوگ کھیت مزدور ہیں۔ ان کی شنوائی ہونا ایک معجزے سے کم نہ تھا۔ ان دنوں سویڈن کے ایک شہری ''بوروگ اساکسین‘‘ کی شکایت پر اُس وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے سوئوموٹو ایکشن لیا اور آئی جی سندھ کو منو بھیل کے اہل خانہ کو بازیاب کرانے کا حکم دیا تھا۔ یہ پہلا ''سوئوموٹو‘‘ تھا جس کی گونج پورے پاکستان میں سنائی دینے لگی... لوگ ''سوئوموٹو‘‘ کا مطلب پوچھنے لگے... اس ''سوئوموٹو‘‘ میں جب ڈی آئی جی سطح کے افسر کے خلاف بھی کارروائیاں ہونے لگیں تو ایک موقع ایسا بھی آیا کہ سپریم کورٹ نے آئی جی سندھ کو تفتیشی افسر مقرر کیا... اور منو بھیل کو انصاف کی فراہمی کے لئے آئی جی سندھ کو بھی کٹہرے میں لا کر کھڑا کر دیا گیا۔
ایک قانون دان کے مطابق‘ از خود نوٹس ان ممالک میں لیے جاتے ہیں‘ جہاں انتظامیہ اور قانون ساز ادارے ناکام ہو جاتے ہیں... بد انتظامی بڑھ جاتی ہے... اچھی حکمرانی نایاب ہو جاتی ہے... عوام کو انصاف کی فراہمی ناپید ہو جاتی ہے... سفارشی کلچر عروج پر ہوتا ہے... اور کوئی کسی کی داد و فریاد سننے کو تیار نہیں ہوتا۔ سپریم کورٹ کے ہر چیف جسٹس کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لینے کا اختیار حاصل ہوتا ہے مگر افتخار محمد چودھری شاید پہلے چیف جسٹس تھے... جنہوں نے ''سوئوموٹو‘‘ کا بھرپور استعمال کیا اور یوں انہوں نے ہزاروں لوگوں کے چھوٹے چھوٹے مسائل حل کئے۔ پاکستانی معاشرے میں بااثر سمجھے جانے والے پولیس افسروں، سرداروں، وڈیروں یا بیوروکریسی‘ سب ہی کو افتخار محمد چودھری کی عدالت میں جوابدہ ہونا پڑا تھا۔ جن کیسوں پر جسٹس افتخار چودھری کی وجہ سے عام مظلوم عوام کو داد رسی کا حق ملا‘ ان کی تعداد سینکڑوں میں نہیں ہزاروں میں ہے... مختاراں مائی کے ساتھ زیادتی‘ زاہدہ پروین کا قتل‘ سونیا ناز کی پولیس کے ہاتھوں توہین‘ اکبر بگٹی کا قتل‘ لال مسجد آپریشن‘ گمشدہ افراد کا معاملہ‘ سونے کے ذخائر اور سٹیل ملز کی ارزاں نرخوں پر فروخت سمیت اتنے مقدمات ہیں جن کا ذکر کرنے کی کوشش کی جائے تو جگہ کم پڑ جائے گی۔
مجھے یوں لگتا ہے کہ افتخار چودھری کے جانے کے بعد ''سوئوموٹو ‘‘بھی کہیں چلا گیا۔ جسٹس تصدق حسین جیلانی‘جسٹس ناصر الملک‘جسٹس جواد ایس خواجہ‘ جسٹس انور ظہیر جمالی بھی چیف جسٹس بنے لیکن ''سوئوموٹو ‘‘واپس نہیں آیا... لیکن آج کی عدلیہ کو دیکھیں تو ماضی کی یادیں تازہ ہو رہی ہیں... چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے ''سوئوموٹو‘‘ کے لئے ترسنے والی قوم کو پھر ایک سہارا دیا ہے... غریب عوام اور ''خالی جیب‘‘ والے سفید پوش افراد انصاف کے لئے پھر عدالت عظمیٰ کی جانب ہی دیکھ رہے ہیں۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے جس طرح ہفتہ اور اتوار کو کراچی اور لاہور رجسٹری میں عدالتیں لگانا شروع کی ہیں... اس کی وجہ سے بیوروکریسی اور انتظامیہ کی نیندیں اڑ چکی ہیں... انہوں نے میڈیکل کالجز کو پابند کر دیا کہ سالانہ فیس ساڑھے چھ لاکھ روپے سے زائد نہ ہو... دودھ والوں سے کہا کہ ہڑتال کرو یا احتجاج!! انجیکشن والا دودھ فروخت نہیں ہونے دیں گے... منرل واٹر کے نام پر مضر صحت پانی فروخت کرنے والی دو درجن کمپنیاں بند کرنے کا حکم دیا... وی وی آئی پی موومنٹ کے نام پر سڑکیں بند کرنے پر آئی جی سندھ کی باز پرس کی... جعلی مقابلوں پر پے در پے ایکشن لئے... قصور کی زینب‘ مردان کی عاصمہ‘ کراچی کے نقیب اللہ اور انتظار قتل کیس سمیت متعدد واقعات پر ''سوئوموٹو نوٹس‘‘ لئے جا چکے ہیں... مقدمات کی سماعت بھی تیزی سے جاری ہے... بس فیصلے بھی آنے کو ہیں۔
جہاں اتنے ''سوئوموٹو ایکشن‘‘ لئے گئے ہیں‘ وہیں کراچی کا ایک مسئلہ ایسا ہے جس کا ''سوئوموٹو ایکشن‘‘ کے سوا کوئی حل نظر نہیں آتا... کراچی میں اس وقت دو درجن سے زائد مقامات پر ترقیاتی کاموں کے نام پر دھول اور مٹی اُڑانے کا مقابلہ جاری ہے... فلائی اوورز کی تعمیر تو گھنٹوں میں شروع ہو جاتی ہے‘ لیکن تکمیل کے لئے مہینوں کا وقت بھی کم پڑ جاتا ہے... اس وقت شہر کی کوئی ایسی سڑک نہیں جو ''ترقیاتی کاموں‘‘ کی '' زد‘‘ میں نہ آئی ہو... ان ترقیاتی کاموں کے ''گمنام ٹھیکیدار‘‘ نجانے کس طرح کام کر رہے ہیں... کبھی ان کے فنڈز کسی جلسے میں استعمال ہو جاتے ہیں تو کبھی رقم کی فراہمی ایک خواب بن جاتی ہے۔ ایسے حالات میں یہ ٹھیکیدار ''فرار‘‘ ہو جاتے ہیں... پھر دوسرے ٹھیکیدار ڈھونڈنے میں وقت کا ضیاع ہونا فطری عمل ہے... کراچی پورے ملک کو جتنا ٹیکس دے رہا ہے‘ اس کا دس فیصد بھی کراچی پر خرچ نہیں ہو رہا... پیپلز پارٹی کی حکومت نے توگویا قسم کھا رکھی ہے کہ تیز رفتار ترقیاتی کام کرنے ہی نہیں... لاہور کراچی سے بہت آگے نکل چکا ہے... لاڑکانہ کو کراچی بنانے کے دعوے کرنے والوں نے کراچی کو ہی لاڑکانہ بنا کر رکھ دیا۔ کراچی کی اہم ترین شاہراہوں کا بھی یہ حال ہے کہ منہ پر کپڑا رکھے بغیر آپ گزر نہیں سکتے... کراچی میں پہلی بار ''ماسک‘‘ کی فروخت میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے... مٹی اور دھول سے دمے کے مریضوں کی تعداد بھی مسلسل بڑھتی جا رہی ہے... وہ وقت بھی دور نہیں جب اسی دھول مٹی سے متاثرہ لوگ دمے کے مریض بن جائیں گے... اور پھر ان مریضوں کے لئے ہسپتال قائم کئے جائیں گے اور ان کا افتتاح بلاول بھٹو زرداری ہی کر رہے ہوں گے۔
جناب چیف جسٹس صاحب!! آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ کراچی کا ایک ''بلوچ کالونی فلائی اوور‘‘ دنیا کا واحد فلائی اوور تھا‘ جس پر ٹریفک سگنل تھا... گاڑیاں یہاں لال بتی پر کھڑی ہوتی تھیں... اور پھر سبز ہونے پر روانہ ہوتی تھیں... جب اس فلائی اوور پر کریک پڑنے شروع ہوئے تو انجینئرز کو بلایا گیا... انہوں نے سر پکڑ لئے کہ فلائی اوور گاڑیوں کو گزارنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں... ان گاڑیوں کا وزن فلائی اوور کے اوپر ڈالنے کی حماقت کیوں کی جا رہی ہے؟ بس پھر آناً فاناً اس فلائی اوور کا ایک حصہ گرا دیا گیا اور وہاں سے سگنل ختم کرایا گیا... جس کے بعد اس فلائی اوور کی بھی ''جان میں جان‘‘ آئی۔
کراچی کے ''سست رفتار ترقیاتی کام‘‘ عوام کے لئے عذاب بن چکے ہیں... کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ وفاق اور سندھ حکومت میں یہ مقابلہ ہو رہا ہے کہ سب سے زیادہ سست کون ہے...؟ سندھ حکومت اگر گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ کی ٹیم کو اپنے سست ترین ترقیاتی کاموں کی فہرست بھیج دے تو نوے فیصد امکان ہے کہ سندھ حکومت یہ اعزاز اپنے نام کر لے گی۔
پاکستان کی تاریخ میں اب تک 25 چیف جسٹس آئے ہیں لیکن جس چیف جسٹس نے ''سوئوموٹو‘‘ نوٹس لئے وہ عوام کو یاد رہا... چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کو بھی یاد رکھا جائے گا‘ لیکن اگر وہ کراچی کے اِن سست ترقیاتی کاموں پر ایک عدد ''سوئوموٹو‘‘ لے لیں تو اہالیانِ کراچی انہیں کبھی نہیں بھولیں گے اور دعائیں ضرور دیں گے۔