"ISC" (space) message & send to 7575

اب کون کرے گا رہنمائی؟

جئے سندھ تحریک کو کون نہیں جانتا تھا... سائیں غلام مرتضیٰ سید المعروف جی ایم سید کیلئے مرنے اور مارنے والے کارکن جئے سندھ تحریک کا حصہ تھے۔ جی ایم سید نے سندھی قوم پرستی کا نعرہ بلند کیا جو مارکسزم، کبیر، گرو نانک اور گاندھیائی فلسفۂ حیات کا ملغوبہ تھا۔ 1971ء میں سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد جی ایم سید نے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے ''سندھو دیش‘‘ کا مطالبہ کیا تھا۔ جئے سندھ تحریک کے کارکنان پی پی کے جیالوں سے بھی زیادہ ''تگڑے‘‘ تھے۔ پی پی جیالوں کی اکثریت جئے سندھ تحریک سے ہی آئی تھی... لیکن جی ایم سید نے جب 25 اپریل 1995ء کو 91 سال کی عمر میں جناح ہسپتال کراچی میں آنکھیں بند کیں... تو جئے سندھ تحریک کا وہ حال ہوا کہ آج اس کے دھڑوں کی تعداد بھی کسی کو یاد نہیں۔ کوئی بشیر قریشی کے ساتھ گیا تو کوئی ڈاکٹر قادر مگسی کو نجات دہندہ سمجھنے لگا۔ کسی نے آریسر گروپ بنایا تو کسی نے صفدر سرکی گروپ کی حمایت کی۔ جست، جسقم، جسم، جسمم، ایس ٹی پی، ایس یو ٹی اور عوامی تحریک سمیت بے شمار گروپ بن گئے۔
آج ایم کیو ایم کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہو رہا ہے۔ پہلے ایم کیو ایم کے بطن سے حقیقی نے جنم لیا... پھر پی ایس پی نے اپنا نعرہ لگایا... ایم کیو ایم لندن اور ایم کیو ایم پاکستان بنیں... اور اب ایم کیو ایم پی آئی بی اور ایم کیو ایم بہادر آباد ''انڈر پروسیس‘‘ ہیں۔ یہ اطلاعات آ رہی ہیں کہ ایم کیو ایم حیدر آباد بھی کسی وقت سامنے آ سکتی ہے۔ یہ سب کچھ کیوں ہوا اور کیوں ہوتا رہا ہے؟ اس سوال کا جواب سب کے پاس ہے‘ لیکن بتانا کوئی نہیں چاہتا۔
ایم کیو ایم پاکستان اب تک مہاجر ووٹ کی سب سے بڑی دعوے دار ہے لیکن گزشتہ ایک ہفتے سے جتنا نقصان ایم کیو ایم پاکستان کو ہو رہا ہے... اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ سینیٹ کی نشستوں پر چند ٹکٹیں جاری کرنے پر جب عالم یہ ہے تو آنے والے عام انتخابات میں ارکان قومی و صوبائی اسمبلیوں کے سینکڑوں ٹکٹوں کے اجرا پر کیا حال ہو گا؟ دونوں جانب سے پانچ دن میں 38 سے زائد ''میڈیا ٹاکس‘‘ ہو چکی ہیں... لیکن نتیجہ کوئی نہیں نکلا۔
ایم کیو ایم کا نظم و ضبط پورے ملک میں مثالی حیثیت رکھتا تھا... ڈسپلن میں یہ جماعت سب سے آگے تھی... کسی میں یہ مجال نہ تھی کہ کسی فیصلے کے سامنے ڈٹ جائے... کوئی یہ ہمت نہیں کر سکتا تھا کہ اونچی آواز میں بات کرے... یہ سب کچھ ''ڈسپلن‘‘ کے زمرے میں آتا تھا‘ لیکن بعض عناصر اسے ''خوف‘‘ کا نام دیتے تھے۔ ان کا مؤقف تھا کہ ایسا مثالی نظم و ضبط ''خوف‘‘ کی کوکھ سے ہی جنم لے سکتا ہے۔ آج کی ایم کیو ایم میں سے خوف کے ساتھ ہی ''ڈسپلن‘‘ بھی غائب ہو گیا ہے‘ لیکن ایک انتہائی اہم بات ضرور سامنے آئی... کہ ایم کیو ایم میں سربراہی کا بحران تاحال برقرار ہے‘ جس کی کئی مثالیں سامنے آ چکی ہیں‘ لیکن تازہ ترین واقعہ کامران ٹیسوری کو سینیٹر بنوانے کے معاملے پر سامنے آیا ہے۔ رابطہ کمیٹی کے 21 ارکان عامر خان گروپ اور 12 ارکان ڈاکٹر فاروق ستار کی جانب ہیں‘ لیکن پارٹی سربراہ جس طرف ہو اس کی پوزیشن زیادہ مستحکم ہوتی ہے۔ یہ بات طے ہے کہ ڈاکٹر فاروق ستار اور عامر خان کی لڑائی آج کی بات نہیں‘ بلکہ بہت پرانا معاملہ ہے۔ مہاجر دانشوروں کا کہنا ہے کہ رابطہ کمیٹی اگر فاروق ستار کو ''مائنس‘‘ کرنا چاہتی ہے تو پھر اس کا متبادل کیا ہو گا؟ مہاجروں کا آئندہ لیڈر کس کو بنایا جائے گا؟ انہوں نے رابطہ کمیٹی کے سامنے ایک سوال بھی رکھا کہ ڈاکٹر فاروق ستار کو ایم کیو ایم کا سربراہ کس نے بنایا؟ کیا الطاف حسین نے فاروق ستار کو ایم کیو ایم کا سربراہ نہیں بنایا؟ کیا الطاف حسین کسی اور کو اس قابل سمجھتے تھے کہ وہ پارٹی کی سربراہی کرے؟ بانی ایم کیو ایم نے تو پارٹی کی رجسٹریشن بھی فاروق ستار کے نام پر کروا رکھی تھی۔ ایم کیو ایم کے کنوینر تو ندیم نصرت بھی تھے‘ کیا پارٹی ان کے نام پر رجسٹرڈ نہیں کروائی جا سکتی تھی؟ اس بات پر غور ضرور کرنا چاہئے کہ بانی ایم کیو ایم نے ''سیکنڈ لیڈرشپ‘‘ میں فاروق ستار کو سرفہرست کیوں رکھا تھا؟
کسی خاندان کا سربراہ جب جائیداد کا بٹوارہ کرتا ہے تو ایسی ہی صورتحال درپیش ہوتی ہے جو آج ایم کیو ایم میں ہے۔ اگر چلتا کاروبار بڑے بیٹے کے حوالے کر دیا جائے تو چھوٹے بیٹے اور بیٹیاں دل سے اسے تسلیم نہیں کرتے۔ پھر کوئی شرارتی بیٹا دوسرے بیٹوں کو اپنے ساتھ ملا کر اس کاروبار پر قبضے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ اس سے خاندان کی کتنی بدنامی ہو سکتی ہے۔ لیکن ان کا دعویٰ صرف ایک ہوتا ہے کہ اس ''جائیداد‘‘ پر ہم سب کا برابر کا حق ہے‘ اور اس میں وہ چھوٹے بڑے کی تمیز بھی ختم کر دیتے ہیں۔
ایم کیو ایم کا تنازع پہلے دن ہی حل ہو سکتا تھا‘ لیکن اس کیلئے خلوصِ نیت کی اشد ضرورت تھی؛ افسوس ایسا نہ ہو سکا۔ کسی کے ذہن میں ایسا کوئی حل نہ آیا کہ انا بھی قائم رہے‘ بھرم برقرار رہے اور پارٹی تقسیم ہونے سے بچ جائے‘ حالانکہ اس کیلئے بچوں سے سبق حاصل کیا جا سکتا ہے۔ جب گلی محلوں میں کوئی کھیل کھیلنا ہو تو پہلی باری کیلئے بڑے اختلافات سامنے آتے ہیں۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ پہلی باری اس کو ملے۔ وہ خود کو پہلی باری کا اہل سمجھتے ہیں لیکن وہ کسی پریشانی‘ اختلاف اور تقسیم سے بچنے کیلئے ''پگم پگائی‘‘ یا ''ناموں کی پرچیاں‘‘ ڈال لیتے ہیں۔ یوں یہ معاملہ قسمت کے سپرد ہو جاتا ہے... اور پھر سب کی انا‘ اختیار اور اقدار قائم رہتی ہیں اور مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ایم کیو ایم کی پوری لیڈرشپ کے پاس بچوں جتنی سمجھ بوجھ بھی نہیں تھی کہ کچھ دیرکیلئے خود کو بچہ تصور کرتے ہوئے ''ناموں کی پرچیاں‘‘ ہی ڈال لیتے۔ معاملہ انا اور خودی سے نکل کر قسمت کی ''گرفت‘‘ میں چلا جاتا۔ پھر چاہے اس پرچی پر کامران ٹیسوری کا نام ہوتا یا پھر شبیر قائم خانی کا‘ سب کو قسمت کا یہ فیصلہ دل سے تسلیم کرنا پڑتا۔ یہ کھیل ''بچگانہ‘‘ سہی لیکن اس کا نتیجہ بڑوں کی ذہانت سے بہتر ہو سکتا تھا۔
ڈاکٹر فاروق ستار نے ایک پریس کانفرنس میں یہ دعویٰ کیا کہ ''میری حکمت کو سمجھا جاتا... اگر میرا فیصلہ غلط ثابت ہوتا تو بے شک مجھ سے باز پرس کی جاتی‘‘۔ الیکشن کے ماہرین نے ڈاکٹر فاروق ستار کی حکمت عملی کو سمجھتے ہوئے یہ ضرور کہا ہے کہ ایم کیو ایم کیلئے دو سے تین نشستیں جیتنا مشکل ہے‘ لیکن اگر وہ اپنے پتے درست وقت میں درست انداز سے کھیلتی تو مسلم لیگ فنکشنل اور دیگر جماعتوں کی مدد سے چوتھی نشست بھی جیت سکتی تھی۔ اب ایسا شاید ممکن نہ ہو سکے۔
سینیٹ کے الیکشن آتے ہی ایک منڈی سجتی ہے جس میں ارکان صوبائی اسمبلی کی بولی لگتی ہے... اور پھر کامیاب بولی دہندگان ایک سینیٹر کو ''پیدا‘‘ کرتے ہیں۔ اب تک ملکی سیاست میں یہی ہوتا آیا ہے‘ لیکن 2018 کے سینیٹ الیکشن کی خاص بات یہ ہو گی کہ شاید پہلی بار ایم کیو ایم کے اراکین اسمبلی کی بولی لگ جائے۔ جس جماعت نے خود کو اس ''منڈی‘‘ سے پینتیس سال دور رکھا‘ وہ شاید اب اپنے ارکان اسمبلی کی حفاظت اس مرغی کی طرح نہ کر پائے جو اپنے بچوں کیلئے جان لڑا دیتی ہے۔ پیپلز پارٹی بلوچستان میں ''پرائم گریٹ گیم‘‘ کے بعد اب سندھ میں بھی ''چیف گریٹ گیم‘‘کا انتظار کر رہی ہے۔ ایم کیو ایم میں تقسیم در تقسیم کا فائدہ صرف اور صرف پیپلز پارٹی کو ہو گا‘ اور اس کے ''آفٹر شاکس فائدے‘‘ پاک سرزمین پارٹی کو بھی مل سکتے ہیں‘ لیکن پورا نقصان ایم کیو ایم کو ہوگا۔
ایم کیو ایم بہادرآباد اور ایم کیو ایم پی آئی بی کے طویل ترین ''ٹیسٹ میچ‘‘ نے مہاجر ووٹروں کو شدید پریشانی سے دوچار کر رکھا ہے۔ وہ سوچ رہے ہیں کہ ابھی پہلا الیکشن آیا ہے اور یہ حال ہوگیا‘ اگر اقتدار کے مزے اور کرسی کی گرمی پارٹی رہنمائوں کے اذہان پر چڑھ گئی تو ان کے ووٹو ں کا کیا ہوگا؟ یہ پوری لڑائی اصول کے نام پرلڑی جارہی ہے لیکن لڑائی کے اصول ہی بُھلا دیئے گئے ہیں۔ ایم کیو ایم مڈل کلاس کی نمائندہ جماعت ضرور ہے‘ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ جمہوریت کے نام پر لوگوں کو صرف لڑائی جھگڑے ہی دیکھنے کو ملیں ورنہ پھر جئے سندھ تحریک کی طرح اتنے دھڑے بن سکتے ہیں کہ لوگوں کو ان کے نام بھی یاد نہیں رہیں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں