لوڈ شیڈنگ سے تنگ‘ گرمی سے بلبلاتا‘ روزگار کیلئے تڑپتا‘ کاروبارکیلئے سسکتا‘ پانی کیلئے ترستا عالم اسلام کا سب سے بڑا شہر جلسوں کیلئے حاضر ہے۔ ماضی قریب میں ایم کیو ایم کراچی میں جلسوں کی پہچان تھی۔ جلسہ کیسے کامیاب کرانا ہے؟... لوگ کیسے لانے ہیں؟... اس مہارت میں ایم کیو ایم کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ کرسیوں کا تو تصور ہی نہیں تھا۔ دریوں پر بیٹھ کر جلسہ سننے کی روایت بھی شہری سیاست میںایم کیو ایم ہی لے کر آئی۔ بانی ایم کیو ایم کے ایک اشارے پر پوری تنظیم ''جنات‘‘ کی طرح کام کرتی تھی۔ آناً فاناً دکانیں‘ کاروبار بند اور جلسہ گاہیں آباد ہو جاتی تھیں۔ پورے ملک میں ایم کیو ایم کے جلسوں کی مثالیں دی جاتی تھیں۔ دیگر سیاسی جماعتوں کی حسرت ہوتی تھی کہ وہ بھی ایم کیو ایم جیسا بڑا جلسہ کریں... جس میں سر ہی سر نظر آئیں... عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر دیکھنے کی خواہش تمام لیڈروں کو ہوتی ہے... لیکن جلسوں کیلئے عوام سب کو نصیب نہیں ہوتے۔ یہ سب کچھ پرانے کراچی کی پہچان تھا۔ ایم کیو ایم کے جلسوں میں کتنے لوگ خوشی اور کتنے زبردستی لائے جاتے تھے یہ الگ بحث ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر جلسہ تبت سینٹر پر ہو اور مزار قائد تک لوگ ہی لوگ جمع ہوں تو بغیر پرچم دیکھے سمجھ لیا جاتا تھا کہ ایسا جلسہ صرف ایم کیو ایم ہی کر سکتی ہے۔
لیاقت آباد کراچی کا سب سے زیادہ گنجان آباد علاقہ ہے۔ آج کل یہ جلسوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی نے چوالیس سال بعد لیاقت آباد میں جلسہ منعقد کیا۔ لوگ بھی جمع ہوئے۔ ایم کیو ایم نے اعتراض کیا کہ جلسے کے شرکا باہر سے لائے گئے۔ پیپلز پارٹی کے جلسے میں طویل تقریریں ہوئیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے دھواں دھار خطاب کیا... جس میں الزامات‘ برائیاں‘ غیبتیں سب کچھ تھا... نہیں تھا تو بس لیاقت آباد کے لوگوں کے لئے کوئی پیکیج‘ کوئی سکیم‘ کوئی پالیسی نہیں تھی... کوئی کسی کے گھر بھی جاتا ہے تو کم از کم مٹھائی کا ایک ڈبہ ضرور لے کر جاتا ہے... سوچیں آپ چوالیس سال بعد اگر کسی کے گھر جا رہے ہوں اور وہ بھی خالی ہاتھ تو اس گھر کے مکین دل ہی دل میں آپ کی کتنی ''تعریف‘‘ کر رہے ہوں گے۔ پی پی کا جلسہ ایسے ہی تھا جیسے کوئی ٹرین پلیٹ فارم پر آئی... چندگھنٹے رُکی لیکن کسی مسافر کو اتارے یا چڑھائے بغیر ہی چلی گئی۔
پیپلز پارٹی کے جلسے سے اگر کسی کو فائدہ ہوا تو وہ ایم کیو ایم ہے۔ پیپلز پارٹی نے دو دھڑوں میں ٹوٹی ہوئی ایم کیو ایم کیلئے ''صمد بونڈ‘‘ کا کام کیا۔ بہادرآباد اور پی آئی بی پھر سے ''پاکستان‘‘ بن گئے... جس پر پی پی کے حلقوں میں بھی یہ باتیں ہو رہی ہیں کہ لیاقت آباد کا جلسہ انہی پر ''بھاری‘‘ پڑ گیا... پہلے شہر کے دیگر علاقوں کو ''فوکس‘‘ کرنا چاہئے تھا... پھر لیاقت آباد کا نمبر آتا۔ یہ سب کچھ پرانے کراچی کی پہچان تھا۔ ابھی تو لیاری میں پیپلز پارٹی کو کئی جلسے کرنا پڑیں گے۔ لیاری میں تحریک انصاف اور پاک سرزمین پارٹی کی مقبولیت بھی کافی بڑھ رہی ہے... جو پیپلز پارٹی کیلئے ایک بڑا خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان میں دھڑے بندی سب کیلئے فائدے مند تھی... لیکن پیپلز پارٹی نے فائدے کا یہ ''دروازہ‘‘ خود لات مار کر بند کر دیا۔ جو لڑائی کامران ٹیسوری کی وجہ سے شروع ہوئی وہ بلاول بھٹو زرداری نے ختم کرا دی۔ حیرت انگیز طور پر کامران ٹیسوری کے ''بغیر‘‘ ہی تمام معاملات طے پا گئے اور وہ دروازے پر ہی کھڑے رہ گئے۔ ایم کیو ایم کو یہ بھی یاد آ گیا کہ لیاقت آباد میں ایک جلسہ ناگزیر ہے۔ ٹنکی گرائونڈ میں ایم کیو ایم کا یہ آخری جلسہ ثابت ہوا کیونکہ میئر کراچی وسیم اختر نے ٹنکی گرائونڈ کا نام ہی تبدیل کر دیا۔
جلسوں میں گنتی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ لیاقت آباد کا جلسہ ایم کیو ایم پاکستان کے شایانِ شان نہیں تھا۔ عوام کی اتنی بڑی تعداد اس جلسے میں نہیں آسکی جو ماضی میں ایم کیو ایم کا خاصہ رہی ہے لیکن اگر دونوں دھڑے الگ الگ جلسے کرتے تو شاید رہی سہی کسر بھی پوری ہو جاتی۔ ایم کیو ایم کے جلسے میں ڈاکٹر فاروق ستار کو وہی عزت و احترام دیا گیا‘ جو پہلے دیا جاتا رہا ہے۔ مقررین میں بھی ان کا نمبر آخری تھا... اور خالد مقبول صدیقی نے فاروق ستار سے پہلے خطاب کیا۔ جلسے کی خاص بات ایم کیو ایم کی ''مہاجر صوبہ کارڈ‘‘ تھی جو دبے لفظوں کی گئی۔ پی پی کی تنقید کے جواب میں ''مہاجر صوبے‘‘ کی بات شاید ایم کیو ایم کی پالیسی بن گئی ہے۔ یہ سمجھ نہیں آتا کہ ایم کیو ایم کراچی صوبے (انتظامی طور پر) کیلئے تسلسل کے ساتھ آواز کیوں نہیں اٹھاتی۔ مہاجر صوبے کی بات صرف پیپلز پارٹی کو خوفزدہ کرنے کیلئے ہی کیوں کی جاتی ہے؟ جنوبی پنجاب صوبے کی تحریک تو زوروں پر ہے۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے بھی اپنے گیارہ نکاتی ایجنڈا میں جنوبی پنجاب صوبہ شامل کر رکھا ہے‘ تو کراچی صوبہ تحریک ایم کیو ایم کے منشور میں کیوں شامل نہیں ہے؟ حالانکہ لیاقت آباد میں ہی ایک اور جلسۂ عام مہاجر قومی موومنٹ نے بھی کیا‘ جس میں پارٹی چیئرمین آفاق احمد نے جنوبی سندھ صوبہ تحریک کا آغاز کر دیا ہے۔ کراچی کی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ آفاق احمد کو اس کا فائدہ ضرور ہو سکتا ہے۔ اس وقت کراچی میں کوئی تحریک نہیں ہے... اور مہاجروں کو متحد و منظم رکھنے کیلئے کوئی نہ کوئی تحریک لازم و ملزوم ہے۔ اگر آفاق احمد‘ فاروق ستار اور خالد مقبول صدیقی ایک ہی پلیٹ فارم سے تحریک کا آغاز کریں تو وہ شاید زیادہ موثر ثابت ہو سکے۔ بدنصیبی یہ ہے کہ یہاں ایم کیو ایم کی سربراہی کی تحریک چلتی رہی۔ مہاجر لیڈران طویل عرصے تک ایک دوسرے پر ہی کیچڑ اچھالتے رہے۔ کسی کو سربراہی میں ویٹو پاورز درکار تھیں تو کسی کو کسی کا چہرہ پسند نہیں تھا۔
کراچی میں جلسے کے لئے میدانوں پر لڑائی جھگڑے بھی شروع ہو گئے ہیں۔ تحریک انصاف نے حکیم سعید گرائونڈ میں بارہ مئی کو جلسے کا اعلان کیا تو پیپلز پارٹی بھی اسی میدان میں آ گئی اور اسی گرائونڈ میں اپنے جلسے کا اعلان کر دیا۔ پہلے زبانی تکرار ہوتی رہی اور پھر نوبت پتھرائو‘ جلائو‘ گھیرائو اور ہوائی فائرنگ تک پہنچ گئی۔ تحریک انصاف کا کیمپ بھی نذر آتش کر دیا گیا۔ پیپلز پارٹی نے چوالیس سال قبل لیاقت آباد میں جلسہ اس لئے نہیں کیا کہ اس پر ایم کیو ایم کا خوف تھا‘ لیکن اب جب رینجرز نے کراچی میں امن قائم کر دیا ہے تو وہ گلشن اقبال میں جلسے کیلئے تمام تر ''وسائل‘‘ استعمال کرنے سے پیچھے نہیں ہٹ رہی حالانکہ حکومتی جماعت ہونے کے باعث پی پی کو بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک قدم پیچھے ہٹتے ہوئے تحریک انصاف کو جلسہ کرنے دینا چاہیے تھی‘ لیکن ضد اور انا کے خول بڑے بڑوں کو چھوٹا بنا دیتے ہیں۔
کراچی میں جلسوں کا ''سیزن‘‘ تو عروج پر ہے لیکن مسائل کے حل کا '' سیزن‘‘ کب آئے گا یہ کسی کو معلوم نہیں۔ شدید گرمی میں بجلی کی غیر علانیہ لوڈشیڈنگ نے کراچی والوں کی چیخیں نکلوا دی ہیں۔ پانی ٹینکروں کے علاوہ کہیں دستیاب نہیں۔ راتوں کو سڑکوں کی ''دھلائی‘‘ ضرور ہوتی ہے لیکن جو سڑکیں ''کھدائی‘‘ کا نشانہ بن چکی ہیں ان کی ''بھرائی‘‘ کب ہو گی یہ کسی کو نہیں پتا۔ کراچی کے مصروف کاروباری علاقے صدر کے چاروں اطراف بھی ''خندقیں‘‘ کھود دی گئی ہیں‘ جس کی وجہ سے کاروبار تباہ اور طویل ٹریفک جام معمول بن گیا ہے۔ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے اور اس بابرکت مہینے میں اگر شہریوں کے روزے سڑکوں پر کھلنے لگے تو اس کا ''ثواب‘‘ بھی پیپلز پارٹی کے کھاتے میں جائے گا۔
کراچی سیاحوں کو ترس رہا ہے۔ جو گورے کراچی کی سڑکوں پر گھومتے تھے اب صرف فور سٹارہوٹلز تک محدود ہیں۔ غیرملکی سرمایہ کاری بھی کراچی کا راستہ بھول گئی ہے۔ گیس کی قلت نے انڈسٹریز کا بھٹہ بٹھانے کا کام شروع کر دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھی دس سال پورے کر لئے لیکن تاحال کراچی کو کوئی ''میگا پروجیکٹ‘‘ نہ دے سکی۔ وفاق کے گرین لائن منصوبے کے سامنے بھی شاید کوئی ''ریڈلائٹ‘‘ آگئی ہے۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے لاہور کے ترقیاتی کاموں پر کڑی تنقید تو کرتے ہیں‘ لیکن وزیر اعلیٰ سندھ مرادعلی شاہ سے یہ سوال نہیں پوچھتے کہ آپ نے کراچی کو کیوں اُجاڑا؟ کراچی نے آپ کا کیا بگاڑا ہے؟ لاہور سے مقابلہ تو دورکراچی تو پشاور سے بھی پیچھے جارہا ہے۔ کراچی کے شہری تو دعائیں مانگتے ہیں‘ کاش سندھ کو بھی کوئی شہباز شریف مل جائے جو پورے سندھ کابجٹ کراچی پر لگادے۔ اُسے دعائیں تو ضرور ملیں گی لیکن ساتھ ہی کراچی کا ووٹ بینک ''بونس‘‘ کی صورت میں مل سکتا ہے۔