اللہ رب العزت نے کائنات کی تمام اشیا کو انسان کے فائدے کے لیے تخلیق کیا اور انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا... قرآن کریم کی سورہ رحمن میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''اے گروہ انس و جن!! تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے‘‘... زمین کی یہ خوب صورتی‘ فضا کی فرحت، تازگی اور صفائی، گنگناتی آبشاریں، ٹھنڈے اور میٹھے پانی کے چشمے، زندگی، دریا، بہتی ندیاں، سمندر، برف سے ڈھکے پہاڑ، رنگ برنگے خوبصورت پھول، میٹھے لذیذ مختلف النوع پھل، جڑی بوٹیاں اور ان سے بنی ہوئی دوائیاں جو بیماریوں سے سسکتے ہوئے انسانوں کو صحت اور آرام دیتی ہیں... کیا کسی نے غور کیا ہے کہ ان تمام نعمتوں کا منبع اور سر چشمہ کیا ہے؟ تو یہ ''درخت‘‘ ہی ہیں۔
ملائیشیا ‘تھائی لینڈ اور سری لنکا درختوں کی وجہ سے فطرت کے قریب ترین ہیں... کوالالمپور‘ بنکاک اور کولمبو میں بادل برستے رہتے ہیں... پورا سال بارشوں کا موسم معمول ہے... درجہ حرارت ایک حد تک رہتا ہے... پارہ انسانی جسم کے درجہ حرارت سے اوپر نہیں جاتا... گرمی پینتیس سے اڑتیس ڈگری تک رہتی ہے... وجہ سیدھی اور سادی ہے کہ یہاں درخت کاٹے نہیں جاتے بلکہ لگائے جاتے ہیں ۔
کراچی میں بھی کبھی ایسا ہی موسم ہوتا تھا... درختوں کی بہتات کے باعث پارہ اوپر نہیں جاتا تھا... کنکریٹ کا استعمال کم تھا... جہاں نگاہ جاتی درخت ہی درخت نظر آتے تھے... جان لیوا گرمی کا تصور محال تھا... موسم انتہائی شاندار اور پار ہ چالیس ڈگری سے نیچے ہی رہتا تھا... ہوا میں نمی کی کمی کا بھی کوئی سوچ نہیں سکتا تھا۔
کراچی صرف بجلی‘ گیس اور پانی کا پیاسا نہیں... درختوں کی ٹھنڈی چھائوں بھی کراچی پر مہربان نہیں... یہ گرمی کے غضب کی سب سے اہم اور بڑی وجہ ہے... آپ گھر سے دفتر تک چلے جائیں... ہرے بھرے درختوں سے نظر تر و تازہ نہیں ہوتی... ٹھنڈی چھاؤں کے سائے بھی انتہائی کم ہی ملتے ہیں... کراچی والے پانی‘ بجلی کے ساتھ ٹھنڈی چھاؤں سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔ کراچی میں درختوں کا '' قتل عام ‘‘ بھی معمول ہے... فروری میں کے ایم سی نے باغ ابن قاسم اور بیچ ویو پارک سے درخت اکھاڑے... کلفٹن روڈ پر متعدد درختوں کو کاٹ دیا گیا‘ حالانکہ شہر میں زندہ درختوں کو کاٹنے پر پابندی ہے... جب ہرے بھرے درخت اکھاڑے جائیں گے... پرندوں کے گھونسلے چھینے جائیں گے... جب ٹھنڈی چھائوں پر کلہاڑے چلائے جائیں گے... تو سورج غضب ناک اور موسم بھی برہم ہو گا۔
کراچی میں تین سے چار روزہ گرمی کے دوران 80 سے زائد ہلاکتیں سامنے آئی ہیں... یہ دعویٰ ایدھی فائونڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی نے کیا ہے‘ جسے سیکرٹری صحت سمیت تمام دیگر اداروں نے جھٹلایا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ان تمام دعووں کے برعکس 3 سال پہلے کی صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو ایدھی نے ہی ہیٹ سٹروک سے سیکڑوں ہلاکتوں کا بتایا تھا‘ لیکن محکمہ صحت اس وقت بھی انکار ہی کر رہا تھا۔ بعد ازاں اسی شہر نے گرمی کے قہر سے ڈھائی ہزار جانوں کا ضیاع بھی دیکھا۔
کراچی میں شدید گرمی اور لْو پچھلے 10 سال سے مسلسل بڑھتی ہی جا رہی ہے... ہیٹ سٹروک کی وجہ سے بہت ساری اموات ہو چکی ہیں... اس کی اہم وجوہات سازش یا پھر کراچی میں عوامی دشمنی کے تحت لگائے گئے کانوکارپس نامی درخت بھی ہے... اس درخت کو خصوصی طور پر امریکہ سے لایا گیا‘ اور کراچی میں پلانٹ کیا گیا حالانکہ کانوکارپس پودہ انتہائی حد تک ماحول دشمن ہے... اس کی افزائش اور پیداوار ان علاقوں میں کی جاتی ہے جہاں بارش بہت زیادہ ہوتی ہے تاکہ بارشوں کو روکا جائے۔ یہ درخت قدرتی طور پر بادلوں کو برسنے سے روکتا ہے اور خود اس کو پانی کی ضرورت بہت کم ہوتی ہے... اور زمین کا پانی بھی زیادہ چوستا ہے اور جلد جوان اور تن آور ہو جاتا ہے... لیکن یہ درخت مسلسل کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتا ہے۔ کانوکارپس پودے کو ایک سازش کے تحت 2008ء میں کراچی کو تحفہ کے طور پر دیا گیا... اور پلان کے تحت بہت ہی سستا ریٹ 5 روپے اور 10 روپے رکھ کر بیچا گیا‘ اور جھوٹی عوامی آگاہی مہم چلا کر بہترین ثابت کیا گیا تاکہ عوام خرید کر آسانی سے لگائیں۔ اس کو مختلف ڈیزائنوں میں بھی کاٹا جا سکتا ہے کیونکہ کانوکارپس کے پتے بہت گھنے ہوتے ہیں۔ اس وقت 25 لاکھ سے زیادہ درخت پورے کراچی میں ہر جگہ سڑکوں‘ پارکوں‘ کمپنیوں‘ فیکٹریوں میں لگ کر جوان ہو چکے ہیں۔ بدقسمتی سے عوام کو جب تک پتہ لگا تب تک بہت دیر ہو چکی تھی... اب اس پر حکومت نے پابندی لگا دی ہے... کیونکہ سندھ ہائی کورٹ نے کانو کارپس درخت کو فوری طور پر کاٹنے کا حکم جاری کیا تھا مگر چونکہ کراچی کا کوئی وارث نہیں اسی وجہ سے اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا... اب یہ ہمارا قومی‘ اخلاقی، مذہبی فریضہ ہے کہ اس درخت کانوکارپس کو جلد از جلد کاٹ کر کراچی کو بچایا جائے اور عوام کو شدید گرمی‘ لو اور ہیٹ سٹروک سے نجات دلائی جائے... تا کہ کراچی کا پہلے جیسا رم جھم کرتا خوبصورت موسم بحال ہو جائے۔
سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی نے جہاں موجودہ دور کے انسانوں کو کئی سہولیات بہم پہنچائیں... وہاں انسان کئی فطری مسائل سے بھی دوچار ہوا۔ آبادی میں بے تحاشہ اضافے‘ صنعتوں اور دیگر عوامل نے جنگلات اور درختوں کو متاثر کیا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے تمام براعظموں میں جنگلات کا سرعت سے خاتمہ ہو رہا ہے... یہاں تک کہ بر اعظم آسٹریلیا بھی بچ نہیں پا رہا... اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو کرۂ ارض کا خدا ہی حافظ۔
وطنِ عزیز میں شجر کاری کی مہم سال میں دو دفعہ یعنی موسم بہار اور موسم برسات میں چلائی جاتی ہے... مسلح افواج، محکمہ جنگلات اور کچھ دیگر ادارے شجر کاری کر کے یہ مہم بڑے زور و شور سے لانچ کرتے ہیں... سرکاری طور پر ماہِ جولائی اور مارچ کے وسط سے اس مہم کی ابتدا ہوتی ہے... ان تمام اداروں سے دست بستہ گزارش ہے کہ کراچی پر خصوصی توجہ دیں... ڈھائی کروڑ آبادی کے شہر کو سانس لینے کے لیے کم از کم ایک کروڑ درختوں کی فوری ضرورت ہے... یہ تعداد وقت کے ساتھ ساتھ بڑھائی جائے تاکہ کراچی کا فطری درجہ حرارت بحال ہو۔ جس رفتار سے سیمنٹ‘ بجری اور سریے کا استعمال ہو رہا ہے اسی تناسب سے درخت بھی لگائے جائیں۔ سندھ اسمبلی کو قانون سازی کرنی چاہئے کہ کراچی میں آبادی کے تناسب سے ڈھائی کروڑ درخت لگائے جانے چاہئیں... لیکن اس سے قبل کانوکارپس درختوں کو کراچی سے نکالنا ضروری ہے۔
شدید گرمی میں بھی کے الیکٹرک کی جانب سے لوڈ شیڈنگ کے دورانیے میں کوئی خاص کمی دیکھنے میں نہیں آئی... بن قاسم پاور پلانٹ میں ہالینڈ سے درآمد کردہ نیا پرزہ لگا دینے کے باوجود مختلف علاقوں میں 3 سے 8 گھنٹے لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے... بن قاسم پاور پلانٹ کی فنی خرابی بھی دور کر دی گئی لیکن اب بھی سات سے آٹھ سو میگا واٹ کا شارٹ فال ہے اور کے الیکٹرک کے دعوے کے برعکس لانڈھی، کورنگی، ملیر، لائنز ایریا، اے بی سینیا اور دیگرعلاقوں میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار روس کے دورے پر کیا گئے کے الیکٹرک کراچی کے شہریوں سے گن گن کر بدلے لے رہی ہے... سپریم کورٹ میں کے الیکٹرک نے کہا تھا کہ بن قاسم پاور پلانٹ ٹھیک ہوتے ہی لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائے گی... لیکن اب لگ رہا ہے کہ بجلی کی مصنوعی قلت پیدا کی جا رہی ہے... تا کہ لوڈ شیڈنگ کا عذاب کراچی کے سر پر منڈلاتا رہے۔