ایک تقریب میں کمپیئر نے کچھ یوں انائونسمنٹ کی... ''خواتین و حضرات اب تشریف لاتے ہیں معروف مزاح نگار نور مقصود‘‘... اپنا نام الف کے بغیر سن کر انور مقصود کو بھی تعجب ہوا... لیکن وہ بھی کرانچی کے پان کھانے والے تھے... کمپیئر سے کہنے لگے: میرے بعد والے فن کار کا نام بھی الف سے شروع ہوتا ہے‘ وہاں الف ضرور لگا لینا‘‘۔
برصغیر کے مشہور کامیڈین عمر شریف کراچی کو کرانچی اور پنجابی کے سب سے بڑے کامیڈین امان اللہ خان لاہور کو لہور کہتے ہیں... لیکن دونوں جب سٹیج پر اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے ہوں تو کوئی ان کا تلفظ ٹھیک کرانے کی کوشش نہیں کرتا... کوئی یہ نہیں کہتا کہ یہ غلط اردو بول رہے ہیں... بس لوگ ان کے فن پر اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کو تیار رہتے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے کراچی سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا... لیکن پہلے ہی دن کراچی والوں کی زبان اور ثقافت پر حملہ کر دیا... ان کا کہنا تھا کہ ''پان کھانے والوں کے شہر کرانچی کو لاہور بنائوں گا‘‘۔ ایسا کراچی کے ساتھ پہلی بار نہیں ہوا... ماضی میں بھی بھوکے ننگے‘ زندہ لاشیں‘ مہاجروں کو گالی سمجھنا اور دوسرے کئی ''خطابات‘‘ سے نوازا جاتا رہا ہے۔ جس نے پاکستان بنایا‘ اس قائد اعظم محمد علی جناح نے ہمیشہ کراچی والا ہونے پر فخر کیا۔ پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان بھی کراچی کے سپوت تھے... لیکن کسی نے اس شہر اور یہاں بسنے والوں کے بارے میں ایسی زبان استعمال نہیں کی۔ پنجاب کے چار بار وزیر اعلیٰ رہنے والے شہباز شریف کو نہ جانے کیوں ایسا لگا کہ پان کھانا کوئی جرم ہے... انہیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ اگر ڈاکٹر فاروق ستار‘ خالد مقبول صدیقی‘ مراد علی شاہ یا کوئی سیاستدان لاہور جا کر یہ کہے کہ ''سری پائے کھانے اور لسی پینے والوں کے شہر لہور کو کراچی بنا دیں گے‘‘ تو اس کا مطلب یہی لیا جائے گا کہ پائے کھانے کی عادت چھڑوا کر انہیں لاہور کہنا سکھائیں گے... کیا ایسے جملے پر لاہور میں کوئی ردِ عمل نہیں آئے گا... لاہوری اپنی زبان اور ثقافت پر ''حملے‘‘ کو کیا اس وجہ سے لسی سمجھ کر ''پی‘‘ جائیں گے کہ بولنے والا مہمان ہے اور اسے لاہور کی زبان اور ثقافت کا نہیں پتہ؟ اوپر ذکر کئے گئے جملے کا مطلب ترقی لینا حماقت ہو گا کیونکہ میاں شہباز شریف پورے صوبے کا زیادہ تر بجٹ لہور پر خرچ کر کے پہلے ہی لاہور کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر چکے ہیں‘ جبکہ کراچی کو تو اس کے اپنے حصے کا بجٹ ہی نہیں ملا‘ پورا صوبہ تو دور کی بات ہے۔
آج کل تمام ٹی وی چینلز کے ''نامی گرامی‘‘ اینکر حضرات خود مائیک پکڑ کر گلی گلی گھوم رہے ہیں۔ ان کا عوام سے ایک ہی سوال ہوتا ہے... ''آپ ووٹ کسے دیں گے؟‘‘... حالانکہ کراچی کے ووٹرز کا ''مائنڈ سیٹ‘‘ معلوم کرنے کا فارمولا سادہ سا ہے... کراچی کے ووٹرز کو دیگر سیاسی جماعتیں خود ایم کیو ایم کی جانب دھکیلتی ہیں۔ شہباز شریف کے حالیہ بیان کے بعد منقسم ووٹرز پھر پتنگ کے ساتھ کھڑے نظر آئیں گے۔ کراچی کے ووٹرز کو سمجھنا کراچی والوں کیلئے آسان لیکن ''باہر‘‘ والوں کے لئے مشکل ہے۔ جب آپ کسی کی تضحیک کریں گے تو وہ اپنا ڈھونڈے گا... یہ کراچی کے ووٹر کی نفسیات ہے جسے شاید شہباز شریف صاحب نہیں سمجھ پائے۔ شہباز شریف کی تضحیک آمیز گفتگو کے بعد ان کو مہاجر ووٹ ملنا انتہائی مشکل ہے... انہیں اپنے الفاظ پر کراچی والوں سے معافی مانگنا چاہئے... کیونکہ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کراچی آئے اور یہاں کے باسیوں پر ''کچرا‘‘ پھینک کر شہر کا کچرا چھ ماہ میں اٹھانے کا دلاسہ دے کر چلا جائے۔
شہباز شریف جس وقت کراچی کو صاف پانی دینے کا وعدہ کر رہے تھے‘ اسی وقت ''صاف پانی سکینڈل‘‘ میں کرپشن پر شہباز شریف کو نیب میں طلب کرنے کے احکامات ٹائپ ہو رہے تھے۔ جب پنجاب میں ایمانداری سے صاف پانی فراہم نہ کرنے کا الزام شہباز شریف کے سر ہے تو وہ کرانچی والوں کے ساتھ کیا کریں گے؟
کہتے ہیں ''غریب کی جورو سب کی بھابھی‘‘... کراچی کو بھی سب نے ایسے غریب کی جورو سمجھ لیا ہے جس کا سایہ شاید کراچی پر اس وقت نہیں ہے... اور یہ اب سب کی ''بھابھی‘‘ ہے۔ جو اٹھتا ہے کراچی پہنچ جاتا ہے۔ شہباز شریف نے بھی وہی کیا... جب تک اختیارات ان کے پاس تھے... اقتدار اُن کے نیچے تھا...انہیں پورے پانچ سال کراچی کی یاد نہیں آئی۔ اس وقت نہ کراچی کی سڑکیں ٹوبہ ٹیک سنگھ سے بدتر تھیں... اور نہ ہی کراچی میں کچرے کے ڈھیر تھے... نہ پانی کا مسئلہ تھا اور نہ ہی پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی... بس الیکشن کا اعلان کیا ہوا‘ ایسا لگا کہ کراچی راتوں رات مسائل کا گڑھ بن گیا ہے۔ شاید کوئی خلائی مخلوق کچرا پھینک کر‘ سڑکیں توڑ کر‘ پانی ''پی‘‘ کر‘ بجلی ''چوس‘‘ کر‘ نوجوانوں کی نوکریاں چھین کر‘ پبلک ٹرانسپورٹ تباہ کرکے چلی گئی۔
وفاق کی جانب سے ایک ''گرین لائن منصوبہ‘‘ ایسا دیا گیا جو آج تک مکمل نہ ہو سکا لیکن اب شہباز شریف کراچی کو مزید رنگ برنگی لائنیں دینے کو تیار ہیں۔ شہباز شریف نے کراچی میں ہی خطاب کے دوران کہا کہ ''بے شک آپ ووٹ ن لیگ کو نہ دیں لیکن جسے دیں یہ ضرور پوچھیں کہ اس نے کیا کام کیا ہے‘‘۔ اب کراچی والے شہباز شریف سے ایک سوال ضرور پوچھ رہے ہیں کہ ''آپ نے کراچی کیلئے کیا کام کیا؟ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ آپ پہلے کرانچی کو لہور بناتے‘ پانی لاتے‘ کچرا اٹھاتے‘ سڑکیں بنواتے‘ کراچی سرکلر ریلوے چلواتے‘ کے الیکٹرک کے دو بند پلانٹ ڈنڈے کے زور پر کھلواتے‘ برساتی نالے صاف کرواتے‘ لیاری اور ملیر ندی سے تجاوزات ختم کروا کر پانی کی گنجائش بڑھاتے‘ نوجوانوں کو روزگار دلواتے‘ طلبا کو لیپ ٹاپ سے نوازتے‘ تفریحی مقامات میں اضافہ فرماتے‘ ساحل سمندر کو تفریح کے قابل بناتے‘ غرضیکہ تمام مسائل حل کر دیتے تو آپ کو ووٹ مانگنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ ترقی یافتہ کراچی دیکھ کر لوگ خود ہی شیر پر مہر لگاتے کہ آپ ان کے شہر کے ساتھ مخلص ہیں... آپ خود غرض نہیں ہیں... آپ ''ڈیل‘‘ نہیں کر رہے... آپ ''بلیک میل‘‘ نہیں کر رہے... آپ کو ووٹ اس لئے نہیں چاہئیں کہ آپ کراچی کو ترقی دیں گے بلکہ اس وقت آپ ان ووٹوں کے حق دار ہوتے۔ آپ کراچی میں ایک بھی جلسہ نہ کرتے تو بھی الیکشن جیت جاتے کیونکہ آپ کے کام ہی آپ کے جلسے بن جاتے... آپ کو کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی... اور آپ کراچی والوں کا دل جیت لیتے‘ لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ آپ نے ''کچھ لو اور کچھ دو‘‘ کی سیاست شروع کی ہے۔ ایسی سیاست تو وڈیرے اور جاگیردار کرتے ہیں۔ جہاں کسی بھی گائوں کو ایک پکی سڑک اور ایک بجلی کے ٹرانسفارمر کے بدلے ''خریدا‘‘جاتا ہے۔
میاں شہباز شریف صاحب! آپ نے پیپلز پارٹی پر تو تنقید کی لیکن اپنی کارکردگی نہیں بتائی... صرف ایک ''کارنامہ‘‘ جو آپ بیان کرتے ہیں‘ وہ کراچی میں امن کی بحالی ہے... اور یہ آپ نے اپنے کھاتے میں خود ڈالا‘ حالانکہ ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ کراچی کا امن صرف اور صرف پاک فوج کا احسان اور رینجرز کا کریڈٹ ہے... اس لئے کراچی والوں کو بے وقوف بنانا اتنا آسان نہیں ہے۔
شہباز شریف صاحب!! آپ نے بلاول کی اردو پر کوئی بات نہیں کی... لگتا ہے آپ کو ان کی اردو پسند ہے... حالانکہ آپ تو حبیب جالب کے ''فین‘‘ ہیں... آپ کی انتخابی مہم انہی کی ''انقلابی شاعری‘‘ کی محتاج ہوتی ہے... کراچی کو ''ماں‘‘ کی دعا ہے... شاید اسی لئے دارالحکومت سے لے کر سب کچھ منتقل ہونے کے باوجود اس شہر پر اللہ کا کرم برس رہا ہے... اور پان کھانے والوں کا یہ شہر لوگوں کو سری پائے کھلا اور لسی پلا رہا ہے۔ ملک کا سب سے زیادہ ریونیو اسی شہر سے حاصل ہوتا ہے۔ سیٹھ ناؤمل کے قلعہ نما اس گھرکو مائی کولاچی کی اجازت سے بنایا گیا تھا۔ ان کی دلچسپی صرف اتنی تھی کہ لوگوں کو روزگار ملے۔ اس کا ایک دروازہ میٹھا در تھا۔ میٹھو سندھی میں میٹھے کو کہتے ہیں اور در دروازے کو... اس لئے اردو میں اس کا نام میٹھا در پڑ گیا۔ قلعے کا دوسرا دروازہ سمندر کے کھارے پانی پر کھلتا تھا تو وہ کھارا در کہلایا‘ لیکن کاروبار قلعے کے چاروں طرف ہونے لگا۔ اسی مائی کی دعا کا ایسا اثر ہے کہ آج بھی کراچی کے ان دو علاقوں کا کاروبار پورے ملک پر بھاری ہے۔ کراچی تو پہلے کولاچی تھا جو اس مائی کے نام پر تھا‘ طنز بھرے لہجے میںکرانچی کہنے پر مائی کولاچی کی روح کو بھی تکلیف ضرور پہنچی ہو گی۔