بریڈ فورڈ یونیورسٹی برطانیہ کی مشہور یونیورسٹی ہے۔ یہ دنیا کی 50ویں اور برطانیہ کی ساتویں اچھی یونیورسٹی ہے۔ 2005ء میں یونیورسٹی کو چانسلر کی ضرورت تھی۔ پوری دنیا سے 100 سے زیادہ سکالرز اور بزنس منیجرز کو بلایا گیا‘ جن میں زیادہ تعداد برطانیہ‘ امریکا اور جرمن سکالرز کی تھی۔ فہرست میں برصغیر ہندوپاک سے صرف ایک شخص کو بلایا گیا۔ سلیکشن سے پہلے جرمن سائنسدان کو چانسلر کی سیٹ کے لئے سب سے زیادہ مضبوط امیدوار قرار دیا جا رہا تھا... مگر تمام کہانی اس وقت تبدیل ہوئی جب ٹیلنٹ‘ لیڈرشپ اور ماڈرن سٹڈیز پر بحث میں پاکستانی نے تمام امیدواروں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اس ہال میں بریڈفورڈ کے تمام ڈائریکٹرز کھڑے ہو کر تالیاں بجانے اور داد دینے پر مجبور ہو گئے۔ تب جرمن سائنس دان اس سکالر کے پاس آیا اور کہا: اس پوسٹ پر تم مجھ سے زیادہ قابل بندے ہو۔
کابینہ کی اکثریت نے اس سکالر کو منتخب کر لیا اور کہا ''بولو کتنی تنخواہ لو گے؟‘‘
اس نے چند تاریخی کلمات ادا کئے ''میں یہاں بزنس کے لیے نہیں آیا کیونکہ تعلیم اور پیسے کا ایک دوسرے سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا... میں ایک ایسے ملک سے ہوں جہاں لوگوں کو تعلیم کی بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں... ہمارے پیسے والے لوگ دوسرے ممالک میں جا کے تعلیم حاصل کر لیتے ہیں... جب کہ غریب لوگ اپنے دل میں حسرت لے کر اس دنیا سے چلے جاتے ہیں... یہی ایک اہم وجہ ہے کہ غریب اور امیر کا فرق روز بروز بڑھتا جا رہا ہے... میری زندگی کی خواہش ہے‘ میرے ملک کے وہ لوگ جو دوسرے ممالک نہیں جا سکتے وہ اپنے ملک میں ہی رہ کر اچھی تعلیم حاصل کریں اور بریڈ فورڈ جیسی اچھی یونیورسٹی کی ڈگری حاصل کر سکیں... اس لیے میں اسی صورت بریڈ فورڈ یونیورسٹی جوائن کر سکتا ہوں اگر آپ مجھے میرے ملک کے لیے یہ سہولت دیں‘‘۔
کابینہ کے تمام ارکان اس بات پر حیران رہ گئے۔ کابینہ کی اکثریت اس فیصلہ کے خلاف ہو گئی اور کہنے لگی ''ایسا ممکن نہیں کہ ہم پاکستان میں اپنی ڈگری متعارف کروائیں‘‘۔
سکالر کہنے لگا ''پھر آپ پاکستان کا بندہ بریڈ فورڈ کا چانسلر کیوں بنا رہے ہیں؟‘‘
بات یہاں آ کر رک گئی اور وہ سکالر اٹھ کر چلا گیا۔
بعد میںکرس ٹیلر نے اپنی کابینہ سے کہا ''اس بندے کو ایسے نہ جانے دو‘ اس میں کچھ کر دکھانے کی صلاحیت موجود ہے... جو بندہ اپنے ملک کا وفادار ہو اور کچھ کرنے کا عزم رکھتا ہو وہ کام بھی ہمیشہ اچھا کرتا ہے اور پیسے کا لالچ نہیں کرتا‘ آپ اس کی بات مان لیں‘‘۔
کابینہ نے اس سکالر کو واپس بلایا‘ اور کہا: ہمیں آپ کی تمام باتیں منظور ہیں... آپ پاکستان میں جہاں چاہیں کیمپس بنا سکتے ہیں۔ وہ سکالر 9 سال تک بریڈ فورڈ کا چانسلر رہا۔ 1986ء کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ کوئی بھی شخص اتنے زیادہ عرصے کے لیے چانسلر بنا رہا۔ وہ دسمبر 2005ء میں بریڈ فورڈ یونیورسٹی کا پانچواں چانسلر بنا... اور نومبر 2014ء میں اپنے عہدے سے علیحدہ ہوا۔
اس چانسلر کا نام عمران خان تھا... اور وہ کیمپس اس نے میانوالی میں نمل یونیورسٹی کے نام سے قائم کیا۔ نمل کا نام اس نے قرآن پاک کی سورہ نمل سے لیا۔ نمل عربی زبان میں چیونٹی کو کہتے ہیں۔ سب سے کمزور مخلوق ہونے کے باوجود اللہ کی ذہین ترین اور پختہ ترین ارادوں کے حوالے سے اپنی پہچان رکھتی ہے۔ یہ واقعہ آپ نے کئی بار پڑھا اور سنا ہو گا‘ لیکن عمران خان کی تقریر کے بعد اس واقعے کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے۔ جو شخص ایک یونیورسٹی کے لئے اتنا لڑ سکتا ہے... وہ اپنے ملک کے لئے کیا نہیں کر سکتا۔
نئے پاکستان کے نئے وزیر اعظم عمران خان کی پہلی تقریر نے ہی پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ عمران خان نے ایک روز پہلے کا سادہ ترین قمیض شلوار پہنا ہوا تھا... نہ مہنگا ترین کوٹ پینٹ‘ نہ ہزاروں کی ٹائی‘ نہ کروڑوں کی گھڑی‘ نہ لاکھوں کے جوتے‘ نہ ہاتھ میں پرچیاں‘ نہ لکھی ہوئی تقریر‘ نہ لیپ ٹاپ‘ نہ قرضہ سکیموں کا اعلان‘ نہ کوئی ٹرین‘ نہ میٹرو بس کی باتیں‘ نہ سڑکیں‘ نہ موٹر وے ‘نہ بڑھکیں‘ نہ ڈرامے بازی‘ نہ کمپلیکس‘ نہ مخالفیں پر طعنہ زنی‘ وہ آیا اور اپنے ملک کی قومی زبان میں دل کی باتیں کر کے چلا گیا‘ لیکن بھارتی میڈیا سمیت وہاں کے دانشور بھی عمران خان کو اب سمجھنے لگے ہیں۔ جب بھارتی میڈیا کا منفی پروپیگنڈا نہ تو کپتان کی جیت روک سکا‘ اور نہ ہی بھارتیوں کے دلوں میں نفرت جگا سکا... عمران خان کا بھارت میں اچھا امیج برقرار ہے... اور بھارتی تجزیہ کاروں کی نظر میں عمران خان کی کامیابی پاکستان کے عوام کی تبدیلی کی خواہش کی عکاس ہے۔ کئی تجزیہ کاروں نے لکھا ہے کہ عمران خان نے گزشتہ سات سے آٹھ برس میں عوام کا شعور بیدار کرنے کیلئے جتنی محنت کی ہے‘ اتنی محنت شاید ہی کسی دوسرے رہنما نے کی ہو۔ بھارت میں ان کے بیان کا بھی خیر مقدم ہوا ہے۔ عمران خان وہ واحد سیاستدان ہیں جو پاکستان میں بیک وقت پانچ حلقوں سے منتخب ہوئے۔ اس سے قبل ذوالفقار علی بھٹو چار حلقوں سے الیکشن لڑے تھے‘ لیکن انہیں تین میں کامیابی نصیب ہوئی تھی۔
اب جب نیا پاکستان بن رہا ہے‘ تو نیا کراچی بھی بننا چاہئے۔ خبریں آ رہی ہیں کہ عمران خان لاہور کی نشست رکھیں گے‘ اور کراچی کی چھوڑ دیں گے۔ اس پر کراچی والوں میں ایک تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ عمران خان کو کراچی والوں نے اتنی عزت دی ہے کہ ان کی اپنی نشست کے ساتھ شہر سے نہ صرف سب سے زیادہ نشستیں جتوائیں بلکہ ایم کیو ایم کو عزیز آباد اور پیپلز پارٹی کو لیاری جیسے سیاسی قلعوں سے محروم کر دیا۔ عمران خان کو کراچی سے 21 میں سے 14 نشستیں ملی ہیں۔ کراچی نے یہ عزت عمران خان کو دی ہے‘ ورنہ ان کے بیشتر امیدواروں کو کوئی جانتا ہی نہیں... پاپولر ووٹ نے عمران خان کو جتوایا۔
کراچی طویل عرصے سے احساس محرومی کا شکار ہے۔ کراچی کی صورتحال ایسی ہے جیسے کسی کا باپ مر جائے... اور سوتیلی ماں اس کے ساتھ وہ سلوک کرے کہ سب ہمدردی کا اظہار تو کریں لیکن دستِ شفقت رکھنے والا کوئی نہ ہو۔ عمران خان کی پہلی تقریر نے امیدیں رکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا ہے۔ جن لوگوں نے عمران خان کو ووٹ نہیں دیا‘ وہ بھی دل ہی دل میں خود کو کوس رہے ہیں... لیکن اب باتوں کا نہیں عمل کا وقت شروع ہونے والا ہے... چند گزارشات پیش خدمت ہیں۔
جناب عمران خان صاحب!
نامزد وزیر اعظم (اسلامی جمہوریہ نیا پاکستان)
کراچی کا سب سے بڑ امسئلہ پانی کا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ شہر کے تمام واٹر ہائیڈرنٹس میں پانی موجود ہے لیکن گھروں کے نل سوکھے ہوئے ہیں۔ کراچی میں گندگی کے ڈھیر دوسرا بڑا مسئلہ ہے۔ اس شہر نے سب کو آزمایا... سب کو باری باری ووٹ بھی دیئے... کوئی اختیارات کا رونا روتا رہا‘ تو کوئی شاہراہِ فیصل کو بار بار بنا کر سمجھتا رہا کہ پورا شہر پیرس بن چکا ہے۔ آپ نے اپنی پہلی تقریر میں وزیر اعظم ہائوس اور گورنر ہائوسز کو عوامی مقامات بنانے کا اعلان کیا۔ ایک تجویز پیش خدمت ہے‘ آپ سندھ کے گورنر ہائوس پر ٹکٹ لگا کر کم از کم ایک سے دو سال کے لئے عوام کے لئے کھول دیں تاکہ عوام کو یہ تو معلوم ہو کہ کوئی ایک شخص اتنے بڑے قلعے میں کیسے رہتا تھا۔ عوام کو اپنے ٹیکس کے پیسے سے عیاشی کرنے والوں کے کرتوت بھی معلوم ہونے چاہئیں۔ ایسا ہی کچھ آپ اسلام آباد میں ایوانِ صدر اور وزیر اعظم ہائوس کے ساتھ بھی کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کراچی کی نشست برقرار رکھیں گے تو کراچی کا بھلا ہو گا۔ لاہور نے آپ کو چار نشستیں دی ہیں‘ جس میں سے آپ کی نشست ''ری کائونٹنگ‘‘کی زد میں ہے... لیکن کراچی میں آپ کی نشست انتہائی محفوظ ترین ہے۔ اگر آپ کراچی سے وزیر اعظم بنیں گے تو کراچی کا احساس محرومی بھی کافی حد تک کم ہو گا۔ سرمایہ کاروں کو بھی خوشی ہو گی۔ غریبوں کو بھی لگے گا کہ کوئی تو ہے جو ان کا بھی خیال رکھے گا۔ کراچی سے منتخب ہونے والی تحریک انصاف کی قیادت ابھی نا تجربہ کار ہے۔ انہیں کوئی نہیں جانتا۔ یہ سب آپ کے وژن کا انتظار کریں گے۔ آپ کو فالو کریں گے‘ لیکن آپ خود اگر کراچی کی نمائندگی کریں گے تو روشنیوں کا یہ شہر آپ کو کبھی نہیں بھولے گا‘ اور اگر آپ نے ڈلیور کر دیا تو آئندہ انتخابات میں نہ صرف ٹرن آئوٹ زیادہ ہو گا بلکہ پوری اکیس نشستیں آپ کا انتظار کر رہی ہوں گی۔