عمران خان کے لیے انتخاب محدود ہے۔ تخت یا تختہ۔ عصری سیاست کے بطن میں جو کچھ تھا، اُس نے اُگل دیا ہے۔ نواز شریف صاحب فضل الرحمٰن سے بغل گیر ہیں۔ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بدعت سیاست کا روزمرہ بن چکی۔ منظور وٹو مارکہ سیاست اپنا مال بیچ رہی ہے۔ ایم کیو ایم معلوم نہیں مزید کتنے پیرہن بدلے گی۔ منشور، وژن، ملک، عوام، کسی کا کوئی سراغ نہیں۔ سیاست کا ایک ہی اسلوب باقی ہے جو موقع پرستی اور خود غرضی سے عبارت ہے۔ ملک کو ایک متبادل اسلوب سیاست کی ضرورت ہے۔ عمران خان چاہیں تو یہ ضرورت پوری کر سکتے ہیں۔ دس پندرہ نشستوں کی سیاست تحریکِ انصاف کے کسی کام کی نہیں۔ وہ اکثریتی جماعت اگر نہیں بن سکتی تو پھر سیاست میں اس کا کوئی کردار نہ ہو گا۔ یہ اندازِ نظر مولانا فضل الرحمٰن کے لیے موزوں ہے کہ اُن کے سیاسی عزائم کی تکمیل کے لیے اتنی پارلیمانی قوت بہت ہے، تحریکِ انصاف کے لیے نہیں جو نظام کی تشکیلِ نو چاہتی ہے۔ وہ نظام جس کے رگ و پے میں ظلم سرایت کر چکا۔ جو اپنی روح میں غیر عوامی ہے۔ خواص جس کا ہدف ہیں اور جن کے مفادات کا تحفظ اس کے ضمیر میں ہے۔ دو بڑی قومی جماعتوں پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے گزشتہ پانچ برس اقتدار کے ایوانوں میں گزارے۔ یہ سیاسی بساط اگر پانچ سال تک بچھی رہی تو اس کا صرف ایک فائدہ سامنے آیا۔ آج کوئی جماعت اپنی مظلومیت کا عَلم لے کر انتخابی میدان میں نہیں اُتر سکتی۔ اس کے بعد مثبت اندازِ نظر یہی تھا کہ دونوں عوام کے سامنے اپنا نامہ اعمال رکھتے۔ وہ قوم کو بتاتے کہ ان برسوں میں انہوں نے قوم کو کیا دیا۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ کارکردگی کا مقابلہ کرتے۔ بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو رہا۔ اس وقت انتخابی مہم حسنِ کارکردگی کی بنیاد پر نہیں جوڑ توڑ کی اساس پر آگے بڑھ رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن اور نواز شریف کا انتخابی اتحاد آخر کیوں ہے؟ کوئی قدرِ مشترک؟ عوام کے دردوں کا کوئی نسخہ؟ سیاست جس راستے پر آگے بڑھ رہی ہے اس سے واضح ہے کہ اُس کے اسلوب میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اندھوں پر بھی واضح ہے کہ جمعیت علمائے اسلام نے پیپلز پارٹی کے اقتدار سے جو کچھ کشید کرنا تھا، کر لیا۔ انہیں اب معلوم ہے کہ ن لیگ کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ آنے والے دنوں میں مفادات کا تحفظ اسی سے ممکن ہو گا کہ ن لیگ سے دوستی ہو۔ یوں اقتدار کے ایوانوں میں اُن کے قدموں کی چاپ سنائی دیتی رہے اور وہ حسبِ عادت اسلام کی خدمت کرتے رہیں۔ تو کیا اگلے عام انتخابات سے کسی جوہری تبدیلی کی توقع نہیں کی جا سکتی؟ کی جا سکتی ہے، اگر کوئی سیاست میں متبادل اسلوب کے ساتھ نمودار ہو۔ عمران خان یہ کام کر سکتے ہیں کہ سیاست میں اُن کے وجود کا جواز ہی یہی تھا۔ وہ روایتی سیاست کے آدمی نہیں تھے۔ معلوم نہیں کس نے اُنہیں یہ راہ دکھائی کہ اُنہوں نے بھی وہی حیلے اختیار کر لیے، روایتی سیاست جن کے لیے بدنام ہے۔ اُنہوں نے خیال کیا کہ وہ اُن لوگوں کو جمع کریں جو جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اُنہیں یہ گمان ہے کہ اگر وہ نہیں چاہیں گے تو یہ بدعنوانی کا کام نہیں کر سکیں گے۔ پارٹی انتخابات سے انہیں اندازہ ہو گیا ہو گا کہ جمہوریت جب سماجی ساخت کی تبدیلی کے بغیر آتی ہے تو کیا ہوتا ہے۔ انہوں نے اخبارات میں میاں محمودالرشید کی تصویر تو دیکھ لی ہو گی کہ کیسے انقلاب کے نقیب ان کی تواضع کر رہے ہیں۔ محمودالرشید ان لوگوں میں سے ہیں، ۳۰ اکتوبر ۲۰۱۱ء کا جلسہ جن کی محنت کا ثمر تھا۔ آج اُن کی خاطر مدارت وہ لوگ کر رہے ہیں جو بعد میں آئے۔ جمہوریت میں یوں ہی کایا کلپ ہوتی ہے۔ یہاں قربانیوں کا بدلہ ایسے ہی ملتا ہے۔ سب کچھ بدل جاتا ہے اور اوپر بیٹھا دیکھتا رہ جاتا ہے۔ سادہ سی بات ہے۔ا گر سیاست کا چلن روایتی ہو گا تو ان لوگوں کی کامیابی کا امکان زیادہ ہے جو اس کھیل کے تجربہ کار کھلاڑی ہیں۔ وہ نسلوں سے یہی سیاست کر رہے ہیں۔ وہ ایک ایک حلقہ انتخاب کے بارے میں جانتے ہیں کہ کس برادری کا ووٹ کتنا ہے اور کس کے جیتنے کا امکان کیوں زیادہ ہے۔ وہ عوام پر سرمایہ کاری نہیں کرتے، جیتنے والوں پر محنت اور سرمایہ صرف کرتے ہیں۔ عمران اس میدان کا کھلاڑی نہیں ہے۔ وہ اگر سمیع اللہ اور حسن سردار کے ساتھ ہاکی کھیلے گا تو پھر پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ میدان کس کے ہاتھ رہے گا۔ ہاں اگر میدان کرکٹ کا ہے تو پھر اس کی کامیابی کا امکان سب سے زیادہ ہے۔ عمران خان کی پہلی کامیابی یہ ہے کہ وہ کھیل کو کرکٹ کے میدان میں لے آئے۔ وہ اسے روایتی سیاست سے نکال کر غیر روایتی راستے پر ڈال دے۔ سادہ لفظوں میں اس کا انحصار تین باتوں پر ہو۔ ایک وژن اور اس پر مبنی تبدیلی کا لائحہ عمل۔ بے داغ قیادت اور براہ راست عوام سے رابطہ، کسی وسیلے کے بغیر۔ سیاست سے جتنی تبدیلی ممکن ہے، وہ اسی طرح آ سکتی ہے۔ وژن کے بغیر لائحہ عمل ٹاسک فورس کی ایک مشق ہے جو حکومتیں اکثر کرتی ہیں لیکن اس شجر پر کبھی برگ و بار نہیں آتے۔ ماحولیاتی پالیسی جیسی باتیں قابل قدر ہیں لیکن اس کام کے لیے کسی وژن کی ضرورت نہیں۔ ماحولیاتی علوم کے چند ماہرین مل کر ایسی پالیسی تشکیل دے سکتے ہیں۔ لیڈر وژن دیتا ہے، ٹاسک فورس جس کا متبادل نہیں ہوتی۔ بے داغ قیادت سے مراد فرشتوں کی جماعت نہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جو تبدیلی کا عزم اور صلاحیت رکھتے ہیں۔ جن کا طرز عمل گواہ ہے کہ سیاست ان کے لیے کاروبار نہیں ہے جس طرح روایتی سیاست میں ہوتا ہے۔ براہ راست عوامی رابطہ یہ ہے کہ وہ جیتنے کی صلاحیت رکھنے والوں (electables) سے بے نیاز ہو جائے۔ اُن کا محتاج نہ رہے۔ اسے کسی شاہ محمود قریشی کی ضرورت نہ رہے جو اپنے کاندھوں پر جاگیرداری اور پیری کا بوجھ لادے ہوئے ہو۔ عمران خان چاہے تو ۲۳مارچ ۲۰۱۳ء کو ۳۰اکتوبر ۲۰۱۱ء جیسا یاد گار دن بنا سکتا ہے۔ ۳۰اکتوبر کو اُس نے روایتی سیاست کے علمبرداروں کے بغیر ایک جہانِِ تازہ کی بنیاد رکھی تھی۔ ۲۳مارچ کو وہ یہ بیسا کھیاں توڑنے کا اعلان کر سکتا ہے۔ اس دن وہ قوم کو ایک وژن دے سکتا ہے۔ ایک لائحہ عمل دے سکتا ہے۔ ایک نئی ٹیم متعارف کرا سکتا ہے اور عوام کے ساتھ براہ راست رابطے کا آغاز کر سکتا ہے۔ یہ تینوں کام ممکن ہے کسی سطح پر ہو رہے ہوں لیکن اُنہیں اب ایک واضح حکمتِ عملی میں ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ عمران کو اس کام کے لیے نواز شریف زرداری کی گردان سے بھی نکلنا ہو گا۔ اُس کے وجود میں اب ایک لیڈر کے خدوخال دکھائی دینا چاہیں۔ ان دونوں شخصیات پر وہ ضرورت سے زیادہ گفتگو کر چکا۔ اب وہ عوام کی معلومات میں مزید کوئی اضافہ کر سکتا ہے نہ ان حضرات کے بارے میں ان کے تاثرات کو زیادہ تبدیل کر سکتا ہے۔ یہ تحصیلِ لاحاصل کی مشق ہے اور اس سے گریز ہی بہتر ہے… نشستوں کی سیاست عمران خان کے طرز سیاست کے لیے موزوں ہے نہ ملک و قوم کو اس کا کوئی فائدہ ہے۔ سیاست کے تمام کھلاڑی روایتی سیاست سے نکل نہیں سکے۔ مولانا فضل الرحمٰن سے بغل گیر ہونے کے بعد نواز شریف نے بھی اپنے سیاسی عقیدے کا اظہار کر دیا۔ اب زرداری صاحب کے اسلوب سیاست پر تنقید کا اخلاقی جواز ان کے پاس باقی نہیں رہا۔ عمران خان بھی یہ جواز کھو دے گا، اگر وہ یہی حیلے اختیار کر ے گا۔ تحریک انصاف اس وقت ملک میں جاری سیاسی سرگرمیوں کا حصہ نہیں ہے۔ روایتی سیاست میں یہ بات باعث تشویش ہے اور کمزوری کی علامت۔ عمران خان اسے اپنی طاقت میں بدل سکتا ہے اگر وہ غیرروایتی سیاست کا عَلم تھام لے۔ اس میں تحریکِ انصاف کی بقا ہے اور اسی میں ملک و قوم کے لیے خیر ہے۔ وہی دیرینہ بیماری، وہی نامحکمی دل کی علاج اس کا وہی آبِ نشاط انگیز ہے ساقی